Ruh-ul-Quran - Hud : 5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ١ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّھُمْ : بیشک وہ يَثْنُوْنَ : دوہرے کرتے ہیں صُدُوْرَھُمْ : اپنے سینے لِيَسْتَخْفُوْا : تاکہ چھپالیں مِنْهُ : اس سے اَلَا : یاد رکھو حِيْنَ : جب يَسْتَغْشُوْنَ : پہنتے ہیں ثِيَابَھُمْ : اپنے کپڑے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا يُعْلِنُوْنَ : اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کے بھید
سنو ! وہ اپنے سینے موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔ آگاہ رہو جس وقت وہ خوب اوڑھ لیتے ہیں اپنے کپڑے تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ تو سینوں کے بھیدوں سے اچھی طرح باخبر ہے۔
اَلآَ اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَہُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُط اَلاَحِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَہُمْ لَا یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَج اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۔ (سورۃ ہود : 5) (سنو ! وہ اپنے سینے موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔ آگاہ رہو جس وقت وہ خوب اوڑھ لیتے ہیں اپنے کپڑے تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ تو سینوں کے بھیدوں سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ) یثنون اور یستغشون کا مفہوم اور مراد یَثْنُوْنَ ۔ ثَنْیٌسے ہے۔ ثَنْیٌکا معنی ہے پھیرنا، موڑنا، طے کرنا، دہرا کرنا اور لپیٹنا۔ جب کسی شخص کے تکبر اور انکار پر مبنی رویے کی منظر کشی کی جاتی ہے تو اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص فلاں بات کے حوالے سے اس قدر بےرخی، انکار اور تکبر پر تلا ہوا ہے کہ اس کا دماغ تو اس بات کو ماننے سے انکار کرتا ہی ہے اس کی جسمانی کیفیت بھی یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلو بدلتا ہے، سینہ موڑتا ہے اور بل کھاتا ہوا چل نکلتا ہے۔ قرآن کریم نے سورة حج آیت نمبر 9 میں اسی حالت کو ثانی عطفہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے مخالفین مختلف طور اطوار کے حامل تھے ان کی مخالفت کے انداز بھی جدا جدا تھے۔ انہی میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ابھی تک خاندانی وضع داری اور معاشرتی آداب پر قائم تھے لیکن نبی کریم ﷺ کی دعوت کے انکار اور تکذیب میں کسی سے کم نہ تھے وہ بجائے رو در رو ناگوار کلمات کہنے کے آپ کے سامنے آنے سے احتیاط کرتے تھے جب کبھی کسی مجلس میں ان کی موجودگی میں آنحضرت ﷺ قرآن کریم پڑھ کر سناتے یا کوئی نصیحت فرماتے تو وہ سر جھکا کر اور سینہ سمیٹ کر اپنے آپ میں گم ہوجاتے۔ اور اگر کبھی آمنا سامنا ہوجاتا تو رخ پھیر کر اور منہ چھپا کر نکل جاتے۔ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَہُمْسے ان کی اسی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور کبھی ایسا ہو تاکہ آنحضرت ﷺ انھیں اپنی دعوت کا مخاطب بنانے کی کوشش کرتے تو وہ اپنی چادر کو جو عربوں کے لباس کا مستقل حصہ تھی پٹھانوں کی طرح اپنے سَر پر ڈال کر اپنے گرد لپیٹ لیتے اور وہاں سے چل دیتے۔ اس طرح وہ یہ سمجھتے کہ ہم نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کی دعوت اور آپ کے انذار سے محفوظ کرلیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کی شکایت کرتے ہوئے ان کے اسی رویہ کا ذکر کیا ہے جس سے بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ سورة نوح آیت نمبر 7 میں ہے۔” وَاِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَلَہُمْ جَعَلُوْا اَصَابِعَہُمْ فِیْ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَ اَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوْا اِسْتِکْبَارًا “ (اور میں نے جب جب ان کو دعوت دی کہ تو ان کی مغفرت فرمائے انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنی چادریں لپیٹ لیں اور ضد کی اور نہایت گھمنڈ کیا) ۔ زیر بحث آیت کریمہ میں بھی اسی رویہ کو استغشاء ثیاب سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اللہ کے نبیوں کا کام کس قدر کٹھن کام ہے کہ انھیں ایسے ایسے چرکے برداشت کرنے پڑتے ہیں جس سے بعض دفعہ احساسات بھی چٹخنے لگتے ہیں۔ یہی اذیت کیا کم ہے کہ لوگ قسم قسم کے اعتراضات کریں، مذاق اڑائیں، تمسخر کریں، زندگی دشوار کردیں، جسمانی اذیتوں تک نوبت پہنچے، بعض دفعہ بائیکاٹ تک کردیں لیکن ان سب سے بڑی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کے قابل ذکر لوگ بات سننے کے روادار نہ ہوں اور آپ کے انذار سے بچنے کے لیے کبھی پہلو بدل کر نکل جائیں اور کبھی اپنے آپ کو کپڑوں میں لپیٹ لیں اور یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنے آپ کو ان کے انذار سے محفوظ کرلیا ہے۔ یہ رویہ ایک طرف پیغمبر کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے تو دوسری طرف نہایت احمقانہ بھی ہے کہ یہ عقل و دانش کے دعوے دار کیسی حماقتوں پر اتر آئے ہیں کہ ان کے سامنے زندگی کی صداقتیں ہیں جن کے ردّوقبول کا مسئلہ درپیش ہے اور یہ پہلو بدل کر سینہ موڑ کر اور کپڑوں میں لپٹ کر شترمرغ کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کو طوفان سے محفوظ کرلیا ہے۔ جس طرح شترمرغ ریت میں سر چھپا کر طوفان سے محفوظ نہیں ہوجاتا اسی طرح یہ بھی اپنے آپ کو پیغمبر کے انذار اور اس کے نتیجے میں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتے۔ ان کی ایک ایک بات اللہ کے سامنے ہے یہ آنحضرت ﷺ سے تو چھپ سکتے ہیں اللہ سے نہیں چھپ سکتے اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جب یہ لوگ اپنے کپڑوں میں لپٹ رہے ہوتے ہیں تو اللہ ان کی ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو یہ چھپاتے ہیں اور جن کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ اللہ کی ذات تو سینوں کے بھیدوں سے واقف ہے اس سے کون چھپ سکتا ہے۔
Top