Ruh-ul-Quran - Hud : 71
وَ امْرَاَتُهٗ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ١ۙ وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ
وَامْرَاَتُهٗ : اور اس کی بیوی قَآئِمَةٌ : کھڑی ہوئی فَضَحِكَتْ : تو وہ ہنس پڑی فَبَشَّرْنٰهَا : سو ہم نے اسے خوشخبری دی بِاِسْحٰقَ : اسحٰق کی وَ : اور مِنْ وَّرَآءِ : سے (کے) بعد اِسْحٰقَ : اسحق يَعْقُوْبَ : یعقوب
اور ان کی اہلیہ (سارہ) کھڑی تھیں، وہ ہنس پڑیں۔ پھر ہم نے سارہ کو خوشخبری دی، اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔
وَامْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَ لا وَمِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ ۔ قَالَتْ یٰوَیْلَتٰٓی ئَ اَلِدُوَاَنَا عَجُوْزٌوَّھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا ط اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عَجِیْبٌ۔ قَالُوْآ اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکٰـتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ ط اِنَّہٗ حَمِیْدٌمَّجِیْدٌ۔ (سورۃ ہود : 71، 72، 73) (اور ان کی اہلیہ (سارہ) کھڑی تھیں، وہ ہنس پڑیں۔ پھر ہم نے سارہ کو خوشخبری دی، اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ سارہ نے کہا ہائے حیرانی، کیا میں بچہ جنوں گی، حالانکہ میں خود ایک بڑھیا ہوں اور یہ میرے شوہر بوڑھے ہیں۔ یقینا یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے۔ فرشتے کہنے لگے کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر، اے ابراہیم کے گھر والو ! بیشک وہ سزا وار حمد ہے اور بڑی شان والا ہے۔ ) حضرت سارہ کی مسرت اور حیرت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب مہمانوں کے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانے کی وجہ سے پریشان ہوئے اور آپ کو یہ گمان ہوا کہ یہ میرے مہمان انسان نہیں فرشتے ہیں اور یہ یقینا کسی خاص مہم پر آئے ہیں اور اللہ نہ کرے کہیں ہم ہی اس کے نشانہ ہوں تو وہ یقینا اس پریشانی میں اپنے اہل خانہ میں بھی اٹھ کر گئے ہوں گے اور انھیں بھی اپنی پریشانی سے آگاہ کیا ہوگا۔ اہل خانہ میں حضرت سارہ کے سوا اور تو کوئی نہ تھا۔ چناچہ وہ بھی اس پریشانی میں اس خیمے یا کمرے کے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئیں جہاں مہمانوں کو بٹھایا گیا تھا۔ چناچہ جیسے ہی مہمانوں نے یہ بتایا کہ ہم فرشتے ہیں لیکن ہم آپ کی طرف نہیں بھیجے گئے بلکہ ہمیں قوم لوط کی طرف بھیجا گیا۔ یہ بات سن کر یقیناً انھیں بےحد خوشی ہوئی۔ اس پر بےساختہ ان کے چہرے پر ہنسی پھیل گئی۔ چناچہ ان کی خوشی میں مزید اضافہ کرنے کے لیے پروردگار کی رحمت جوش میں آئی اور وہ براہ راست حضرت سارہ کی طرف متوجہ ہوئی اور متوجہ ہونے کا سبب یہ تھا کہ کئی سال پہلے اللہ نے حضرت ہاجرہ کو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جیسا عظیم فرزند عطا فرمایا تھا جنھیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کے جوار میں آباد کیا تھا اور وہاں وہ اپنی والدہ کی تربیت میں جوانی کی حدود سے گزر رہے تھے لیکن حضرت سارہ دعائوں اور آرزوئوں میں اولاد کی عمر گزار چکی تھیں۔ آج تک ان کی گود میں وہ پھول نہ کھلا تھا جس کی انھیں آرزو تھی اور اب وہ نوے سال کی ہورہی تھیں اور ان کے شوہرنامدار سو سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوئی تاکہ ان کی گزشتہ کلفتوں کا ازالہ ہوسکے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حضرت اسحاق (علیہ السلام) جیسے عظیم فرزند کی بشارت دی اور اس خوشی کو مزید اس خوشخبری سے دوبالا کردیا گیا کہ حضرت اسحاق اللہ تعالیٰ کے فضل سے لمبی عمر پائیں گے اور انھیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) جیسے فرزند سے نوازا جائے گا جن کے صلب سے بنی اسرائیل جیسی عظیم قوم اٹھائی جائے گی جو صدیوں تک ہدایت کی مشل کو فروزاں رکھے گی۔ خوشخبریوں کی اس آبشار نے حضرت سارہ کو نہال کردیا اور وہ بےخودی اور تعجب میں پکار اٹھیں، ہائے میری حیرانی کہ میں اس عمر میں بچہ جنوں گی کہ میں خود نوے سال کی بڑھیا ہوں اور میرے میاں سو سال کے بوڑھے ہیں۔ حضرت سارہ کے لہجے میں تعجب، مسرت، حیرانی اور خوشی کا ملا جلا اظہار تھا۔ اس پر ان کا یٰوَیْلَتٰٓیکہنا اپنے لغوی معنی میں نہیں بلکہ اس معنی میں ہے جس میں خواتین اسے استعمال کرتی ہیں۔ ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ ایک ہی لفظ مردوں کے استعمال میں اور معنی دیتا ہے اور عورتوں کے استعمال میں اور۔ یہی حال اس لفظ کا بھی ہے۔ وَیْلَتٰی اصل میں وَیْلَتِی تھا۔ تخفیف کے لیے ی کو الف سے بدل دیا۔ وَیْل کا لغوی معنی ہلاکت ہے۔ یہاں اس سے مراد اپنے لیے بددعا کرنا نہیں محض اظہار حیرت و تعجب مقصود ہے اور عورتیں عام طور پر اظہارتعجب کے لیے ایسے الفاظ ہی استعمال کرتی ہیں۔ (قرطبی) اظہارتعجب میں انکار مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایک دبی دبی خوشی اپنی آرزوئوں کے برآنے میں جو موانع دیکھتی ہے ان کے ذکر سے اپنی خوشیوں کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ تعجب اس بات پر نہیں ہوتا کہ دینے والا کیسے دے گا بلکہ اس پر ہوتا ہے کہ دینے والا یقینا ہرحال میں دینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن لینے والے کے ہاتھوں میں نہ سکت ہو نہ کشکول، تو اس کی اپنی بےبضاعتی تھوڑا سا متردد ضرور کردیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ شاید انسان کی فطرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ذکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو انھوں نے بھی ایسے ہی تعجب کا اظہار کیا اور جب حضرت مریم کو بیٹے کی امانت سپرد کرنے کی بات ہوئی تو ان کی طرف سے بھی ایسے ہی تعجب کا اظہار ہوا، حالانکہ تمام مثالوں میں نہ انکار پایا جاتا ہے نہ استبعاد۔ یہی کیفیت یہاں بھی ہے۔ فرشتوں نے حضرت سارہ کی بات سن کر ان کی کیفیت کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور ٹھیک تعبیر اختیار کی۔ کہا کہ کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کا اظہار کرتی ہیں جبکہ آپ جانتی ہیں۔ اے اہل بیت نبی ! کہ خدا کے کسی کام اور اس کے کسی ارادے میں تعجب کی گنجائش نہیں ہوتی اور پھر آپ کی شان ہی الگ ہے۔ آپ پر تو اللہ کی خاص رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ آپ کا گھرانہ تو ہمیشہ سے اس کی برکتوں کا مورد رہا ہے اور پھر اس میں علیکم میں جمع مذکر کی ضمیر لا کر یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے آپ کے بیت اور اہل بیت کو اپنی رحمتوں کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ آپ تو اس پر جس قدر اللہ کی تعریف کریں وہ اس کا سزاوار ہے۔ اہل بیت کون ہیں ؟ اس آیت میں غور فرمائیے یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ کو اہل بیت کہا گیا ہے اور دنیا بھر کے معاشرتی دستور میں اہل خانہ میں سب سے پہلے بیویاں داخل ہوتی ہیں لیکن اس پر کس طرح دکھ کا اظہار کیا جائے کہ ہمارے کچھ دوستوں نے آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج کردیا ہے حالانکہ عقل اور نقل اس بات پر شاہد ہے کہ سورة الاحزاب میں اہل بیت کو جو بشارت دی گئی ہے اس میں اولاً اور اصلاً آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات داخل ہیں اور ثانیاً دوسرے حضراتِ قدسی ؓ
Top