Ruh-ul-Quran - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
(اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں ( علیہ السلام) سے۔ ہم تمہیں یقینا اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تمہیں لوٹنا ہوگا ہمارے دین میں۔ پس ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْلَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاط فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْن۔ وَلَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ ہِمْ ط ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِ ۔ (سورۃ ابراھیم : 13۔ 14) (اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں (علیہم السلام) سے۔ ہم تمہیں یقینا اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تمہیں لوٹنا ہوگا ہمارے دین میں۔ پس ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔ اور تمہیں ان کے بعد اس سرزمین میں آباد کریں گے۔ یہ انجام ہے ہر اس شخص کا جو میرے سامنے حاضری سے ڈرا، اور میری وعید سے اس نے خوف کھایا۔ ) کفار کی دھمکی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ انسان جب کسی سچائی یا حقیقت کو نہ ماننے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو شروع شروع میں دلائل کی جنگ لڑتا ہے۔ جب اس میں ناکام ہوتا ہے تو پھر وہ دھمکیوں اور اذیت رسانیوں پر اتر آتا ہے۔ مشرکینِ مکہ بھی یہی کر رہے تھے اور سابقہ امتوں کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتلارہی ہے کہ جب وہ دلائل کی جنگ میں پسپا ہوگئے تو انھوں نے اپنی طرف آنے والے رسولوں ( علیہ السلام) کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا کہ تم نے اپنا اگر یہ دعوتی عمل ختم نہ کیا اور تم نے ہماری قوم کے نوجوانوں کو ان کے عقائد سے گمراہ کرنے کا سلسلہ نہ روکا تو ہم اس سرزمین سے تمہیں نکال باہر کریں گے۔ تمہاری دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے اس سرزمین کو اپنی بداعمالیوں کے باعث فساد سے بھر دیا ہے، لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم ایک پر عیش زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن تمہاری تبلیغ و دعوت نے ہماری خوشیوں کو مکدر کردیا ہے۔ تمہیں خوشی کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی اور ہر بات میں کیڑے نکالنے لگتے ہو۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک بستی یا ایک ملک میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ تم چونکہ کمزور اور اقلیت میں ہو اس لیے ہم کسی نہ کسی دن تمہیں نکال باہر کریں گے۔ یہ وہی صورتحال ہے جیسا کہ قرآن کریم نے قوم لوط کے بارے میں بتایا ہے کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے انھیں ان کی بےحیائی پر ٹوکا اور ان کے خلاف فطرت عمل پر ان کو ملامت کی تو وہ آپس میں اکٹھا ہو کر کہنے لگے کہ آل لوط کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ یہ اپنے آپ کو بہت پاکباز سمجھتے ہیں اور دوسری بات یہ کہی کہ اگر تم ہماری بستی میں رہنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں واپس اپنے دین میں آنا ہوگا۔ یعنی جو خرافات، ہذلیات، لغویات اور جہالت پر مبنی طوراطوار کو انھوں نے اپنا دین بنا رکھا تھا۔ تمہیں اس دین میں واپس آنا ہوگا۔ ان کا گمان یہ تھا کہ نبوت سے پہلے یہ رسول ( علیہ السلام) ہمارے ہی دین پر تھے۔ نبوت کے بعد انھوں نے ہمارے دین کا انکار کرکے ارتداد کا راستہ اختیار کرلیا ہے حالانکہ امرواقعہ یہ ہے کہ پیغمبر نبوت سے پہلے بھی دین جہالت پر نہیں ہوتاوہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی سے پہلے خاموش زندگی گزارتا ہے اور کسی بحث میں مبتلا نہیں ہوتا تو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے پیغمبروں ( علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ کافروں کی دھمکیوں کی پروا مت کریں۔ تبلیغ و دعوت کے حوالے سے آپ نے اپنا فرض خوب انجام دیا ہے۔ ہم نے انھیں تمہاری دعوت سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا، لیکن ان کے رویئے نے یہ ثابت کردیا کہ وہ نصیحت کی بات کو نہیں سمجھتے، اب انھیں مٹا دیا جائے گا اور ان کی جگہ پر ہم تمہیں آباد کریں گے۔ اس لیے کہ ہمارا قانون یہ ہے کہ جب حق و باطل کی کشمکش ہوتی ہے تو ہم اہل باطل کو زیادہ سے زیادہ مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ پیغمبر ( علیہ السلام) کی دعوت کو اچھی طرح سنیں اور پرکھیں لیکن جب اہل باطل بجائے دعوت حق کو قبول کرنے کے اسے مٹا دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر ہم انھیں مزید مہلت نہیں دیتے۔ پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اہل حق نے اپنا فرض کہاں تک انجام دیا ہے۔ اور اگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ اہل حق اپنے پیغمبر ( علیہ السلام) کی معیت میں اپنی تمام تر توانائیاں اس راستے میں صرف کرچکے ہیں اور اہل باطل کی اذیت رسانیوں پر انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا بلکہ انھیں فکرصرف ایک بات کی رہی کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کے لیے کھڑے کیے جائیں گے تو ہم کسی کمزوری کا شکار نہ ہوجائیں اور وہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی وعید، اس کی ناراضگی اور بالآخر اس کے عذاب سے لرزاں اور ترساں رہے تو پھر ہم ان اہل حق کو اہل باطل کو مٹا کر ان کی جگہ آباد کردیتے ہیں۔ ان کی زمینوں کا انھیں وارث بنا دیتے ہیں اور زمین کے تمام خزانے ان کے حوالے کرکے ان کو زمین کا حاکم بنا دیتے ہیں۔
Top