Ruh-ul-Quran - Ibrahim : 31
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ
قُلْ : کہ دیں لِّعِبَادِيَ : میرے بندوں سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے يُقِيْمُوا : قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُنْفِقُوْا : اور خرچ کریں مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : چھپا کر وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر مِّنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ يَّاْتِيَ : کہ آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خِلٰلٌ : اور نہ دوستی
آپ ﷺ فرما دیجئے میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہ وہ نماز کا اہتمام رکھیں۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کریں۔ اس سے پیشتر کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی۔
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ سِرًّاوَّعَلاَنِیَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاتِیَ یَوْمٌ لاَّبَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خِلٰلٌ۔ (سورۃ ابراھیم : 31) (آپ ﷺ فرما دیجئے میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہ وہ نماز کا اہتمام رکھیں۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کریں۔ اس سے پیشتر کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی۔ ) مسلمانوں کو پیغام قریش کو تنبیہ اور انذار کے بعد مسلمانوں کو نصیحت کی جارہی ہے اور بالواسطہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قریش کے دن گنے جا چکے ہیں، یہ گرتی ہوئی دیوار کے نیچے بیٹھے ہیں جو کسی وقت بھی ان کو لے بیٹھے گی۔ مستقبل کے امین مسلمان ہیں۔ اس دھرتی کا اصل نمک یہی ہیں۔ مستقبل کا بوجھ اٹھانا ہے اور اسلام کا ہر اول دستہ بن کر دنیا کو اسلام کی روشنی سے بہرہ ور کرنا ہے، تو انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کے اندر معمولی کمزوری بھی تاریخ میں حوادث کا شگاف کھول دے گی، چونکہ آئندہ نسلوں کا دارومدار انھی پر ہے اس لیے وہ اپنا اچھی طرح جائزہ لیں کہ ان میں ایمان و عمل اور سیرت و کردار کا کوئی سقم باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے ان کے تعلق کی استواری اور پائیداری کے لیے نماز کا اہتمام بےحد ضروری ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جو بندے اور معبود میں حقیقی تعلق پیدا کرتی ہے۔ انسان کو اپنی حقیقت سے بھی آشنا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے بھی بہرہ ور رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے باعث وہ کسی کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ سے ربط و ضبط مضبوط ہونے کے باعث وہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا۔ وہ حق اور اپنے جیسوں کے سامنے ایک عاجز بندہ ہوتا ہے، لیکن باطل اور اہل کفر کے سامنے ایک طوفان ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا۔ ایک فولاد ہے جس کو نگلا نہیں جاسکتا۔ اس کی شخصیت دلآویز ہونے کے باوجود اپنے اندر وہ استقامت، وہ استقلال اور وہ عظمت رکھتی ہے جس کے سامنے بڑی سے بڑی بلندی ہیچ ہوجاتی ہے۔ دوسرا حکم دیا کہ مسلمان انفاق فی سبیل اللہ تعالیٰ کو زندگی کا ایک لازمی سامان سمجھیں۔ بظاہر مال و دولت انسانی ضرورتوں کا ضامن ہے لیکن حقیقت میں حق و باطل کی سربلندی جس طرح ایمان کا مطالبہ کرتی ہے اسی طرح انفاق کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ حق و باطل کی کشمکش میں افراد جانیں دے سکتے ہیں لیکن اسلحہ جنگ مہیا نہیں کرسکتے۔ دفاع کے لیے قلعے وجود میں نہیں آسکتے تاوقتیکہ صاحب ایمان لوگوں کے دل انفاق کے لیے کھلے نہ ہوں۔ جذبہ ایمان اور جذبہ انفاق دونوں مل کر ایک ایسی قوت بنتے ہیں جس سے اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے راستے میں انفاق وہ معتبر ہے جس کے پیچھے اخلاص کی قوت ہو۔ اگر اخلاص کا مطالبہ یہ ہو کہ اسے سراً دیا جائے تو اس پر عمل ضروری ہے۔ اور اگر مطالبہ یہ ہو کہ دوسروں کی ترغیب کے لیے علانیۃً دیا جائے تو پھر سب کے سامنے دینا اخلاص کی دلیل ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ نماز کا اہتمام اور انفاق فی سبیل اللہ تعالیٰ کو یہ نہ سمجھو کہ یہ اسلامی انقلاب کی ضرورت ہے اور تمہاری طاقت کا راز اس میں ہے بلکہ عنداللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہی توشہ اخرت بھی ہے، جس دن کمائی کے تمام ذرائع ختم ہوجائیں گے، نہ کوئی کاروبار کام آئے گا اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی اس دن یہی نماز اور یہی انفاق سرخروئی کا کام دیں گے اور جنت میں بلندی ٔ درجات کا باعث ہوں گے۔
Top