Ruh-ul-Quran - Hud : 53
قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰهُوْدُ : اے ہود مَا جِئْتَنَا : تو نہیں آیا ہمارے پا بِبَيِّنَةٍ : کوئی دلیل (سند) لے کر وَّمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِتَارِكِيْٓ : چھوڑنے والے اٰلِهَتِنَا : اپنے معبود عَنْ قَوْلِكَ : تیرے کہنے سے وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم لَكَ : تیرے لیے (تجھ پر) بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
انھوں نے کہا اے ہود تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا اور نہ ہم تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ تجھ پر ہم ایمان لانے والے ہیں۔
قَالُوْا یٰـھُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِکِیْ ٓ اٰلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ (سورۃ ہود : 53) (انھوں نے کہا اے ہود تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا اور نہ ہم تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ تجھ پر ہم ایمان لانے والے ہیں۔ ) بَیِّنَۃٍکا مطالبہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے گزشتہ آیات میں اللہ کی الوہیت کو کو دلائل سے ثابت کیا اور پھر اپنے رویئے اور اخلاص کو بطور دلیل کے ان کے سامنے پیش کیا جس سے ایک طرف آپ کی دعوت کا اثبات ہوتا تھا اور دوسری طرف آپ کی رسالت کا یقین پیدا ہوتا تھا۔ اس کے بعد آپ نے ترغیب دیتے ہوئے اپنی قوم سے کہا کہ تم اگرچہ بہت بگڑ چکے ہو اور تمہارے اندر بیشمار خرابیاں پید ہوچکی ہیں اس کے باوجود میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم اللہ سے استغفار کرو اور ہر طرف سے کٹ کر اس کے احکام کی طرف پلٹ آئو تو تم دیکھو گے کہ کس طرح وہ تمہیں خوشحالیوں سے نوازتا اور کس طرح تمہاری سیاسی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس قدر مثبت اور موثر تبلیغ و دعوت کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ یا تو اس دعوت کو قبول کرلیتے اور یا اس کے جواب میں اپنے مؤقف کے اثبات کے لیے مضبوط دلائل دیتے، لیکن وہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنی مسلسل گمراہیوں اور عیاشیوں کے باعث روحانی تقاضے تو ایک طرف رہے دل و دماغ کی شائستگی سے بھی محروم ہوچکے تھے۔ اس لیے بالکل جاہل لوگوں یا بچوں کی طرح ایک ایسی بات کہہ رہے تھے جس کی کسی بھی عقلمند اور شائستہ مزاج قوم سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ انھوں نے کہا کہ اے ہود ! تم ہم سے بہت سے تبدیلیوں کا مطالبہ کررہے ہو۔ تم چاہتے ہو ہم اپنے خدائوں کو چھوڑ دیں اور ایک خدا پر ایمان لے آئیں۔ اپنی زندگی کے طوراطوار کو یکسر تبدیل کرلیں۔ بنیادی نظریات سے لے کر آداب زندگی تک ہر چیز کا فیصلہ تمہاری رہنمائی میں کریں۔ اپنے تمام بڑوں کو رد کرکے تمہاری بڑائی کے سامنے جھک جائیں۔ اتنی بڑی تبدیلیوں کے لیے چند دلائل کافی نہیں، کوئی بہت بڑی شہادت ہونی چاہیے۔ ایک ایسی شہادت جو ہمیں تمہاری ہر بات ماننے پر مجبور کردے۔ دلیل کی کاٹ تو دلیل سے ممکن ہے اور یہ ایسی چیز نہیں جو اپنے مخاطب کو ماننے پر مجبور کردے۔ ہمیں تو کوئی ایسی نشانی دکھائیے، کوئی ایسی حیران کن غیرمعمولی چیز ہمارے سامنے لایئے جسے دیکھ کر مانے بغیر چارہ نہ ہو۔ یہ مسئلہ صرف قوم ہود کا نہیں، جب تک انسان فکری طور پر بالغ نہیں ہوجاتا اور اس کے مفادات کی زنجیریں ٹوٹ نہیں جاتیں، تعصبات سے نکلنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوجاتی اور اس کی نظر پیکر محسوس کے دائرے سے آزاد ہونے میں کامیاب نہیں ہوتی، اس وقت تک ہر داعی الی الحق سے ایسے ہی مطالبات کیے جائیں گے۔ چناچہ قوم ہود بھی اپنے تاریخ کی آواز تھی۔ اس نے اپنی سطح کے مطابق نہ صرف بینہ کا مطالبہ کیا بلکہ حضرت ہود کو ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے یہ کہا :
Top