Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 113
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ جَآءَهُمْ : بیشک ان کے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْهُمْ : ان میں سے فَكَذَّبُوْهُ : سو انہوں نے اسے جھٹلایا فَاَخَذَهُمُ : تو انہیں آپکڑا الْعَذَابُ : عذاب وَهُمْ : اور وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(اور ان ہی میں سے ایک رسول ( علیہ السلام) ان کے پاس آیا، پس انھوں نے اسے جھٹلایا، تو انھیں عذاب نے پکڑ لیا اور وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے۔
وَلَقَدْ جَآئَ ھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْھُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 113) (اور ان ہی میں سے ایک رسول ( علیہ السلام) ان کے پاس آیا، پس انھوں نے اسے جھٹلایا، تو انھیں عذاب نے پکڑ لیا اور وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے۔ ) سابقہ مضمون کی تائید یہ آیت بجائے خود اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ بستی مکہ مکرمہ تھی اور ان پر عذاب نبی کریم ﷺ کی تکذیب کے نتیجہ میں آیا تھا اور عذاب وہ نہیں تھا جس سے بستیاں تباہ کردی جاتی ہیں بلکہ عذاب آزمائش بن کر آیا تھا اور اس لیے آیا تھا کہ عذاب کے مصائب کی وجہ سے اشرافِ قریش کی گردنیں جھک جائیں۔ عام لوگوں کے دلوں میں ایک خوف پیدا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ پر ایمان لے آئیں۔ چناچہ جب اشرافِ قریش نے نہایت عاجزی سے آپ ﷺ سے درخواست کی تو آپ ﷺ نے ان کی خواہش کے مطابق دعا کی اور عذاب دور ہوگیا، مگر ان کی سرکشی اپنی جگہ پر قائم رہی۔
Top