Ruh-ul-Quran - Hud : 86
بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ١ۚ۬ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
بَقِيَّتُ : بچا ہوا اللّٰهِ : اللہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے وَ : اور مَآ : نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
اللہ کا بخشا ہوا منافع تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم صاحب ایمان ہو اور میں تم پر نگران نہیں ہوں۔
بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 5 ج وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ ۔ (سورۃ ہود : 86) (اللہ کا بخشا ہوا منافع تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم صاحب ایمان ہو اور میں تم پر نگران نہیں ہوں۔ ) گزشتہ مضمون کی تکمیل یہ گزشتہ آیت کے مضمون کی تکمیل ہے اور اس میں انسان کی نفسیاتی کمزوریوں میں سے ایک بہت بڑی کمزوری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ چاہے اس کے پاس قارون کا خزانہ کیوں نہ ہو، وہ کبھی اسے اپنے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ جب اپنے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ یہ خواہش کرتا ہے کہ کاش مجھے اتنا مل جائے کہ میری ضرورتوں کے لیے کفایت کرے لیکن جب بقدر کفایت مل جاتا ہے تو پھر قدم آگے بڑھنے لگتا ہے جو کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ کفایت کے بعد تکلف آتا ہے، پھر تعیش آتا ہے اور پھر آدمی ان حدود سے گزر جاتا ہے جو انسانیت سے عبارت ہیں۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں پہلے قدم کو روکا گیا ہے کہ تم اگر ایک آسودہ زندگی گزارنا چاہتے ہو تو اس کے لیے پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے اور جو کچھ تم نے اپنے کاروبار میں لگا رکھا ہے اس میں جائز منافع پر اکتفا کرو کیونکہ جائز سے ناجائز کی طرف قدم بڑھانا یہی خرابی کا پہلا زینہ ہے۔ جب تم نے اس زینے پر قدم رکھ دیا پھر تم چڑھتے چلے جاؤ گے۔ کاروبار اللہ کی نعمت ہے۔ تاجر معاشرے کا ایک کارآمد فرد ہوتا ہے، لیکن وہ اس وقت تک معاشرے کے کام آتا ہے جب وہ تجارت کو لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ نہیں بناتا بلکہ جائز منافع پر اکتفا کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔ اس بنیادی حقیقت سے صرف نظر کرنا اپنے ایمان کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو دولت کی حرص اور ہوس سے اپنے آپ کو بچائو اور ہمیشہ ذہن میں یہ بات واضح رکھو کہ مال و دولت اللہ کی امانت بھی ہے اور ابتلاء بھی۔ انسان کو اس کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔ تمہیں مومن ہونے کی وجہ سے اپنا ایمان عزیز ہونا چاہیے۔ دولت کی ہوس اگر اس پر غالب آگئی تو ایمان تو کیا بچے گا دیانت و امانت بھی باقی نہیں رہیں گی۔ کردار کی عظمت گہنا کر رہ جائے گی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے میں نے تمہارے سامنے کھول کر بیان کردیا ہے۔ تم اگر اس سے ابا کرتے ہو تو میں تمہارا معاملہ خدا کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ مجھے تم پر نگران نہیں بنایا گیا۔ میرا کام ابلاغ ہے، منوانا نہیں۔
Top