Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 18
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر تَعُدُّوْا : تم شمار کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت لَا تُحْصُوْهَا : اس کو پورا نہ گن سکو گے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم انھیں شمار نہیں کرسکتے، بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْھَا ط اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ (سورۃ النحل : 18) (اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم انھیں شمار نہیں کرسکتے، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمتوں کی طرف اشارہ گزشتہ آیات میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کردہ مخلوقات کا ذکر فرمایا اسی طرح اپنی بےپایاں نعمتوں کی طرف بھی اشارے فرمائے۔ قسم قسم کی نعمتوں کا ذکر کیا جن کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ گویا آسمان سے نعمتیں برس رہی ہیں، زمین سے ابل رہی ہیں اور سمندروں سے اچھل رہی ہیں اور انسان ان سے نوازا جارہا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی مخلوق ان نعمتوں سے فیض یاب ہورہی ہے۔ انھیں نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان نعمتوں کے علاوہ بھی تم بہت سی نعمتوں کو محسوس کرسکتے ہو۔ اور اگر تم کوشش کرو کہ ان نعمتوں کو شمار کرو تو تمہاری کوششیں جواب دے جائیں گی، تم ان نعمتوں کو شمار نہیں کرسکو گے۔ معمولی ہوش و خرد کا آدمی بھی نعمتوں کی قدر پہچانتا ہے اور وہ اپنے منعم اور محسن کے بار احسان سے کبھی غافل نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر ممکن طریقے سے نیکی کا بدلہ نیکی سے اور احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمتیں چونکہ انسان کے پورے جسم، پوری زندگی، پورے حواس، پوری عقل اور پوری شخصیت پر حاوی ہیں، اس لیے وہ بجائے ایک ایک نیکی کا بدلہ دینے کے اپنی پوری شخصیت کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ڈال دیتا ہے اور خود سپردگی سے کام لیتے ہوئے اپنا سب کچھ اس کے حوالے کردیتا ہے تاکہ اس کی نعمتوں کا کچھ نہ کچھ حق ادا ہوسکے۔ اسی کو ایمان اور احسان کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ اپنی جان بھی اسی کی عظمت پر قربان کردیتا ہے، لیکن جو شخص اس کی نعمتوں سے تو ہر طرح فائدہ اٹھاتا ہے لیکن نہ اس کی عظمت کو تسلیم کرتا ہے، نہ اس کی کبریائی کو مانتا ہے۔ وہ ہر طرح کے شرک اور ہر طرح کی معصیت کا ارتکاب کرنے کے باوجود محسوس تک نہیں کرتا کہ میں کتنا بڑا جرم کررہا ہوں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا رسول اس کے کفرانِ نعمت پر اسے ملامت کرتا یا توجہ دلاتا ہے تو وہ اس کی جان کا دشمن ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص یا ایسی قوم کے لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹ پڑے اور اسے ہمیشہ کے لیے تباہ کردیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ غفور اور رحیم ہے اس لیے وہ عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں کرتا۔ وہ مہلت پہ مہلت دیتا ہے کہ شاید یہ نادان سنبھل جائے اور اپنی غلطیوں پر متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کرلے۔ چناچہ یہاں غفور اور رحیم اسی عنایت اور رحمت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آیا ہے۔
Top