Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق (حکمت) کے ساتھ تَعٰلٰى : برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک گردانتے ہیں۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ط تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 3) (اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک گردانتے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہ ڈرنے کی دلیل گزشتہ آیت کریمہ میں پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں کو باخبر کردیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہ ڈرا جائے اور اس کے سوا کئی اور کو اِلٰہ نہ مانا جائے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس کی دلیل بیان فرمائی کہ تم یہ تو مانتے ہو کہ آسمان و زمین کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ اس نے ہر چیز کو کسی نہ کسی مقصد اور غایت کے لیے خلق کیا۔ وہ ایک حکیم ذات ہے۔ اس کی حکمت سے یہ بات بعید ہے کہ وہ بےمقصد کسی چیز کی تخلیق کرے۔ اسی طرح اس نے تمہاری تخلیق بھی کی ہے اور تمہاری تخلیق کا مقصد اپنے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعے بار بار واشگاف فرمایا۔ اپنی آخری کتاب میں بھی صاف صاف فرمایا کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری بندگی کریں۔ پہلی بات جو اس سے مترشح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب میں زمین و آسمان اور تمہارا خالق ہوں تو پھر بجا طور پر مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں تم سے اپنی بندگی کرائوں، تم سے اطاعت کا خراج وصول کروں، کیونکہ جو ذات کسی کو وجود دیتی ہے وہی اس سے اطاعت لینے کا حق بھی رکھتی ہے۔ اس پر اسے حکم چلانے کا بھی حق مل جاتا ہے۔ اسی حق کے پیش نظر وہ انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اِلٰہ مت مانو اور اسی سے ڈرو تاکہ اس کی معصیت اور نافرمانی نہ کرسکو۔ اور دوسری جو بات اس سے خودبخود نکلتی ہے وہ یہ کہ اس نے ہر چیز کو ایک مقصد دے کر پیدا کیا۔ انسانوں کا بھی ایک مقصد ہے جیسے میں عرض کرچکا ہوں تو اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک دن سب کو اٹھا کھڑا کرے اور اپنے دربار میں بلا کے پوچھے کہ بتائو تم نے زندگی میرے احکام کے مطابق گزا ری یا اپنی خواہشات کی پیروی میں گزاری، کیونکہ مخلوق کو پیدا کرنا اور پھر اس سے کبھی جواب نہ مانگنا اور زندگی کا حساب نہ لینا اس کا تو صاف مطلب یہ ہے کہ پیدا کرنے والے نے پیدا کرکے ایک عبث کام کیا اور اللہ تعالیٰ جیسی حکیم ذات سے یہ توقع کرنا بجائے خود کفر ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ (23: 115) کیا تم نے گمان کرلیا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول پیدا کیا ہے، اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے کیونکہ جس تخلیق کے مقاصد کا لحاظ نہ کیا جائے اور اگر وہ مخلوق زندہ اور مکلف ہے تو اس کے اعمال کا حساب نہ لیا جائے اور اسے بالکل نہ پوچھا جائے کہ تو نے خدا کی عطا کردہ نعمتوں کا کیا حق ادا کیا اور زندگی کو کہاں خرچ کیا، جوانی کہاں کھودی، مال کیسے کمایا اور کہاں اڑایا، علم حاصل کیا یا نہیں، اور کیا تو اس کا کیا حق ادا کیا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیدا کرنے والے نے اسے عبث پیدا کیا۔ اس کا پیدا کرنے والا کوئی کھلنڈرا ہے جس نے محض کھیل کود کے لیے اس کی تخلیق کی ہے حالانکہ پروردگار فرماتا ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمُا لاَعِبِیْنَ ہم نے آسمانوں اور زمین کو کھیلتے ہوئے پیدا نہیں فرمایا بلکہ ایک مقصد کے ساتھ پیدا فرمایا۔ آیت کے دوسرے حصے میں فرمایا کہ مشرکینِ عرب عموماً قیامت کے آنے کا یقین نہیں رکھتے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی یہاں مٹی ہو کر ختم ہوجائیں گے اور ہمارے اعمال بھی اور کہیں ان کی بازپرس نہیں ہوگی۔ لیکن اگر بفرض محال ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہی پڑا تو جن قوتوں کو ہم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے وہ یقینا ہمیں اللہ تعالیٰ کی بازپرس سے بچا لیں گی۔ ان کو توجہ دلانے کے لیے فرمایا کہ تم کیسے احمق ہو تم مانتے ہو کہ زمین و آسمان اور اس کے اندر کی تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا اور جن کو تم شریک کرتے ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ تو کہاں اللہ تعالیٰ کی ذات اور کہاں تمہارے یہ شرکاء، کہاں خالق اور کہاں مخلوق۔ اگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے پکڑ لیا تو یہ تمہیں کیسے چھڑا لیں گے۔ وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے عذاب سے لرزاں و ترساں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر لحاظ سے بالا اور بلند ہے ان تمام قوتوں سے جنھیں لوگ اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔
Top