Ruh-ul-Quran - Hud : 8
وَ لَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗ١ؕ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور اگر اَخَّرْنَا : ہم روک رکھیں عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابَ : عذاب اِلٰٓى : تک اُمَّةٍ : ایک مدت مَّعْدُوْدَةٍ : گنی ہوئی معین لَّيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے مَا يَحْبِسُهٗ : کیا روک رہی ہے اسے اَلَا : یاد رکھو يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْهِمْ : ان پر آئے گا لَيْسَ : نہ مَصْرُوْفًا : ٹالا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَحَاقَ : گھیر لے گا وہ بِهِمْ : انہیں مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
اگر ہم ان سے عذاب کو کچھ مدت کے لیے ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے۔ سنو ! جس دن وہ ان پر آدھمکے گا تو ان سے ٹالا نہ جاسکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔
وَلَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِلٰٓی اُمَّۃٍ مَّعْدُوْدَۃٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُہٗط اَلاَ یَوْمَ یَاْتِیْہِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْہُمْ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ ۔ (سورۃ ہود : 8) (اگر ہم ان سے عذاب کو کچھ مدت کے لیے ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے۔ سنو ! جس دن وہ ان پر آدھمکے گا تو ان سے ٹالا نہ جاسکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ ) (امۃ معدودہ) کا لفظ جو اس آیت میں استعمال ہوا ہے وہ اپنے ٹھیٹ لغوی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ سورة یوسف میں بھی اسی معنیٰ میں یہ لفظ بولا گیا ہے۔ عام طور پر ” امت “ کا لفظ قوم یا گروہ کے معنیٰ میں بولا جاتا ہے لیکن یہاں اس کا معنی مدت ہے اور معدودہ کا معنی ہے کچھ اور گنی چنی، تو امت معدودہ کا معنی ہوگا ایک محدود گنی چنی مدت۔ گزشتہ آیت میں ہم نے مشرکین مکہ کا رویہ دیکھا کہ قرآن کریم نے مقصد زندگی کو اس طرح واضح کیا ہے کہ وہ بالکل بدیہی بات معلوم ہوتا ہے لیکن ان کی بلادت کا کیا کہنا کہ وہ اتنی بدیہی بات کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اب اس آیت کریمہ میں ان کے اسی غیرسنجیدہ رویے کا ذکر ایک اور مسلّم حقیقت کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے جس طرح قیامت کا آنا یقینی ہے اور اس میں جزا وسزا کا وقوع لازمی ہے اسی طرح قوموں کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب کسی قوم نے اتمام حجت کے بعد بھی اللہ کے رسول پر ایمان لانے سے انکار کیا بلکہ اس حد تک اس کے در پے آزار ہوئے کہ اسے ہجرت پر مجبور کردیا گیا تو اس کے بعد اللہ کا عذاب ضرور آیا۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے کھنڈرات ان کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ ہیں اور ان کی تاریخ سینہ بسینہ جزیرئہ عرب میں پھیلی ہوئی ہے یہ جانتے ہیں کہ وہ کس طرح اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔ باایں ہمہ یہ اس حد تک انتہائی سنجیدہ معاملات میں بھی غیر سنجیدہ ثابت ہوئے ہیں کہ ہر بات کا مذاق اڑاتے ہیں جو قوم انگاروں پر لیٹ کر فقرہ بازی کرتی یا تمسخر اڑاتی ہے آپ اس کے بارے میں کیا رائے قائم کرسکتے ہیں۔ عذاب ان کے سر پر تلا کھڑا ہے اور ان کی حرکتیں اس کو دعوت دینے کے لیے کافی ہیں اس کے باوجود یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے انھیں مہلت ِ عمل دے رکھی ہے کہ شاید یہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ بجائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے وہ اس کے رسول کا مذاق اڑاتے ہیں کہ تم جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے وہ کہیں راستے میں لنگرانداز تو نہیں ہوگیا، کہیں اسے راستہ تو نہیں بھول گیا۔ پروردگار وارننگ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نادانو ! سنو ! تم اپنی قسمت کے دشمن ہوئے ہو تمہیں معلوم نہیں کہ جس دن وہ عذاب آگیا وہ تمہارے ٹالے سے ٹلے گا نہیں اور وہ تمہیں اس طرح اپنے گرداب میں لے لے گا کہ تم اس سے باہر نہیں نکل سکو گے۔
Top