Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 37
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ١ؕ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ١ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ
يَوْمَ : جس دن نَطْوِي : ہم لپیٹ لیں گے السَّمَآءَ : آسمان كَطَيِّ : جیسے لپیٹا جاتا ہے السِّجِلِّ : طومار لِلْكُتُبِ : تحریر کا کاغذ كَمَا بَدَاْنَآ : جیسے ہم نے ابتدا کی اَوَّلَ : پہلی خَلْقٍ : پیدائش نُّعِيْدُهٗ : ہم اسے لوٹا دیں گے وَعْدًا : وعدہ عَلَيْنَا : ہم پر اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم میں فٰعِلِيْنَ : (پورا) کرنے والے
اور اسی لیے ہم نے اس کتاب کو نازل کیا ہے، عربی زبان میں ایک فرمان کی حیثیت سے۔ اور اگر آپ نے (بفرضِ محال) اس علم صحیح کے آجانے کے بعد لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں نہ آپ کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا۔
وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰـہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا ط وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ھُمْ بَعْدَمَاجَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ لا مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَوَاقٍ ۔ (سورۃ الرعد : 37) (اور اسی لیے ہم نے اس کتاب کو نازل کیا ہے، عربی زبان میں ایک فرمان کی حیثیت سے۔ اور اگر آپ نے (بفرضِ محال) اس علم صحیح کے آجانے کے بعد لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں نہ آپ کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا۔ ) قرآن کی حیثیت گزشتہ آیت کریمہ میں ہم نے مشرکینِ مکہ کا اہل کتاب کے حوالے سے اعتراض بھی پڑھا اور اس کا جواب بھی۔ اب ایک دوسرے پہلو سے اسی اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے کہ تم اپنی ساری انکار کی قوتیں اور شک و شبہ کے تمام طلسمات کو ایک طرف رکھ کر اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ قرآن کریم محض کتابوں میں ایک کتاب کا اضافہ نہیں بلکہ اس کی حیثیت فرمانِ الٰہی کی ہے جسے عربی زبان میں اس لیے اتارا گیا ہے تاکہ تم اس کے اولین مخاطب کی حیثیت سے اسے سمجھ سکو اور پھر اس کے مبلغ و مناد بن کر اٹھو۔ جب تک تم اس کی اس اصل حیثیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرو گے اس وقت تک مختلف بہانے تمہارا راستہ روکتے رہیں گے۔ کوئی کتاب جو نصیحت کے لیے لکھی جائے یا کسی علمی صداقت کے اثبات کے لیے، اس کے لیے ایک سے زیادہ آرا کا ہوجانا چنداں قابل تعجب نہیں، لیکن وہ نوشتہ جس کی حیثیت حاکم اعلیٰ کے فرمان کی ہو اس میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ تم اسے اپنی دماغی کاوشوں کا میدان بنائو۔ فرمان کی حیثیت صرف تسلیم کرنے سے وجود میں آتی ہے۔ رہی یہ بات کہ اسے دماغ قبول کرتے ہیں یا نہیں، یہ بہت بعد کی بات ہے۔ اس لیے جب تک تم قرآن کریم کو فرمانِ الٰہی کا درجہ نہیں دو گے، اس وقت تک یہ قیل و قال ختم نہیں ہوگا۔ خطاب آنحضرت ﷺ سے، عتاب مشرکین پر اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے خطاب ہے جس میں بظاہر ایک ایسی بات کی وجہ سے آپ پر عتاب ہورہا ہے جس کا ثبوت کسی پیغمبر سے قطعاً ناممکن ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کریم کے اسلوب کا ایک نکتہ ذہن میں رہنا چاہیے، وہ یہ کہ جب کبھی کسی ایسی بات پر جس کا تعلق کفار سے ہو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ( علیہ السلام) پر عتاب ہوتا ہو تو وہ عتاب دراصل پیغمبر ( علیہ السلام) پر نہیں ہوتا بلکہ اس قوم پر ہوتا ہے جس کی طرف پیغمبر ( علیہ السلام) مبعوث ہوتا ہے۔ یہاں بھی خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن عتاب قریش مکہ پر ہے۔ ان کے رویئے اور انکار کی شناعت کو نمایاں کرنے کے لیے یہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار درحقیقت اسے تسلیم کرنے سے انکار، پیغمبر پر ایمان لانے سے انکار یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر کہیں اس کا صدور نبی سے بھی ہو جو بالکل ناممکن ہے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کے عتاب کی بجلی گرے گی اور وہ بھی اس کے غضب سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی تمام عنایتِ خصوصی کا مورد ہونے کے باوجود اس کے عذاب سے نہ بچ سکے اور کوئی اس کو بچانے والا بھی نہ ہو۔
Top