Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 41
قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ عَلَيَّ : مجھ تک مُسْتَقِيْمٌ : سیدھا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سیدھا راستہ ہے جو میری طرف آتا ہے۔
قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ۔ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ اِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 41۔ 42) (اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سیدھا راستہ ہے جو میری طرف آتا ہے۔ بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا، مگر وہ جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کرتے ہیں۔ ) صراطِ مستقیم سے مراد ؟ اور ابلیس کی مہلت کی حد ؟ پہلی آیت کریمہ میں فرمایا کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے اور سابقہ آیت کے مفہوم پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں دراصل یہ فرمایا جارہا ہے کہ میرے ساتھ مکمل اخلاص کے ساتھ بغیر شرک کے اور بغیر ریا کے بندگی کی زندگی گزارنا یہ صراط مستقیم ہے۔ اور جو میرے بندے اس صراط مستقیم پر قائم رہتے ہیں ان پر شیطان کا کبھی غلبہ نہیں ہوتا۔ وہ میری شریعت سے انحراف نہیں کرتے تو شیطان کو حکم چلانے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ اپنے دل میں میری محبت اور میرے خوف کے سوا کسی دوسرے کا تصور داخل نہیں ہونے دیتے تو شیطان کو ان کے نازک جذبات تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ اور ویسے بھی دوسری آیت میں یہ اشارہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ شیطان سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہم نے تجھے قیامت تک کے لیے زندگی دے دی اور گمراہ کرنے کے لیے مہلت دے دی اور کسی حد تک اس کے وسائل بھی دے دیے۔ البتہ میرے جو بندے اخلاص کے ساتھ مجھ سے وابستہ رہیں گے تمہیں اس بات کا اختیار نہیں دیا کہ تم ان پر غلبہ پانے کی کوشش کرو۔ وہ تمہاری دسترس سے آزاد ہوں گے۔ تیری دسترس میں صرف وہ لوگ آئیں گے جو اللہ تعالیٰ کے راستے کو چھوڑ کر اس کے اخلاص کے رشتے کو توڑ کر گمراہی کی زندگی گزار رہے ہوں گے۔
Top