Taiseer-ul-Quran - Al-An'aam : 90
وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ١۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَ : اور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین قِطَعٌ : قطعات مُّتَجٰوِرٰتٌ : پاس پاس وَّجَنّٰتٌ : اور باغات مِّنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّزَرْعٌ : اور کھیتیاں وَّنَخِيْلٌ : اور کھجور صِنْوَانٌ : ایک جڑ سے دو شاخ والی وَّغَيْرُ : اور بغیر صِنْوَانٍ : دو شاخوں والی يُّسْقٰى : سیراب کیا جاتا ہے بِمَآءٍ : پانی سے وَّاحِدٍ : ایک وَنُفَضِّلُ : اور ہم فضیلت دیتے ہیں بَعْضَهَا : ان کا ایک عَلٰي : پر بَعْضٍ : دوسرا فِي : میں الْاُكُلِ : ذائقہ اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے ہیں
اور زمین میں پاس پاس زمین کے خطے ہیں، انگوروں کے باغات ہیں، کھیتی ہے اور کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ جڑواں ہیں اور کچھ اکہرے۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں لیکن ہم پیداوار میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دے دیتے ہیں۔ بیشک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔
وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰ تٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآئٍ وَّاحِدٍ قف وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ (سورۃ الرعد : 4) (اور زمین میں پاس پاس زمین کے خطے ہیں، انگوروں کے باغات ہیں، کھیتی ہے اور کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ جڑواں ہیں اور کچھ اکہرے۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں لیکن ہم پیداوار میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دے دیتے ہیں۔ بیشک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں) ۔ زمین کی نشانیوں کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ اب ایک اور پہلو سے زمین کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ مقصود اس سے بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی حاکمیت کی مطلق العنانیت کو بیان کرنا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر غور کرو، تمہیں زمین مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ملے گی، حالانکہ وہ ایک کُرّہ ہے اور اگر وہ سورج سے جدا ہوا ہے تو پھر اس کا مبدا بھی ایک ہے۔ اس لحاظ سے تو اس کو ظاہری شکل و صورت سے لے کر باطنی فوائد و خصوصیات تک یکساں ہونا چاہیے، لیکن عجیب بات ہے کہ زمین ایک فاصلے پر جا کر بعض دفعہ رنگ بدل لیتی ہے۔ اس کی مٹی کا رنگ بدل جاتا ہے اور اس کے خصائص بھی تبدیل ہوجاتے ہیں اور بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ زمین کا ایک حصہ اگر نباتات کے قابل ہے تو دوسرا حصہ مختلف دھاتوں کا دفینہ ہے۔ کہیں زمین کے نیچے آب شریں بہہ رہا ہے اور کہیں کڑوا اور نمکین پانی۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ زمین کے قریب قریب قطعات میں جہاں زراعت ہورہی ہے اس میں پیداوار باہمی عجیب و غریب تنوع کی حامل ہے۔ زمین کا ہر ٹکڑا دوسرے سے پیوست ہے لیکن ایک ٹکڑے میں کوئی چیز اگ نہیں سکتی اور دوسرا ہے کہ پوری پیداوار دے رہا ہے۔ اور پھر باغات ہیں تو ایک ہی طرح نہیں، کہیں انگوروں کی بیلیں بہار دے رہی ہیں، کہیں مختلف قسم کی کھیتیاں ہیں، کہیں کھجوریں ہیں اور کھجوریں بھی سب اپنے وجود میں ایک جیسی نہیں، کہیں ایک ہی جڑ سے ایک ہی تنا پھوٹا ہے اور کہیں ایک جڑ سے دو دو تنے پھوٹے ہیں اور دونوں کا پھل ایک دوسرے سے مختلف ہے حالانکہ زمین کے تمام ٹکڑوں کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جارہا ہے اور جن درختوں کا پھل بظاہر ایک دوسرے کے مشابہ ہے وہ بھی پیداوار کی کمی بیشی میں اور مزے میں یکساں نہیں اور کسی کا پھل معیار کے مطابق ہوتا ہے اور کسی کا معیار سے فروتر۔ کیا یہ رنگا رنگی اور یہ تنوع اور یہ اختلاف اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ آپ سے آپ نہیں ہورہا کیونکہ اگر آپ سے آپ ہوتا تو ایک ہی طرح سے ہوتا۔ اور نہ نیچر کا اندھا بہرہ قانون سب پر یکساں مسلط ہے۔ یہ صورتحال بول رہی ہے کہ ایک ہی خدائے علیم و حکیم اس پورے نظام کائنات کو اپنی نگرانی میں چلا رہا ہے۔ اور سارے عالم اسباب پر تنہا اسی کی حکمرانی ہے۔ وہ کسی قانون کا پابند نہیں بلکہ اس کائنات کا ہر تغیر اس کے قانون کا پابند ہے۔
Top