Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 97
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ
وَلَقَدْ نَعْلَمُ : اور البتہ ہم جانتے ہیں اَنَّكَ : بیشک تم يَضِيْقُ : تنگ ہوتا ہے صَدْرُكَ : تمہارا سینہ (دل) بِمَا : اس سے يَقُوْلُوْنَ : جو وہ کہتے ہیں
اور ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کا دل تنگ ہوتا ہے ان باتوں سے جو کچھ وہ کہتے ہیں
وَلَقَدْنَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْ تِیَکَ الْیَقِیْنُ ۔ (سورۃ الحجر : 97۔ 98۔ 99) (اور ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کا دل تنگ ہوتا ہے ان باتوں سے جو کچھ وہ کہتے ہیں تو آپ ﷺ اپنے رب کی اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔ اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس یقین آجائے۔ ) کفار کی بدگوئی کے مقابلہ میں تسبیح تحمید اور نماز کا حکم آنحضرت ﷺ جب مشرکین کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلاتے اور اس کی توحید کی دعوت دیتے تو وہ آپ ﷺ کی مخالفت میں جو منہ میں آتا کہہ گزرتے۔ اپنے بتوں کی حمایت میں اللہ تعالیٰ کی شان میں بھی گستاخی کرتے اور دین کے بنیادی عقائد کے بارے میں عجیب و غریب ہفوات بکتے۔ آنحضرت ﷺ کو اس سے حددرجہ تکلیف ہوتی۔ آپ ﷺ کا سینہ صدمے سے بھر جاتا۔ چناچہ اس صدمے کی شدت سے نکلنے اور دل کے اطمینان کے لیے آپ ﷺ کو تدبیر بتائی جارہی ہے کہ وہ جیسے ہی آپ کا دل دکھانے کی باتیں کریں آپ اس ذات بابرکات کی حمد و ثنا کی تسبیح میں لگ جائیں جس کا نام دلوں کے لیے باعث سکون اور جس کی یاد دکھی دلوں کا مرہم ہے۔ اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جب طبیعت پر ایسے خیالات کا ہجوم ہو جو طبیعت کو اچاٹ کردینے والے اور دل کو زخمی کردینے والے ہوں تو پھر دل کو محبوب کی یاد میں مصروف کردینا چاہیے کیونکہ محبوب کی یاد اور محبوب کا وصل ایک ایسا نشہ ہے جس کے سامنے زندگی کا کوئی خیال یا دکھ ٹھہر نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کا سب سے عظیم محبوب اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ اس لیے حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں دنیا میں اگر کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ( رض) کو بناتا، لیکن میرا خلیل صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایسے تکلیف دہ مراحل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد ہی کام آسکتی ہے۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ جب کبھی آپ ﷺ غمگین ہوتے تو آپ حضرت بلال ( رض) سے فرماتے اَرِحْنِیْ یَا بِلاَلْاے بلال ( رض) مجھے آرام پہنچائو۔ بلال ( رض) کہتے حضور ﷺ کیسے آرام پہنچائوں۔ آپ ﷺ فرماتے، آذان کہو، تاکہ نماز پڑھوں، کیونکہ میرے دل کی راحت نماز میں ہے۔ شاید اس لیے فرمایا گیا کہ آپ نہ صرف کہ خود نماز کی طرف متوجہ ہوں بلکہ اپنے خادموں کے ساتھ نماز کا اہتمام فرمائیں تاکہ جب ادھر سے راحت و اطمینان کی شبنم برسے تو آپ کے خادم بھی اس سے محروم نہ رہیں۔ مزید فرمایا کہ آپ بندگی اور عبادت اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ یقین کا وقت نہیں آجاتا، یعنی جب تک آنکھوں میں نم یا روشنی ہے اور نبض میں جنبش ہے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی یاد جاری رہنی چاہیے کیونکہ اللہ والوں کی تو حقیقی زندگی یہی ہے اور موت اسی صورت میں آنی چاہیے کہ دل میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کا شوق اور زبان پر اس کی رفاقت کا تذکرہ ہو۔ یہ اس صورت میں ہے جب یقین کا معنی موت کیا جائے۔ لیکن بعض اہل علم نے یقین سے مراد وہ وقت لیا ہے جب اسلام کو غلبہ عمومی ملے گا، مکہ فتح ہوجائے گا اور کفر اور شرک کی قوتیں آنحضرت ﷺ کے سامنے ہاتھ باندھیں کھڑی ہوں گی اور لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ آنحضرت ﷺ نے جن جن باتوں کی خبر دی تھی ان میں سے ایک ایک بات حقیقت کے روپ میں جلوہ گر ہو کر لوگوں کے سامنے کھڑی ہے۔
Top