Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 52
وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَهُ الدِّیْنُ وَاصِبًا١ؕ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ
وَلَهٗ : اور اسی کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَهُ : اور اسی کے لیے الدِّيْنُ : اطاعت و عبادت وَاصِبًا : لازم اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَتَّقُوْنَ : تم ڈرتے ہو
اور اسی کا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے، تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا غیروں سے ڈرتے ہو۔
وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہٗ الدِّیْنُ وَاصِبًا ط اَفَغَیْرَاللّٰہِ تَتَّقُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 52) (اور اسی کا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے، تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا غیروں سے ڈرتے ہو۔ ) وَاصِبکا معنی آیت میں وَاصِبًا کا لفظ آیا ہے، اس کا معنی ہے ہمیشہ۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی کام کو ہمیشہ کیا جاتا ہے تو وہ لازمی ہوجاتا ہے ورنہ ہمیشہ کرنے کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ اس لیے اس کا ترجمہ لازم سے بھی کیا جاتا ہے۔ توحید پر دلیل سابقہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جس بات پر گواہی دی ہے یہ اس کی دلیل ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہے یعنی سب اس کے مملوک ہیں اور وہ سب کا آقا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔ وہ سب کا خالق ہے۔ جب دنیا کی ہر چیز اس کی مملوک اور اس کی مخلوق ٹھہری تو یہ بات خودبخود اس سے نکلی کہ دنیا کی ہر چیز پر اس کی اطاعت لازم ہے۔ وہ مخلوق کیا ہوئی جو اپنے خالق کی اطاعت نہ کرے اور وہ مملوک کیسا ہوا جو اپنے آقا کا حکم نہ مانے۔ مخلوق اور مملوک کے لیے اطاعت ایک لازمی امر اور ان کی حیثیت کا لازمی نتیجہ ہے۔ لیکن یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ انسان کی عقل کا تو یہ فیصلہ ہے کہ مملوک کو اپنے آقا اور اپنے مالک اور مخلوق کو اپنے خالق کی اطاعت کرنا لازمی ہے۔ لیکن انسان کا طرز عمل اس کے باکل برعکس ہے۔ وہ اطاعت کے بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے بلکہ اس کے احکام سے بغاوت کارویہ اختیار کرتا ہے اور اس پر بھی مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ بجائے اللہ تعالیٰ کے ڈرنے کے وہ ان سے ڈرتا ہے جس کا نہ وہ مملوک ہے اور نہ مخلوق ہے۔ اور ان کی مصنوعی قوتوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور ان کے خانہ ساز اقتدار کو اللہ تعالیٰ کے اقتدار سے بڑھ کر سمجھتا ہے۔ جن کی گرفت سے بچنے کے سو طریقے ہیں ان کے سامنے جھکتا ہے اور ان کے احکام بجالاتا ہے لیکن جس کی گرفت بےپناہ اور بےڈھب ہے اور جو پکڑنے پہ آئے تو کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ اس کی گرفت سے بےنیاز ہو کر من مانی زندگی گزارتا ہے۔ اس حماقت پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔
Top