بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَ : اور قُرْاٰنٍ : قرآن مُّبِيْنٍ : واضح۔ روشن
ال ر … یہ آیات ہیں کتاب الٰہی اور ایک واضح قرآن کی۔
الٓرٰ قف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ ۔ (سورۃ الحجر : 1) (ال ر … یہ آیات ہیں کتاب الٰہی اور ایک واضح قرآن کی۔ ) الٓرٰ… حروف مقطعات میں سے ہے۔ اس پر ہم کسی حد تک تفصیل سے سورة البقرہ کے آغاز میں عرض کرچکے ہیں۔ اس لیے اب اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ آیت کریمہ اس سورت کی مختصر تمہید ہے جس کے فوراً بعد اصل خطبہ شروع ہوگیا ہے۔ اس تمہید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اس سورت کی آیات جو تمہارے سامنے ہیں یہ الکتاب کی آیات ہیں، یعنی اس کتاب کی جس کا پہلی کتابوں میں پروردگار نے وعدہ فرمایا تھا کہ انسانی بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مفصل کتاب نازل فرمائیں گے اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت اس کتاب کا حصہ ہے یعنی قرآن مجید کا کہ جو اپنی ذات میں مکمل کتاب کہلانے کی مستحق ہے۔ باقی جتنی کتابیں بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتاری گئی ہیں ان کی عظمت اور افادیت میں کوئی کلام نہیں۔ البتہ اس کتاب کے مقابلے میں ان کی حیثیت اس کتاب کے ابواب کی ہے۔ کیونکہ ان میں سے کسی کتاب میں بھی نہ آج کے مسائل کا ذکر ہے اور نہ ان کے حل کا اور نہ اس کے کسی باب میں تکمیلی شان پائی جاتی ہے۔ قرآن مبین کا مفہوم اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ یہ قرآن مبین کی آیات ہیں۔ قرآن مبین کا معنی ہے واضح قرآن، جس کے سمجھنے میں کوئی الجھن اور دشواری نہ ہو۔ چناچہ جب ہم قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اس کی بہت سی صفات میں سے یہ صفت بہت نمایاں دکھائی دیتی ہے کہ قرآن کریم نے جن باتوں کو ایمانیات کا درجہ دیا ہے اور جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور جن باتوں پر ہدایت کا دارومدار ہے اور جو انسانی زندگی میں کسی نہ کسی اہمیت کی حامل ہیں قرآن کریم جب انھیں بیان کرتا ہے تو اس کا بیان نہایت دلآویز، دل کو موہ لینے والا، الفاظ میں شان و شوکت کا حامل اور معنی میں دل میں اترجانے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم ایسی زبان ہے جو نہایت آراستہ و پیراستہ اور شگفتہ زبان ہے۔ قدرت نے آج تک اس پر کہنگی کی پرچھائیں نہیں پڑنے دی۔ اس کی فصاحت و بلاغت آج تک معجزانہ شان لیے ہوئے ہے۔ وہ مشکل سے مشکل بات کو بیان کرتے ہوئے بھی الفاظ سے کھیلتا ہوا نہیں گزرتا۔ اس کی زبان عربی مبین ہے اور اس کا بیان، بیانِ مبین ہے۔ اس کی ایک ایک بات اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اس کی اندرونی شہادتیں اس قدر مکمل ہیں کہ اسے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود جو لوگ اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے لیے معجزات کی فرمائش کرتے ہیں وہ دراصل حقیقت کے منکر ہیں اور اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔
Top