Ruh-ul-Quran - Hud : 90
وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ
وَ : اور اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : اس کی طرف رجوع کرو اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب رَحِيْمٌ : نہایت مہربان وَّدُوْدٌ : محبت والا
اور اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، پھر اسی کی طرف رجوع کرو۔ بیشک میرا رب بڑا مہربان اور بہت پیار کرنے والا ہے۔
وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْ ٓا اِلَیْہِ ط اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ۔ (سورۃ ہود : 90) (اور اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، پھر اسی کی طرف رجوع کرو۔ بیشک میرا رب بڑا مہربان اور بہت پیار کرنے والا ہے۔ ) استغفار و توبہ کی ترغیب ایک ایسی قوم جو اللہ کے رسول کی دعوت سے دشمنی کا رشتہ استوار کرچکی ہے۔ وہ رسول کی جان کے درپے ہے اور اس کی دعوت کی ہر بات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ایسی قوم کے بارے میں انتہائی غیرجانبدار شخص کو بھی اگر فیصلہ کرنے کے لیے بھی کہا جائے تو وہ بھی یقینا یہی کہے گا کہ ایسی قوم کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن اللہ کے رسولوں کی صداقت اور ان کے من جانب اللہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ وہ آخر حد تک کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس میں انسانی جذبات نظر آرہے ہوں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں دیکھئے قوم دشمنی پر تلی کھڑی ہے لیکن حضرت شعیب اللہ کے حکم سے انھیں استغفار کی دعوت دے رہے ہیں اور نہایت پیار سے ترغیب دے رہے ہیں کہ نادانو ! اس سے مغفرت کی طلب کرو جو صرف تمہارا خالق ومالک ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی ہے۔ تمہارے ظاہری اور باطنی تربیت کے تمام امکانات اسی نے مہیا کیے ہیں۔ اس نے تمہاری زندگی کو کس قدر مطمئن اور آسودہ بنایا ہے اور تمہیں ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اور پھر وہ ایسا رب ہے کہ بڑے سے بڑے پاپی پر بھی اپنے کرم کے دروازے بند نہیں کرتا۔ اس کی رحمت ہمیشہ پکارتی رہتی ہے اور اس کا درِ مغفرت ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ تم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہو، میں تمہارا خیرخواہ ہوں، میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو۔ یعنی آج تک تم نے جیسی کچھ اس کی نافرمانیاں کی ہیں اس کی معافی مانگو اور پھر اس کی طرف پلٹ جاؤ۔ یعنی آئندہ کے لیے عہد کرو کہ تم کوئی ایسا کام نہیں کرو گے جو اسے ناراض کرنے والا ہو۔ اور یہ مت خیال کرو کہ تمہاری گزشتہ سرکشی اور نافرمانی کے باعث وہ تم سے منہ پھیر لے گا یا تمہیں دھتکار دے گا، ایسا ہرگز نہیں، وہ تو رحیم بھی ہے اور ودود بھی ہے۔ بجائے غضب فرمانے کے وہ رحم فرماتا ہے اور بجائے ناراض ہونے کے وہ محبت کرتا ہے۔ جب کوئی روسیاہ شکستہ دل ہو اس کے حضور میں حاضر ہوتا ہے تو بجائے دھتکارنے کے نہایت خوشی کا اظہار فرماتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا شیرخوار بچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ مامتا کی ماری ایسی بےچین تھی کہ جس بچے کو پا لیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا حال دیکھ کر ہم سے پوچھا، کیا تم لوگ یہ توقع کرسکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی۔ ہم نے عرض کیا، ہرگز نہیں۔ خود پھینکنا تو درکنار وہ آپ گرتا ہو تو یہ اپنی حد تک اسے بچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔ فرمایا : اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔
Top