Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 20
الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُوْفُوْنَ : پورا کرتے ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا عہد وَلَا يَنْقُضُوْنَ : اور وہ نہیں توڑتے الْمِيْثَاقَ : پختہ قول و اقرار
جو اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اپنے پیمان کو توڑتے نہیں۔
الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِاللّٰہِ وَلاَ یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاق۔ وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآاَمَرَاللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْآئَ الْحِسَابِ ۔ (سورۃ الرعد : 20۔ 21) (جو اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اپنے پیمان کو توڑتے نہیں۔ اور جو اس چیز کو جوڑتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اور اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور سخت حساب کا اندیشہ رکھتے ہیں۔ ) اولوالالباب کی پہلی صفت وہ عقلمند جو اللہ تعالیٰ کے قرآن سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ تعالیٰ کے دین کو قبول کرتے ہیں ان کی مختلف صفات ہیں۔ ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اس کے میثاق کو کبھی توڑنے کی جرأت نہیں کرتے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عہد ہے جسے عہدالست کہا جاتا ہے۔ عہدِ الست کا مفہوم عہد کے الفاظ پر غور کیجیے، پروردگار نے انسانوں سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہد لیتے ہوئے یہ نہیں فرمایا گیا کہ میں تمہارا خدا نہیں ہوں ؟ یعنی پروردگار نے انسانوں سے اپنے اللہ تعالیٰ ہونے کا عہد نہیں لیا بلکہ اپنے رب ہونے کے بارے میں پوچھا اور سب نے اقرار کیا کہ ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب پروردگار نے نوع انسانی سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا تو یہ بات ازخود انسانوں پر واضح ہوگئی کہ جس عظیم ذات کے لیے ہم ربوبیت کا عہد کررہے ہیں وہی ہمارا اللہ تعالیٰ ہے اور یہ ایسی حقیقت تھی جس کا عہد لینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ گمراہی کی ابتداء جب بھی ہوئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے انکار سے نہیں ہوئی بلکہ اس کے ربوبیت کے انکار سے ہوئی ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے کبھی اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیا ہو اور اگر کبھی پروپیگنڈے یا غلط تعلیم کے زور سے زبانوں پر انکار جاری کر بھی دیا جائے تو حقیقت میں انسانی فطرت اسے قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ جب کبھی موقع آتا ہے اس کا اظہار ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ تاریخ میں ہم جتنی قوموں کا ذکر پڑھتے ہیں وہ مختلف قسم کے شرک میں تو ملوث رہی ہیں لیکن کبھی کسی قوم کے بارے میں تاریخ نے یہ نہیں لکھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کردیا۔ ایک بڑی ذات جو کائنات کا مبداء و معاد ہے اسے ہر قوم نے قبول کیا چاہے اس کا نام کچھ بھی رکھا ہو۔ البتہ اس کے نیچے بیشمار رب بنا لیے کیونکہ ان کا گمان یہ تھا کہ ایک ایسی ذات جو آسمانوں کی بلندیوں پر متمکن ہے زمین کے آخری گوشے تک بسنے والے انسانوں کے حالات سے نہ آگاہ ہوسکتی ہے اور نہ ان کے معاملات میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے اختیارات اپنے ماتحتوں میں تقسیم کردیتی ہے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے۔ یہیں سے شرک کی ابتداء ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں یاد دلایا جارہا ہے کہ ہم نے پہلے دن انسانوں سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ تم میرے سوا کسی اور کو رب نہ ماننا یعنی میری ذات کے اقرار کے ساتھ ساتھ یہ کبھی حرکت نہ کرنا کہ میرے اختیارات اور میری صفات میں کسی اور کو شریک کردو۔ مشرکین مکہ دنیا بھر کے مشرکین کی طرح اسی گمراہی کا شکار تھے حتیٰ کہ بنی اسرائیل بھی حامل کتاب ہونے کے باوجود اس گمراہی سے محفوظ نہیں تھے اور آج کا انسان بھی روشنی، علم و ہنر کے باوجود اسی گمراہی کا شکار ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار نہیں اس کی یاد بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ رہتی ہے۔ لیکن حلت و حرمت کا اختیار صرف اسی کے پاس ہے۔ اطاعتِ مطلقہ صرف اسی کا حق ہے۔ یہ وہ بات ہے جسے دنیا کی اکثریت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی ان صفات کو نہ جانے کن کن قوتوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ کہیں یہ اختیار پارلیمنٹ کو دیا گیا ہے، کہیں بادشاہت کو، کہیں آمریت کو اور کہیں خواہشِ نفس کو۔ بنی اسرائیل بھی اسی گمراہی کا شکار تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو مانتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اختیار انھوں نے اپنے احبار اور رہبان کو دے رکھا تھا۔ عدی ابن حاتم طائی جب مسلمان ہونے کے لیے مدینہ آئے اور اپنے اطمینان کے لیے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میں نے مسلمانوں سے یہ سنا ہے کہ قرآن کریم میں اہل کتاب کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے احبار اور رہبان کو رب بنا لیا ہے۔ میں عیسائی ہوں اس لیے میں اہل کتاب کے عقائد کو جانتا ہوں۔ ہم نے کبھی اپنے علما اور پیشوائوں کو رب نہیں بنایا، یہ سراسر ہم پر الزام ہے۔ آپ ﷺ نے عدی سے سوال کیا کہ کیا چیز حلال ہے اور کیا حرام ؟ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ؟ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے ؟ اس کا فیصلہ آپ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کرتے ہیں یا اپنے علماء اور اپنے پیشوائوں کو آپ نے یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کتاب اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر جو فیصلہ بھی دے دیں آپ اس کو دین کا درجہ دے دیتے ہیں ؟ عدی نے جواب دیا کہ ہم نے یہ اختیارات واقعی اپنے علماء کو دے رکھے ہیں وہ اگر ایسا فیصلہ بھی کردیں جو کتاب خداوندی سے یکسر متصادم ہو تو ہم کتاب اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے بلکہ انھیں کے فیصلوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہی معنی ہے کسی کو رب بنانے کا۔ مطلق قانون سازی، غیرمشروط حاکمیت اور غیرمشروط اطاعت یہ سراسر پروردگار کا حق ہے کیونکہ وہ ہمارا رب ہے جب یہ حق کسی اور کو دیا جائے گا تو وہ بھی رب بن جائے گا۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں اسی بات کی یاد دہانی کی جارہی ہے کہ ہم نے تم سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں بنائو گے لیکن تم نے جابجا اس کے مقابلے میں رب بنا لیے جہاں منفعت کی امید نظر آئی یا کسی سے نقصان کا خوف ہوا تو اس کو اپنا رب بنا لیا۔ چاہے وہ دودھ دینے والی گائے ہو، پیاس بجھانے والا پانی ہو، سایہ دینے والا پیپل کا درخت ہو یا ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرنے والی دولت دنیا ہو یا تخت اقتدار پر فائز انسان ہوں یا تقدس کے پیکر ہوں ان میں سے ہر ایک چونکہ فیض رسانی اور فائدہ پہنچانے کی کسی نہ کسی صورت میں صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اس کو ربوبیت کی سند دے دی گئی اور اگر کہیں سے خوف محسوس ہوا مثلاً سیلاب کی صورت میں تباہی پھیلانے والا پانی، کشتیوں کا راستہ روکنے والی چٹانیں، ڈسنے والے ناگ، تخت اقتدار پر مسند نشیں فرعون اور نمرود، فضاء میں کڑکنے والی بجلیاں اور بادل، مظاہرفطرت اور مظاہر قدرت اور ایسی تمام زمینی اور آسمانی قوتیں جو انسان کے لیے خوف اور دہشت کا سبب بن سکتی تھیں ان سب کو ربوبیت کی مسند پر فائز کردیا گیا۔ امتِ مسلمہ جو قیامت تک کے لیے اس عہد کی مناد اور مبلغ بنا کر اٹھائی گئی ہے خود اس کا حال دیکھئے کہ پورے عالم اسلام میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی اس کی حاکمیتِ مطلقہ کا عملی طور پر اعتراف ہو۔ ہر جگہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کسی نہ کسی حد تک مسلمانوں میں عبادات کا عمل جاری ہے، اخلاقیات زندہ ہیں، انفرادی سطح پر نیکی سے وابستگی باقی ہے تو اسلامی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بس یہی کچھ کافی ہے کوئی ضروری نہیں کہ ملک میں اسلامی قانون بھی نافذ ہو بلکہ مسلمانوں میں ایک ایسی معتدبہ تعداد بھی موجود ہے جو سرے سے اسلامی قانون کے وجود ہی کی منکر ہے حالانکہ اگر اسلامی قانون کے وجود سے انکار کردیا جائے تو اس سے آپ سے آپ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کا اجتماعیت سے کوئی رشتہ نہیں ہم انفرادی زندگی میں مسلمان ہیں اور ہمیں اسلام کی انفرادی زندگی کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ رہے اجتماعی ادارے تو ان کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ نے آزاد چھوڑا ہے انھیں اپنی صوبدید کے مطابق جس طرح بھی چلایا جائے اس کا اسلام سے یا اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وہ گمراہی ہے جس کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسانی کے آغاز میں یہ عہد لیا تھا اور قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ اس کی یاد دہانی کرائی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ عہد کہاں لیا گیا تھا اور اس کی کیفیت کیا تھی ؟ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کے حوالے سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ عہد حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمین پر بھیجنے کے بعد عالم ارواح میں لیا گیا تھا لیکن بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیقِ آدم کے موقع پر پیش آیا۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کرکے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرایا گیا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا اسی طرح پوری نسل آدم کو بھی جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ حضرت ابی ابن کعب ( رض) نے غالباً نبی کریم ﷺ سے استفادہ کرکے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے وہ فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کرکے انھیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انھیں جب اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انھوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھہراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہدومیثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود۔ “ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں موجود ہے اور کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغاز آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے یہ عہد لیا گیا تھا اور اگر کسی کو یاد نہیں تو پھر یہ عہد ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف باتیں کہی جاسکتی ہیں جن کا تعلق خارجی شواہد سے بھی ہے اور انسان کے اندرد بے ہوئے احساس سے بھی۔ جہاں تک خارجی شواہد کا تعلق ہے اس سلسلے میں گزارش ہے کہ خود انسانوں میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہمیں یہ عہد پوری طرح یاد ہے۔ حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ یہ عہد و میثاق مجھے ایسا یاد ہے گویا اس وقت سن رہا ہوں اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جس وقت یہ اقرار لیا گیا میرے آس پاس میں کون کون لوگ موجود تھے، ہاں یہ ظاہر ہے کہ ایسے افراد شاذونادر کے درجہ میں ہیں، اس لیے عام لوگوں کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو بالخاصہ اثر رکھتے ہیں، چاہے وہ کام کسی کو یاد رہے یا نہ رہے بلکہ اس کی خبر بھی نہ ہو مگر وہ اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں، یہ عہد و اقرار بھی ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے کہ دراصل اس اقرار نے ہر انسان کے دل میں معرفتِ حق کا ایک بیج ڈال دیا جو پرورش پا رہا ہے چاہے اس کو خبر ہو یا نہ ہو، اور اسی بیج کے پھل پھول ہیں کہ ہر انسان کی فطرت میں حق تعالیٰ کی محبت و عظمت پائی جاتی ہے خواہ اس کا ظہور بت پرستی اور مخلوق پرستی کے کسی غلط پیرایہ میں ہو، وہ چند بدنصیب لوگ جن کی فطرت ہی مسخ ہو کر ان کا عقلی ذائقہ خراب ہوگیا اور میٹھے کڑوے کی پہچان جاتی رہی ان کے علاوہ باقی ساری دنیا کے اربوں انسان اللہ تعالیٰ کی دھن اور خیال اور عظمت سے خالی نہیں، چاہے مادی خواہشات میں مبتلا ہو کر یا کسی گمراہ سوسائٹی میں پڑ کر وہ اس کو بھلا دیں، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ؟ کُلُّ مُوْلُوْدِ یُوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ وفی بعض الروایات عَلٰی ھٰذِہِ الْمِلَّۃِ (اخرجہ البخاری و مسلم) ہر پیدا ہونے والا دین فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو دوسرے خیالات میں مبتلا کردیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بندوں کو حنفی یعنی ایک خدا کا ماننے والا پیدا کیا ہے پھر شیاطین ان کے پیچھے لگ گئے اور ان کو اس صحیح راستہ سے دور لے گئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے سارے بگاڑ کے باوجود جب کبھی حالات کی گرفت میں آتا ہے اور اس کے مزعومہ سہارے ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگتے ہیں تو پھر آخر ایک وقت آتا ہے کہ وہ تنہائی میں اس ان دیکھی ذات کو پکارتا ہے جسے اس کی عقل و دانش نے آج تک قبول کرنے سے انکار کیا تھا چونکہ اس کی عقت پر آج تک خواہشات، مفادات، وضعی علوم اور جدید فلسفوں کے پردے پڑے ہوئے تھے جس نے اس کی فطرت کو دبا رکھا تھا جیسے ہی تندی حالات کا ایک تیز جھونکا ان پردوں کو اٹھا کر دور پھینکتا ہے اور اس کی اصلی فطرت کو کام کرنے کا موقع مبتا ہے تو اس کے تحت الشعور دبا ہوا اللہ تعالیٰ کا تصور ابھر کر سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور یہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اگر تھوڑا سا بھی تأمل کیا جائے تہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ اسی عہدالست کی صدائے بازگشت ہے۔ دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد جب دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کلمے کے صورت میں دراصل وہ اللہ تعالیٰ سے ایک عہد کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی الوہیت تسلیم نہیں کرے گا اور محمد کریم ﷺ کے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں مانے گا۔ یہ وہ عہد ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی پوری طرح سمٹ جاتی ہے۔ اس کا کوئی گوشہ بھی اس کی وسعت سے باہر نہیں رہتا کیونکہ الوہیت میں حاکمیتِ مطلقہ، اطاعتِ کاملہ، ہمہ گیر بندگی اور عبدیتِ راسخہ کے تمام مفاہیم و جذبات شامل ہیں۔ اور انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ان کی عملداری سے باہر نہیں۔ وہ عقلمند لوگ جن کی آنکھیں روشن ہیں اور جو رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں وہ ایسے ہی خیالات اور تصورات کے حامل ہوتے ہیں اور وہ ان پختہ تصورات میں کبھی شکست و ریخت پیدا نہیں ہونے دیتے۔ دوسری صفت اگلی آیت کریمہ میں فرمایا : کہ ان عقلمندوں کی صفات میں سے دوسری صفت یہ ہے کہ وہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں اور ان کی بجاآوری میں کبھی تساہل سے کام نہیں لیتے اسی لیے بندوں کے جو حقوق ان پر بر بنائے رشتہ رحم عائد ہوتے ہیں ان کو بھی پوری فیاضی سے ادا کرتے ہیں۔ وہ جس طرح انسانیت کے رشتے کا پاس رکھتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ حق قرابت کی ادائیگی کی فکر کرتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں بالکل آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور قرآن پاک کے فرامین کی تصویر ہیں۔ اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر اس اہم حقیقت کو سمجھنے کے لیے ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے جسے بخاری نے روایت کیا : لَیْسَ الْوَاصِلُ اَلْمُکَافِیْ وَلٰـکِنَّ الْوَاصِلُ اِذَا اَنْ قُطِعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَھَا صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اگر اس سے قطع تعلقی کی جائے تو پھر بھی وہ اس کو جوڑتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے : قال قال رجل یارسول اللہ من احق بحسن صحابتی قال امک قال ثم من قال امک قال ثم من قال امک قال ثم من قال ابوک کہ ایک شخص نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! میرے بہترین سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے۔ فرمایا : تیری ماں۔ عرض کی، اس کے بعد کون ؟ فرمایا : تیری ماں۔ پھر سوال کیا اس کے بعد، چوتھی مرتبہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : تیرا باپ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) سے روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان من ابر البر صلۃ رجل اھل ود ابیہ بعدہ ان یولی حضور ﷺ نے فرمایا : کہ کسی آدمی کا اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا، سب سے بہتر صدقہ کیا ہے ؟ فرمایا : ایک بےمایہ آدمی کا اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے ایک ایسے عزیز کو دینا جو اس کا نام لینے کا بھی روادار نہ ہو۔ ان احادیث سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلام نے صلہ رحمی پر کس قدر زور دیا ہے اور حق قرابت کی ادائیگی کی کس حد تک تاکید کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے خاندان اسلامی ریاست کی اساس ہے۔ خاندان جس قدر باہم پیوست، مضبوط اور توانا ہوگا، اسی قدر اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست مضبوط اور توانا ہوگی۔ جس خاندان میں عزت نفس کی پرواہ کی جاتی ہو اور ہر شخص کو احترام میسر ہو اس معاشرے کے باہمی تعلقات ہر طرح کی الجھنوں اور اڑچنوں سے پاک ہوتے ہیں۔ اس کا ایک ایک فرد اپنے سے زیادہ دوسروں کے دکھ درد کا محافظ ہوتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں بعد میں سوچتا ہے، اپنے عزیزوں کے بارے میں پہلے سوچتا ہے اور اس میں بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے معاشرے کے تمام لوگ آپس میں جو بھلائیاں کرتے ہیں اور ایثار و مروت سے کام لیتے ہیں، تو وہ اس طرح کسی پر احسان نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ارادوں میں کوئی کمزوری واقع نہ ہو، ہم کسی خودغرضی اور ریا کی گرفت میں نہ آجائیں۔ وہ جب کسی کی مدد کرتے ہیں تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں اور مدد لینے والے کے شکرگزار ہوتے ہیں کہ اس نے اسے اس قابل سمجھا۔ قرآن کریم نے ان کے حُسنِ سلوک کی تصویرکشی کرتے ہوئے فرمایا : وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مُسْکِیْنًاوَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا۔ اِنَّمَا نُطْعِمُکُم لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَنُرِیْدُمِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا۔ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًاقَمْطَرِیْرًا (8۔ 10) اپنے بہتر سے بہتر سلوک کے باوجود اس بات سے اندیشہ ناک رہتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ لوگوں کے ساتھ ان کے معاملات کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار پر رکھ کر نہ جانچا جائے۔ ہر ایثار کے پیچھے جو محرکات کام کرتے ہیں ان کی بخیہ گری نہ کی جائے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ ؎ چلے بچ کر کوئی کتنا وہ ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
Top