Ruh-ul-Quran - Hud : 58
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا١ۚ وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
وَلَمَّا : جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم نَجَّيْنَا : ہم نے بچا لیا هُوْدًا : ہود وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَنَجَّيْنٰهُمْ : اور ہم نے بچا لیا مِّنْ : سے عَذَابٍ : عذاب غَلِيْظٍ : سخت
اور جب آگیا ہمارا حکم تو ہم نے نجات دے دی ہود کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، اپنی رحمت کے سبب سے۔ اور ہم نے انھیں سخت عذاب سے نجات دے دی۔
وَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا ھُوْدًاوَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا ج وَنَجَّیْنٰھُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ ۔ (سورۃ ہود : 58) (اور جب آگیا ہمارا حکم تو ہم نے نجات دے دی ہود کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، اپنی رحمت کے سبب سے۔ اور ہم نے انھیں سخت عذاب سے نجات دے دی۔ ) اللہ تعالیٰ کا عذاب حضرت ہود (علیہ السلام) کی آخری تنبہہ بھی جب انھیں عقل کے ناخن لینے پر آمادہ نہ کرسکی تو آخر اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق اپنے رسول اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور باقی پوری قوم کو تباہ کردیا گیا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح حضرت ہود اور آپ پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچایا۔ لیکن اس آیت سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کی شدت اور اس کی وسعت کو دیکھتے ہوئے بچ جانے کا کوئی امکان نہ تھا، لیکن یہ محض اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی جس نے انھیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ آیت کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب اپنی ہولناکیوں اور تباہیوں میں اپنی مثال آپ تھا کیونکہ جس عذاب کو خود پروردگار عذاب غلیظ قرار دے اس کی شدت کا کیا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور ایسے ہولناک عذاب سے جنھیں محفوظ رکھا گیا ہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے تعلق اور ان پر اس کی رحمت کا کیا تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں عذاب کی نوعیت کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس کی کوئی تفصیل بھی بیان نہیں کی گئی۔ مولانا فراہی ( رح) نے سورة زاریات کی تفسیر میں اس عذاب کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے ہم اسے یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔ (قرآن مجید میں قوم عاد کی ہلاکت کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان پر جو شخص غور کرے گا اس سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہ سکتی کہ وہ تند ہوا کے ذریعے سے ہلاک کیے گئے جس کے ساتھ سرما کے وہ بادل بھی تھے جو ہمیشہ رعدوبرق کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ قرآن میں جہاں ان کی تباہی کا ذکر ہوا ہے ہوا کے ساتھ پانی سے خالی بادلوں اور صاعقہ کا بھی ذکر ہے۔ سورة احقاف میں ہے فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ط بَلْ ھُوَمَااسْتَعْجَلْتُمْ بِہٖ ط رِیْحٌ فِیْھَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ تُدَمِّرُکُلُّ شَیْ ئٍ بِاَمْرِرَبِّھَا (پس جب انھوں نے اس کو (عذاب کو) دیکھا ابر کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے، بولے یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے تھے، بادتند جس کے اندر ایک دردناک عذاب ہے۔ یہ اکھاڑ پھینکے گی ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے۔ ) ظاہر ہے یہ تمام خصوصیات موسم سرما کی بادتند کی ہیں۔ اس زمانے میں، عرب میں بادشمال صرصر کی شکل میں نمودار ہوتی ہے اور قحط و خشکی کی ایک عام نحوست اور تباہی ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ سورة قمر میں اس چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِوٍّ ( اور ہم نے ان پر باد صرصر چلا دی قائم رہنے والی نحوست کے زمانے میں) اسی طرح حٰم ٓ السجدہ میں ہے فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ ٓ اَیَّامٍ نَحِسَاتْ (پس ہم نے ان پر باد صر صرچلادی نحوست کے زمانے میں) باد صر صر کے یہ طوفان، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، عرب میں جاڑوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہی زمانہ ان کے ہاں نحوست اور فاقہ کا سمجھا جاتا ہے۔ ) ہمارے قدیم مفسرین بھی بعض روایات کی مدد سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قوم عاد پر بادتند کی صورت میں عذاب آیا تھا اور اس کی تندی اور تیزی کا عالم یہ تھا کہ کوئی درخت اس کے سامنے نہ ٹھہر سکا، درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، عمارتیں ڈھے گئیں، زندہ انسانوں اور حیوانوں کو ہوا اس طرح اچھالتی تھی کہ وہ فضائے آسمانی میں پہنچ کر چیختے ہوئے زمین پر گرتے تھے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے تھے۔ اس طرح سے ایک ایسی ہولناک تباہی مچی جس کو دیکھ کر بھی پتہ پانی ہوتا تھا۔
Top