Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 80
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ
وَلَقَدْ كَذَّبَ : اور البتہ جھٹلایا اَصْحٰبُ الْحِجْرِ : حجر والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
(اور حجر والوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔
وَلَقَدْ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِالْمُرْسَلِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 80) (اور حجر والوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔ ) اصحاب الحجر سے مراد ” حجر “ شمالی عرب اور شام کے درمیانی علاقہ کو کہتے ہیں۔ یہ قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر ” العلا “ سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ یہ علاقہ قوم ثمود کا مسکن تھا جن کے اندر حضرت صالح (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہراہِ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں، مگر نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے سفر میں ہمارا گزر حجر کے علاقہ سے ہوا۔ ہم وہاں اترے، وہاں کے کنوئوں سے لوگوں نے پانی بھرا اور اسی کے ساتھ آٹا گوندھا تو حضور ﷺ نے حکم دیا کہ اس پانی کو انڈیل دو ، جو آٹا اس پانی کے ساتھ گوندھا ہے اسے اونٹوں کے سامنے ڈال دو اور اس کنویں سے پانی لو جہاں سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ حضرت ابن عمر ( رض) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ہمیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کے مکانوں میں جب تم داخل ہو جنھوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تھا تو روتے ہوئے داخل ہو، ایسا نہ ہو کہ وہی عذاب تم پر بھی نازل ہو۔ حضور ﷺ کے اس ارشاد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کے آثار و دیار کو نہ پسند کرنا چاہیے اور اگر کبھی وہاں سے گزرنا پڑے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے گزرنا چاہیے۔ ایک سوال کا جواب اس آیت کریمہ میں مرسلین کا لفظ استعمال ہوا ہے جو مرسل کی جمع ہے۔ اس کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ حجر نے کئی رسولوں ( علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی حالانکہ ان کی طرف صرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے اور آپ کی تکذیب تو صرف ایک رسول کی تکذیب ہے۔ اس میں جمع کا صیغہ لانے سے کیا مراد ہے ؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہاں شاید اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے رسول ( علیہ السلام) بھی آئے ہیں ان سب کی دعوت ایک تھی۔ وہ سب ایک ہی ذات کے فرستادہ اور نمائندہ تھے۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی جس طرح اللہ تعالیٰ کا انکار ہے، اسی طرح سب رسولوں کا انکار بھی ہے۔ اس سے جہاں رسولوں میں وحدت فکر اور وحدت عمل کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک رسول ( علیہ السلام) کی تکذیب اپنے اندرکس قدر شدت رکھتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کتنا بڑا جرم ہے۔ اس سے قریش کو شاید یہ اشارہ دینا بھی مقصود ہو کہ اگر ہر رسول کا انکار اپنے اندر یہ معنی رکھتا ہے کہ گویا وہ سارے رسولوں کا انکار ہے تو نبی کریم ﷺ تو آخری رسول اور سیدالرسل ہیں، ان کی تکذیب جرم ہونے کے حوالے سے کس قدر شدید ہوگی۔ تمہیں ایک لمحہ اس پر بھی سوچ لینا چاہیے۔
Top