Ruh-ul-Quran - Hud : 89
وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ١ؕ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم لَا يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہیں نہ کمواواے ( آمادہ نہ کرے) شِقَاقِيْٓ : میری ضد اَنْ : کہ يُّصِيْبَكُمْ : تمہیں پہنچے مِّثْلُ : اس جیسا مَآ اَصَابَ : جو پہنچا قَوْمَ نُوْحٍ : قوم نوح اَوْ : یا قَوْمَ هُوْدٍ : قوم ہود اَوْ : یا قَوْمَ صٰلِحٍ : قوم صالح وَمَا : اور نہیں قَوْمُ لُوْطٍ : قوم لوط مِّنْكُمْ : تم سے بِبَعِيْدٍ : کچھ دور
اور اے میری قوم کہیں میری ضد تمہارے لیے اس امر کا باعث نہ بن جائے کہ تم پر بھی اس طرح کی آفت نازل ہو جس طرح کی آفت قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر نازل ہوئی اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور بھی نہیں۔
وَیٰقَوْمِ لاَیَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِیْ ٓ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ ھُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ ط وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْد۔ (سورۃ ہود : 89) (اور اے میری قوم کہیں میری ضد تمہارے لیے اس امر کا باعث نہ بن جائے کہ تم پر بھی اس طرح کی آفت نازل ہو جس طرح کی آفت قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر نازل ہوئی اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور بھی نہیں۔ ) ہدایت کے ردوقبول میں افراد کی ذہنیت ہدایت کے ردوقبول میں افراد اور اقوام کی ذہنیت ایک جیسی واقع ہوئی ہے۔ جب بھی ان کی ہدایت کے لیے اللہ کا کوئی رسول آیا ہے یا کوئی مصلح ان کی اصلاح کے لیے اٹھا ہے تو یہ شروع شروع میں اس سے بےاعتنائی اختیار کرتے ہیں، پھر رفتہ رفتہ مخالفت شروع ہوتی ہے اور اس میں شدت آتی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے جب داعی سے مخالفت دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر اس کا ہدف داعی کی ذات ہی نہیں رہتی بلکہ دعوت کی ہر بات سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ فیصلہ کرلیا جاتا ہے کہ دعوت دینے والے کی ہر بات کو رد کیا جائے گا بلکہ حتی الامکان اس کا راستہ روکا جائے گا۔ اس کے لیے چاہے اپنا نقصان کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسلامی تاریخ کا یہ واقعہ شاید اس کی دلیل بن سکے کہ جب مسیلمہ کذاب نے نجد کے علاقے میں نبوت کا کھڑاگ رچایا اور بنوتمیم کو اپنے گرد اکٹھا کرلیا جبکہ بنو تمیم کو قریش سے پرانی دشمنی تھی۔ چناچہ جب ایک گفتگو میں ایک مسلمان نے بنو تمیم کے ایک ذمہ دار آدمی سے یہ کہا کہ تم سمجھدار لوگ ہو، ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ تم نے نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں مسیلمہ میں آخر ایسی کیا بات دیکھی کہ تم نے اس کو نبی مان لیا۔ تو اس نے جواب دیا کہ مسیلمہ جو کچھ ہے وہ ہم جانتے ہیں، لیکن بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے نزدیک بنو تمیم کا جھوٹا نبی قریش کے سچے نبی سے بہتر ہے۔ جب ہدایت اور حق کے ردوقبول میں اس طرح کی دشمنیاں حائل ہوجائیں تو پھر حق و ناحق کا فرق اٹھ جاتا ہے اور قومیں تعصبات کا شکار ہو کر صرف اپنی عصبیتوں کی پیروی کرتی ہیں، حق کی پیروی نہیں کرتیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب کی قوم بھی ایسے ہی امراض کا شکار تھی اور اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوچکی تھی۔ انھیں اس سے غرض نہیں تھی کہ حضرت شعیب جس بات کی طرف بلا رہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط۔ انھیں تو حضرت شعیب کی ہر بات سے ضد تھی۔ ان کے اس رویئے کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت شعیب حق نصیحت ادا کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اے میری قوم ! میں تمہیں اپنی دشمنی سے نہیں روکتا لیکن خدا کے لیے میری دشمنی میں اپنی ناک تو نہ کٹوا لو۔ اپنے نفع و ضرر کے پیمانوں کو تو نہ توڑو۔ تم کھلے دل سے غور کرو کہ میں جو کچھ تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں، وہ صحیح ہے یا غلط۔ اگر وہ صحیح ہے تو پھر محض میری دشمنی میں اس کو رد کردینا اپنی قسمت پھوڑنا ہے۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ تم سے پہلے جن قوموں پر عذاب آیا ہے ان کا رویہ بھی یہی تھا۔ اور بالآخر وہ تباہ ہوگئیں تو کیا تم بھی انھیں کا رویہ اختیار کرنے کے بعد اپنے آپ کو اسی تباہی کی طرف لے جارہے ہو۔ عقلمندی کی بات یہ ہے کہ جس بات سے کسی نے نقصان اٹھایا ہے اس نقصان دہ بات سے بچا جائے، چاہے وہ بات دشمن ہی کیوں نہ کہہ رہا ہو، پھر میں تو تمہارا دشمن نہیں ہوں۔ میں نے خون کے گھونٹ پی پی کر تمہاری اصلاح کی کوشش کی ہے، ہمیشہ تمہارے ساتھ خیرخواہی کا ثبوت دیا ہے۔ اب ایک ایسی واضح بات جسے قبول نہ کرکے قوموں کی قومیں تباہ ہوچکی ہیں تم بھی محض اس لیے اس کو قبول نہیں کررہے کیونکہ تمہارے دلوں میں میری دشمنی اتر گئی ہے۔ خدا کے لیے اس بات پر غور کرو، قوم لوط کا انجام تو بہت دور کی بات بھی نہیں۔ ان کا علاقہ کا بھی تم سے دور نہیں۔ دوسروں سے نہیں تو انھیں سے عبرت حاصل کرو۔
Top