Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 2
اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے رَفَعَ : بلند کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) بِغَيْرِ عَمَدٍ : کسی ستون کے بغیر تَرَوْنَهَا : تم اسے دیکھتے ہو ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار پکڑا عَلَي الْعَرْشِ : عرش پر وَسَخَّرَ : اور کام پر لگایا الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند كُلٌّ : ہر ایک يَّجْرِيْ : چلتا ہے لِاَجَلٍ : ایک مدت مُّسَمًّى : مقررہ يُدَبِّرُ : تدبیر کرتا ہے الْاَمْرَ : کام يُفَصِّلُ : وہ بیان کرتا ہے الْاٰيٰتِ : نشانیاں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم بِلِقَآءِ : ملنے کا رَبِّكُمْ : اپنا رب تُوْقِنُوْنَ : تم یقین کرلو
اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ان میں سے ہر ایک، ایک وقت معین کے لیے گردش کرتا ہے۔ وہی کائنات کا انتظام فرماتا ہے، وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔
اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰ تِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًی ط یُدَبِّرُالْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰ یٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآئِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَ ۔ (سورۃ الرعد : 2) (اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ان میں سے ہر ایک، ایک وقت معین کے لیے گردش کرتا ہے۔ وہی کائنات کا انتظام فرماتا ہے، وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔ ) اللہ تعالیٰ کی مثالوں سے توحید و آخرت پر استدلال قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ مشرکینِ عرب اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر نہ تھے، وہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا اور تمام کائنات کا خالق سمجھتے تھے۔ حقیقت میں اسی کو رزق رساں اور اسی کو مشکل اور مصیبت میں کام آنے والا جانتے تھے۔ اس لیے ان کا اصل جرم یہ نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود یا اس کے خالق ہونے کے منکر تھے بلکہ ان کی خرابی یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے۔ چناچہ بظاہر قرآن کریم ان آیات میں جو دلائل دے رہا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس ذات کو تم اپنا خالق سمجھتے ہو اس کی یہ یہ شانیں ہیں، یہ اس کی صفات ہیں اور یہ اس کی قدرتیں ہیں اور یہ یہ اس کی مخلوقات ہیں اور اس طرح اسے اپنی مخلوقات پر گرفت حاصل ہے۔ تو جس خالق ومالک کی یہ شانیں ہوں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک بنانے کا کیا جواز ہے اور اسے کائنات کا نظام چلانے کے لیے کسی اور کی شرکت کی کیا ضرورت ہے، لیکن اگر ان دلائل پر گہری نظر سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس کائنات کا ایک ہی خالق ومالک اور ایک ہی متصرف اور ایک ہی مدبر ہے اسی طرح یہ دلائل اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس پورے نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ ہم اپنے چاروں طرف مخلوق کو دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مخلوق کا ایک خالق ہے۔ ہم اپنے تمام اطراف میں ایک نظم اور ترتیب دیکھتے ہیں۔ اجرامِ فلکی میں ہمیں حیرت انگیز نظم نظر آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نظم کا ایک ناظم ہے۔ ہمیں کائنات کا مشاہدہ اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ تمام کائنات میں ایک تکوینی قانون کارفرما ہے جس نے ہر مخلوق کو باندھ رکھا ہے اور ہر مخلوق اس کی پیروی کرنے پر مجبور ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ایک حکمران ہے جس نے سب پر اپنا قانون نافذ کر رکھا ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ نظم بغیر ناظم کے، قانون بغیر حکمران کے، حکیم بغیر حکمت کے، ربوبیت بغیر رب کے اور مخلوق بغیر خالق کے ہو۔ اسے نہ عقل سلیم تسلیم کرتی ہے اور نہ دنیا کا چلن قبول کرتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ جو دلائل اس کی وحدانیت اور توحید پر دلالت کرتے ہیں وہی اس کے وجود پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ اس لیے قرآن پاک کے دلائل اگر شرک کے ابطال کے لیے کافی ہیں تو وہی ملاحدہ کے الحاد کے لیے بھی شافی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں روئے سخن چونکہ قریش کی طرف ہے اور میں عرض کرچکا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر نہ تھے۔ البتہ اس کی صفات میں دوسری قوتوں کو شریک مانتے تھے۔ اس لیے ان کے معتقداتِ باطلہ کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات کو زیر بحث لانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے بات کی جارہی ہے۔ اور بطور خاص اس کی عظیم قدرت و حکمت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمانوں کو اس طرح بلند فرمایا ہے کہ ان کے قیام کے لیے کہیں بھی ستون کھڑے دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کی چھت اس طرح تانی گئی ہے کہ وہ ایسے ستونوں پر کھڑی ہے جو دکھائی نہیں دیتے۔ عمد، عماد کی بھی جمع ہے اور عمود کی بھی۔ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ یہ عظیم شامیانہ ظاہری ستونوں پر نہیں بلکہ جذب و کشش کے ایسے ستونوں پر کھڑا ہے جسے دیکھنے سے نگاہیں عاجز ہیں اور صرف آسمان ہی کیا بیشمار اجرامِ فلکی ہیں جو آسمان سے متعلق ہیں۔ ان میں سے ایک ایک کُرّہ اپنے حجم میں اس قدر عظیم ہے کہ زمین اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور اس فضائے بسیط میں کوئی سہارا ان کو تھامنے والا نہیں۔ ایک غیرمحسوس طاقت نے انھیں ان کے مقام اور مدار میں روک رکھا ہے جسے دیکھنے اور سمجھنے سے عقل عاجز ہے۔ پھر ان آسمانوں کی وسعتوں اور بلندیوں کو آج تک کوئی نہ جان سکا۔ اللہ تعالیٰ کی کتابیں ہمیں یہ علم دیتی ہیں کہ اس فضائے بسیط کے اوپر سات آسمانوں کا وجود ہے، لیکن سائنس ابھی تک اس کا ادراک نہیں کرسکی۔ البتہ بعض سائنسدانوں کا یہ کہنا کہ سرے سے آسمانوں کا کوئی وجود نہیں، یہ سراسر جہالت کی دلیل ہے کیونکہ اہل علم کے نزدیک یہ بات مُسلّم ہے کہ عدم علم عدم وجود کو مستلزم نہیں ہوتا۔ سائنس اگر اب تک آسمانوں کے وجود کا ادراک نہیں کرسکی تو اسے اپنی بضاعتی کا اعتراف کرنا چاہیے نہ کہ اسے دلیل بنا کر آسمانوں کے وجود سے انکار کردیا جائے۔ سائنس کی نارسائی کا عالم تو یہ ہے کہ فضائے بسیط میں آج تک سائنس جن کُرّوں کو دریافت کرچکی ہے اس کے بارے میں بھی وہ کیا جانتی ہے۔ اگرچہ انسان خلاء میں کمندیں ڈال چکا ہے لیکن ابھی تک خلائی علم کی ابجد میں گھوم رہا ہے۔ اس کے اپنے اعتراف کے مطابق کتنے ستارے ہیں جن کی روشنی آج تک زمین پر نہیں پہنچ سکی۔ اس سے کائنات کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس کے مقابلے میں انسانی علم کس قدر درماندہ اور نارسا ہے۔ ایک باطل عقیدہ کی تردید ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ” پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا “ اس جملے سے پروردگار نے مشرکینِ مکہ کے ایک باطل عقیدہ کی تردید فرمائی ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک ایسی کائنات جس کے اور چھور کا کوئی اندازہ نہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہے کیونکہ وہی کائنات کی ہر چیز کا خالق ومالک ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کائنات کو اس کی وسعتوں سمیت پیدا کرنے کے بعد کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہے۔ اب اس کے انتظام و انصرام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اور ویسے بھی اگر عقل سے سوچا جائے تو پوری کائنات میں بکھری ہوئی مخلوقات کی متنوع ضرورتوں اور رنگا رنگ معاملات کی دیکھ بھال اور فراہمی ایک ذات خداوندی سے کس طرح ممکن ہے۔ اس نے یقینا اپنے بہت سے اختیارات ان قوتوں کے حوالے کردیے ہیں جو اس کے قرب کے حامل ہیں۔ اس لیے اپنی ضرورتوں کو حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان قوتوں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں جن کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات دے رکھے ہیں۔ چناچہ وہ تمام مخلوقات کے معاملات کی دیکھ بھائی کر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کائنات کے کسی گوشے میں آرام فرما رہا ہے۔ اور یا اپنے عرش معلی پر داد حکومت دے رہا ہے۔ اس گمراہی کی تردید میں ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تمام مخلوقات کو پیدا کرکے دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی وہ تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا۔ یعنی تخلیق اور کائنات کا نظام سنبھالنے میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ ادھر تخلیق مکمل ہوئی، ادھر اس کے ایک ایک گوشے کا انتظام سنبھال لیا گیا۔ کیونکہ جو ذات اس کائنات کی خالق ہے اور مخلوقات کو پیدا کرنے والی ہے وہی ان کی رب اور حاکم بھی ہے اور وہ اپنے تخت سلطنت سے اپنی تمام رعایا اور مخلوق کی حالت کو دیکھ بھی رہی ہے اور ان کی ضرورتوں کو پورا بھی کررہی ہے۔ تو جو ذات تخت سلطنت پر فائز ہو کر مکمل قدرت و قوت کے ساتھ نظام حکومت چلا رہی ہے اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنی خدائی میں کسی کو شریک کرے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا نظام تنہا نہیں چلا سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتا ہے حالانکہ عجز اور ناتوانی خدائی صفات کے بالکل برعکس صفات ہیں۔ جو عاجز ہوگا وہ خدا نہیں ہوسکتا، جس کی قدرت کہیں جا کے رک جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ادھورا خدا ہے۔ پھر یہ بتانے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح پوری کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور کس طرح اس کے احکام کے سامنے ایک ایک کُرّہ بےبس اور سرتاپا اطاعت ہے۔ ارشاد فرمایا : وَسَخَّرَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ” اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، یعنی ایک قانون کا پابند بنایا ہے۔ “ یعنی اگر تم یہ دیکھنا چاہو کہ کس طرح کائنات کی ایک ایک چیز اس کے احکام کی تابع ہے اور کوئی چھوٹی بڑی طاقت اس کے احکام سے سرتابی نہیں کرسکتی تو تم سورج اور چاند کو دیکھو جو روزانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے چمکتے اور ڈوب جاتے ہیں۔ تمہارے دن کی ہماہمی سورج کے وجود سے ہے اور تمہاری شب کی لذت و گداز چاند کی چاندنی سے ہے۔ انسان کا تمام وظیفہ حیات اور سرگرمی ٔ کارسورج اور چاند کے طلوع و غروب سے ہے۔ سورج تو اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق ہے جس سے ہماری زندگی کا چولہا جلتا ہے، اسی سے ہماری کھیتیاں پکتی ہیں اور ہماری خوراک کا انتظام ہوتا ہے، یہی سمندر سے ہمارے لیے بادل اٹھاتا ہے جو زمین کی سیرابی کا کام کرتے ہیں، پھر چاند پھلوں میں مٹھاس اور دانے میں گداز پیدا کرتا ہے اور پھر دونوں کی حرکت ہماری زندگی کے تمام معاملات کو ایک توازن دیتی ہے۔ زمین کی دو حرکتیں ہیں، ایک اپنے گرد جو 24 گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے اور دوسری آفتاب کے گرد، جو 365 دن لیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق زمین کو آفتاب سے جدا ہوئے آج 2 ارب صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن ان گردشوں میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا، ورنہ علماء ہئیت کے تمام حساب غلط ہوجاتے۔ اپنے گرد زمین ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور آفتاب کے گرد 68 ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے۔ اگر اس کی پہلی رفتار کو 10 گنا کم کردیا جائے تو شب و روز 10 گنا لمبے ہوجائیں گے۔ جون میں 140 گھنٹے کا گرم دن زمین کو جھلس کر رکھ دے گا اور جنوری کی اتنی طویل رات ہر شے کو منجمد کردے گی۔ اور اگر اسے بڑھا دیا جائے تو ہر شے کا وزن کم ہوتا جائے گا۔ اور جب یہ رفتار 16 ہزار 200 میل فی گھنٹہ پر پہنچے گی تو کسی چیز میں کوئی وزن نہیں رہے گا۔ ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا درختوں اور مکانوں کو گرا دے گا اور ہا کی کا بال ہٹ ہونے کے بعد ہوا میں اڑ جائے گا اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ زمین سورج سے تقریباً 9 کروڑ 29 لاکھ میل دور ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوتا تو ہم گرمی سے مرجاتے اور زیادہ ہوتا تو سردی سے مرجاتے۔ کُرّہ زمین کا رخ آفتاب کی طرف بالکل سیدھا نہیں بلکہ 23 درجہ کے قریب ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہی جھکائو موسموں کا سبب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر دن پچھلے دن جیسا ہوتا اور ہم سردی گرمی، بہار اور برسات کے مناظر، غذائوں اور پھلوں سے محروم ہوجاتے۔ سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں اس طرح بندھے ہوئے ہیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے کسی فرض سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتا۔ سورة یٰسین میں فرمایا گیا ہے ” کہ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردی ہیں، وہ انھیں منزلوں کے مطابق سرگرمِ سفر رہنے پر مجبور ہے اور سورج کی مجال نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑے یا اس سے آگے نکل جائے اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے، ہر ایک اپنے مدار میں گردش کررہا ہے۔ ان دونوں کی گردش، ان کی کارکردگی اپنے فرائض میں غیرمعمولی پابندی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اور اس کی مخلوقات کا ایک ایک فرد اس کے تکوینی نظام میں جکڑا ہوا ہے، اور کسی کو بھی اس کے حاکمانہ اقتدار کے مقابلے میں دم مارنے کی مجال نہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان یا جن اپنی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنالیں۔ اور یہ سمجھیں کہ جب تک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں بنایا جائے گا ہماری ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں اور کائنات کا نظام ٹھیک طرح سے چل نہیں سکتا۔ کائنات کے فرمانروا کے ایک ہونے پر دلیل کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًی ط اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے۔ جس طرح کائنات کی ایک ایک مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے احکام کے تحت فرائض انجام دینا اور اس کے نظام کا کل پرزہ بن کے رہنا اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہاں ایک ہی فرمانروا ہے، یہ کائنات مختلف دیوتائوں کی رزم گاہ نہیں۔ یہاں صرف ایک کی مرضی چلتی ہے، کسی اور کو دخل دینے کی جرأت نہیں، یہاں صرف ایک احکم الحاکمین ہے، کسی اور کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح اس کائنات کے تمام اجزاء اور اس میں کام کرنے والی تمام قوتیں اس بات پر بھی دلالت کررہی ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیرفانی نہیں۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو وہ مٹ جاتی ہے۔ سورج ایک وقت تک روشنی بکھیرتا ہے، پھر پردہ شب میں محجوب ہوجاتا ہے۔ چاند ایک وقت تک اپنی تابانیوں سے حسن بکھیرتا ہے اور پھر درماندہ ہو کے رہ جاتا ہے۔ بہار ایک وقت کے لیے آتی ہے اور پھر زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔ خزاں جب مسلط ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر رونق کو نگل جائے گی، لیکن پھر اسی کے بطن سے شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں۔ سورج اور چاند بظاہر صدیوں سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لیکن سائنسدان کہتے ہیں کہ سورج کی قوت میں رفتہ رفتہ کمی آرہی ہے اور ایک بہت بڑے فلسفی کا قول ہے کہ کائنات کا رجحان زوال کی طرف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اس کائنات پر قیامت چھا جائے گی۔ اور قرآن کریم کا وہ قول حقیقت بن کر سامنے آجائے گا کہ ایک دن سورج بےنور ہوجائے گا۔ کہنا یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی ایک ایک چیز اور زمین و آسمان کی ایک ایک مخلوق الگ الگ زوال پذیر ہے، اسی طرح یہ نظام مجموعی طور پر بھی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس عالم طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتارہی ہے کہ ایک دن سب کچھ زوال کا شکار ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر طلوع ہونے والا دن قیامت کی صداقت پر دلیل بنتا جارہا ہے تو قرآن کریم کا قیامت کے وقوع پر بار بار زور دینا وہ عقل کا عین تقاضا ہے جسے آج سمجھنا بظاہرمشکل نظر آتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے امکانات بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ آخرت پر دلیل اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے مظاہر کے حوالے سے اب تک جو کچھ آیت کریمہ کی وضاحت میں عرض کیا گیا، اس کے بعد یہ بات چنداں مخفی نہیں رہتی کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے۔ اور کسی اور کے لیے اس جہان کے خلق و تدبیر میں کوئی دخل نہیں۔ البتہ اگر ہم اس آیت کریمہ میں مزید غور کریں تو ایک اور بات بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے جو عام ذہنوں کے لیے کسی حد تک مخفی ہے، لیکن ایسی بھی مخفی نہیں کہ پروردگار نے اس کا لحاظ فرماتے ہوئے بطور خاص اس کی طرف اشارہ فرمایا۔ ارشاد ہوا، کہ اللہ تعالیٰ یہ نشانیاں اس لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے کہ شاید تم اپنے رب کی ملاقات پر یقین کرلو، کہ جب تم اس بات پر غور کرو کہ جس پروردگار کی بےپناہ قدرت کا عالم یہ ہے کہ وہ آسمانوں کو بغیر ستونوں کے کھڑا کرسکتا ہے اور ان میں ایسے ایسے اجرامِ فلکی کو معلق کرسکتا ہے جن کے تھامنے کے لیے بظاہر اسباب کوئی صورت ممکن نہیں۔ اور پھر مخلوقات کی رزق رسانی کے لیے کیسے کیسے حیرت انگیز انتظامات برپا کرسکتا ہے، اس سے کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک دن ساری مخلوقات کو موت کا شکار کردے۔ اور پھر ایک وقت گزرنے کے بعد تمام مخلوقات کو دوبارہ زندہ کردے اور اللہ تعالیٰ کی عدالت برپا کرے جس میں تمام انسانوں کو حساب کتاب کے لیے لا کھڑا کرے۔ یقینا ایسا کرنا اس بےپناہ قدرتوں کے مالک کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ زمین و آسمان کے اسی نظام میں جس چیز سے آدمی سب سے زیادہ حیران ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو اس کی ایک ایک مخلوق کی پیدائش سے ظاہر ہوتی ہے۔ آدمی کو یقین کرنا پڑتا ہے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا انتہا درجے کا حکیم ہے۔ اس کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں۔ اس سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعور اور صاحب اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد اور اپنی زمین کی بیشمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کرنے کے بعد اس کے کارنامہ زندگی کا حساب نہ لے، اس کے ظالموں سے بازپرس اور اس کے مظلوموں کی دادرسی نہ کرے، اس کے نیکوکاروں کو جزاء اور اس کے بدکاروں کو سزا نہ دے۔ ایسا ہونا کسی حکیم سے تو ہرگز ممکن نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر یہ کیونکہ ممکن ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسی حکیم و دانا ذات ایک نہ ایک دن قیامت لا کر انسانوں کے معاملات کا حساب کتاب نہ لے۔ اس کی حکمت و دانش کا یقینا یہ تقاضا ہے کہ وہ ایک نہ ایک روز قیامت برپا کرکے ہر نیکی کی جزاء دے اور ہر برائی کی سزا دے۔
Top