Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 95
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم كَفَيْنٰكَ : کافی ہیں تمہارے لیے الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : مذاق اڑانے والے
ہم کافی ہیں آپ کو مذاق اڑانے والوں کے شر سے بچانے کے لیے۔
اِنَّا کَفَیْنٰـکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ ۔ الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـھًا اٰخَرَ ج فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 95۔ 96) (ہم کافی ہیں آپ کو مذاق اڑانے والوں کے شر سے بچانے کے لیے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود شریک کرتے ہیں۔ سو وہ عنقریب جان لیں گے۔ ) آنحضرت ﷺ کی حفاظت کا وعدہ گزشتہ آیت کریمہ میں برملا تبلیغ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت کو ہر کس و ناکس ہر چھوٹی بڑی مجلس اور ہر رئیس کے دربار تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے کام میں کچھ مزید تیزی اور مزید جرأت و جسارت پیدا کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے جبکہ اس سے پہلے کی تبلیغ کا نتیجہ مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جارہا تھا اور مخالفین اس دعوت کو کچل دینے کے منصوبے باندھ رہے تھے اور اب جب اس میں مزید تیزی آئے گی تو یقینا دوسری طرف سے ردعمل بھی شدید ہوگا۔ پہلے جو لوگ اس دعوت کا مذاق اڑاتے تھے اب نہ جانے وہ کیا کر گزریں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کو بطور خاص تسلی دیتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ آپ اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ مخالفین آپ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے اور یا وہ آپ کو کیا سے کیا نقصان پہنچا دیں گے۔ تمسخر کی حد تک ہم برداشت کرتے رہے ہیں، اب اگر ان تمسخر کرنے والوں نے قدم آگے بڑھایا تو وہ قدم کاٹ دیا جائے گا۔ آپ کو اپنی مدافعت خود کرنے کی ضرورت نہیں، یہ ذمہ داری ہماری ہے اور ہم اس کو ادا کریں گے۔ آپ کو جس بات کی سزا دی جارہی ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ توحید کی دعوت کیوں دیتے ہیں اور ایک اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کو ضروری کیوں قرار دیتے ہیں اور ان کے مصنوعی شرکاء کو قبول کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں۔ اس صورت میں ہمارے لیے تو اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم آپ کا تحفظ کریں کیونکہ آپ کو ہماری وجہ سے یہ سارے مصائب برداشت کرنا پڑ رہے ہیں اور مزید یہ بات بھی کہ مشرکین جو نہ جانے کس کس کو اِلٰہ بنا چکے ہیں، وہ اپنے شرک کی حفاظت اور اپنے مزعومہ شرکاء کی عزت کے بچائو کے لیے آپ کے درپے آزار ہیں تو ہمارے لیے بھی لازم ہے کہ ہم اپنے پیغمبر کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لیے ان لوگوں کو سبق سکھائیں۔ چناچہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کسی کافر نے زبانی ایذا دہی سے آگے بڑھ کر آپ ﷺ پر حملہ کیا اور آپ ﷺ کی جان لینے کی کوشش کی تو فرشتوں نے آپ ﷺ کی حفاظت کی۔ ابوجہل نے جب ایک دفعہ آپ ﷺ کے سر کچلنے کی قسم کھالی کہ اگر محمد ﷺ نے آج کے بعد میرے سامنے سجدہ کیا تو میں فلاں فلاں بت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کا سر کچل دوں گا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ صحنِ حرم میں نماز پڑھتے ہوئے جب سجدے میں گئے تو وہ ملعون جلدی سے پتھر اٹھا کر آپ کے سر پر مارنے کے لیے بڑھا لیکن پھر فوراً ہی پتھر اس کے ہاتھ سے گرگیا اور وہ دونوں ہاتھ مارتا ہوا جیسے اپنے آپ کو کسی چیز سے بچا رہا ہو چیختا ہوا پیچھے ہٹا۔ جب اشرافِ قریش نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ میں جیسے ہی محمد ﷺ کے قریب پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ کچھ برچھے میری طرف بڑھ رہے ہیں، آگ زبانیں نکالے میری طرف آرہی ہے اور کوئی اونٹ ہے جو مجھے نگل جانا چاہتا ہے۔ اگر میں فوراً پیچھے نہ ہٹتا تو نہ جانے میرے ساتھ کیا ہوجاتا۔ جب آنحضرت ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے جو میری حفاظت کرتے ہیں۔ اگر وہ ایک قدم بھی آگے بڑھتا تو اس کے پرزے اڑا دیے جاتے۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دینے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ ان کی طرف سے بالکل یکسو رہیں، یہ آپ ﷺ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، البتہ ان کے ساتھ جو گزرنے والی ہے ابھی اس کے بتانے کا وقت نہیں آیا، یہ عنقریب خود جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ چناچہ وقت نے زیادہ دیر انتظار نہیں کرایا۔ ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوگیا اور اس سے پہلے ہجرت کے دوسرے سال ہی جنگ بدر میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور جو باقی بچ گئے ان میں بیشتر فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگئے اور چند ایک ملک سے بھاگ گئے۔
Top