Ruh-ul-Quran - Hud : 85
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اَوْفُوا : پورا کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول بِالْقِسْطِ : انصاف سے وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی چیزیں وَلَا تَعْثَوْا : اور نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے
اور اے میری قوم پورا کیا کرو ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ، اور نہ گھٹا کردیا کرو لوگوں کو ان کی چیزیں اور نہ پھر و زمین میں فساد برپا کرتے ہوئے۔
وَیٰـقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ ولاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَلاَ تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ۔ (سورۃ ہود : 85) (اور اے میری قوم پورا کیا کرو ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ، اور نہ گھٹا کردیا کرو لوگوں کو ان کی چیزیں اور نہ پھر و زمین میں فساد برپا کرتے ہوئے۔ ) سابقہ آیت کا مضمون ایک دوسرے پہلو سے وہ بات جو پہلی آیت میں کہی گئی ہے اسے دوسرے پہلو سے ارشاد فرمایا جارہا ہے۔ پہلے صرف ناپ تول میں کمی سے روکا گیا، اب یہ فرمایا جارہا ہے کہ زندگی کی اصل ضرورت قسط کا قائم کرنا ہے۔ اس کی ضرورت صرف ناپ تول میں نہیں، زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ جہاں کہیں قسط کو نقصان پہنچتا ہے وہاں اعتدال رخصت ہوجاتا ہے جبکہ یہی وہ حقیقتِ قائمہ ہے جس پر زندگی کی عمارت استوار ہے۔ آپ جسم کی ضرورتوں کو دیکھ لیجئے، اس کے تناسب کو دیکھ لیجئے، اس کے حسن جمال کو دیکھ لیجئے، اس کی صحت پر غور کرکے دیکھ لیجئے، اس کی احساسات کی دنیا کو دیکھ لیجئے، اس کے انفعالات کا جائزہ لیجئے، اس کی دماغی رعنائیوں اور عملی قوتوں کو دیکھئے، ان تمام میں وہ حقیقت جو انھیں قابل عمل رکھتی ہے اور کارآمد بناتی ہے وہ صرف حقیقتِ اعتدال ہے۔ اسی کو عدل اور قسط کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ترازو کے دونوں پلڑوں کا برابر ہونا یہی عدل بھی ہے اور قسط بھی۔ لوگوں کے ساتھ معاملات میں جہاں بھی کمی بیشی ہوتی ہے چاہے وہ لین دین میں ہو، میل جول میں ہو، تعلقات اور قرابت داری میں ہو، زندگی کے کسی بھی معاملے میں ہو، وہیں اعتدال رخصت ہوجاتا ہے اور وہیں سے فساد کو راستہ ملتا ہے۔ زندگی میں ہمیں جہاں جہاں بھی ناہمواریاں نظر آتی ہیں چاہے وہ انفرادی زندگی میں ہوں یا اجتماعی زندگی میں، اس کا دائرہ معاشرتی ہو یا معاشی، اس کا رشتہ حکومت سے وابستہ ہو یا عدالت سے وہ اسی حقیقت کے گم ہوجانے کے سبب سے ہیں۔ ہر جگہ جو حقیقت، استحکام اور نمو پر دلالت کرتی ہے اور جو فساد اور خرابی سے بچاتی ہے وہ ان تعلقات کی یکسانی اور اس کے پلڑوں کا برابر ہونا ہے۔ انسانی تعلقات میں حاکم اور محکوم، آمر اور مامور کا رشتہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دفاتر سے لے کر کارخانوں اور ملوں تک اسی رشتے کی صحت پر تمام امور کی استواری کا دارومدار ہے اور جہاں اس چیز کا فقدان ہوتا ہے اس سے فساد جنم لیتا ہے۔ مالک جب اپنے مزدوروں کو صحیح حقوق نہیں دیتا تو ان کے اندر ایک اشتعال اور ایک نفرت پیدا ہوتی ہے اور مزدور اور محکوم جب اپنے مالک سے ہمدردی اور خیرخواہی کا رشتہ توڑ دیتے ہیں تو مالک کے دل میں ان کی طرف سے ایک بغض پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح تجارتی تعلقات میں بھی ایک شخص بیچتا ہے اور دوسرا خریدتا ہے، دونوں کے درمیان اگر عدل کا رشتہ قائم ہے تو کاروبار میں ترقی ہوگی اور اگر یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر نہ صرف کاروبار تباہ ہوتا ہے بلکہ کاروبار کرنے والے بھی تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جن ملکوں میں بھی معاشی انقلاب کے نام سے حالات تلپٹ ہوئے ہیں ان کے اگر آپ اسباب تلاش کریں گے تو ان ہی بنیادی تعلقات کی ناہمواری اور عدل و قسط کی پامالی کو بنیادی سبب کے طور پر محسوس کریں گے۔ سمجھا تو یہ جاتا ہے کہ ہمیشہ مالک اپنے مزدوروں پر ظلم کرتا ہے، لیکن جب کہیں مزدور انقلاب کے لیے تحریکیں چلتی ہیں اور معاملہ خانہ جنگی تک پہنچ جاتا ہے تو مزدوروں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ سب سے پہلے اپنے مالکوں کو ذبح کرتے ہیں اور اگر انھیں ملوں اور کارخانوں پر انتظامیہ کی حیثیت دے کر بٹھا دیا جائے تو یہ سابقہ مالکوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے اقبال نے کہا تھا : زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی آیت کے آخر میں خطاب انھیں لوگوں سے ہیں جو تجارتی معاملات کو اپنی خیانتوں کے باعث غیرمتوازن اور ناہموار کرنے کے ذمہ دار تھے۔ ان سے فرمایا جارہا ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ان خیانتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہو اور اس طرح سے اپنی امارت اور رفاہیت میں اضافہ کرسکتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم فساد کا دروازہ کھول رہے ہو۔ جن لوگوں کے ساتھ تم زیادتی کررہے ہو وہ شاید زیادہ دیر تک برداشت نہ کرسکیں۔ ایک وقت آئے گا ان کی غربت ان کے اندر اشتعال پیدا کرے گی اور اس اشتعال کا رخ تمہاری جانب ہوگا کیونکہ وہ بجاطور پر یہ سمجھیں گے کہ تم ان کی محرومیوں کا باعث ہو۔ جہاں کہیں بھی غریبوں میں انقلاب اٹھا ہے اس کا نتیجہ اس سے مختلف کبھی بھی نہیں رہا کہ وہ امراء جو ان کا خون چوستے تھے، غریب پھر ان کا لہو پیتے ہیں۔ کسی نے ٹھیک کہا : غریبوں میں جو انقلاب آرہا ہے امیروں کا یوم حساب آرہا ہے اس لیے اگر دوسروں کی پرواہ نہیں، اپنے انجام کی تو فکر کرو۔ اپنے طرز عمل کو درست کرو تاکہ فساد کا دروازہ کھلنے نہ پائے اور اس کی یہی ایک صورت ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اللہ کے دین کو اختیار کرلو۔
Top