Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 53
وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْئَرُوْنَۚ
وَمَا : اور جو بِكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ نِّعْمَةٍ : کوئی نعمت فَمِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے ثُمَّ : پھر اِذَا : جب مَسَّكُمُ : تمہیں پہنچتی ہے الضُّرُّ : تکلیف فَاِلَيْهِ : تو اس کی طرف تَجْئَرُوْنَ : تم روتے (چلاتے) ہو
اور تمہارے پاس جو نعمت بھی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے تم فریاد کرتے ہو۔
وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّفَاِلَیْہِ تَجْـَٔرُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 53) (اور تمہارے پاس جو نعمت بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے تم فریاد کرتے ہو۔ ) توحید پر انفسی دلیل اس آیت کریمہ کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں مشرکین کی بےعقلی اور حماقت پر تعریض کی گئی ہے اور دوسرے جملے میں توحید پر انفسی دلیل قائم کی گئی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ تم اگر اپنی عقل پر تھوڑا سا زور دو تو باور کرلو گے کہ تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ تمہارا اپنا جسم اور اس کی توانائی، تمہارا دماغ اور اس کی رعنائی، تمہارا دل اور اس کی پنہائی، تمہارے حواس اور ان کی وسعت، تمہاری عقل اور اس کی گیرائی، تمہاری دولت اور اس کی پذیرائی، غرضیکہ کوئی نعمت ایسی نہیں جسے تمہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نے عطا کیا ہو۔ تم تسلیم کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تمہارا خالق ہے تو ان میں سے کتنی نعمتیں ہیں جو تخلیق کے ساتھ عمل میں آئی ہیں اور پھر کتنی ایسی نعمتیں ہیں جو تمہاری قوت اکتساب کے برگ و بار ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے کہ یہ اسی قوت کے نتائج ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ لیکن یہ بات کس قدر ستم ظریفی کی ہے کہ تم انھیں نعمتوں کی عطا میں نہ جانے کس کس کو شریک سمجھتے ہو۔ اور پھر نہ جانے کس کس کا تم نے حصہ مقرر کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایسی پہیلی ہے جو عقل دقت سے بوجھتی ہے کہ اسے یہ تسلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شرک کا عقیدہ بھی چھوٹنے نہیں پاتا۔ آخر اس دو عملی کا کیا جواز ہے۔ کسی نے سچ کہا کہ انسان عجیب واقعہ ہوا ہے کہ اکڑنے پہ آتا ہے تو احکم الحاکمین کے سامنے اکڑ جاتا ہے اور جھکنے پہ آتا ہے تو پتھر کے گھڑے ہوئے خدائوں کے سامنے جھک جاتا ہے۔ انسانی خرد کی تنگ دامانیوں کی داستان اپنی جگہ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو فطرتِ سلیمہ عطا کررکھی ہے انسان کے بگاڑ کے ساتھ ساتھ اس کا بگاڑ بھی بڑھتا رہتا ہے لیکن جب کبھی ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں جس میں مجبوراً اسے اپنی اصل حالت پر لوٹ کر کام کرنا پڑتا ہے تو وہ ٹھیک وہی کام کرتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ مثلاً ان لوگوں کی بگڑی ہوئی فطرت ہمیشہ ان کو شرک کے راستے پر چلاتی رہتی ہے۔ یہ کسی کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو سواری سے پہلے بھی جل دیوتا کی نذر گزارتے ہیں اور پھر دورانِ سفر نہ جانے کس کس دیوتا، اوتار اور مظہر قدرت کی دہائی دیتے جاتے ہیں اور ان سے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ لیکن جب کشتی کسی طوفان کی گرفت میں آجاتی ہے تو پھر کشتی کے تمام مسافر بیک زبان پکار اٹھتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور سننے والا نہیں، اس کے شریکوں کو پکار کے دیکھ لیا، کسی نے ہماری بات نہیں سنی، اب ایک ہی بارگاہ ہے، اسے پکارو، وہ یقینا ہماری مدد کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم تمام شریکوں کو پکارتے ہو اور کہیں بھی شرک سے رکنے کا نام نہیں لیتے، لیکن جب ہر سہارا ناکام ہوجاتا ہے اور ہر طرف سے مایوس ہوجاتے ہو پھر تم اللہ تعالیٰ کو کیوں پکارتے ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصل فطرت کے اندر صرف ایک ہی خدا کا شعور ہے۔ یہ دوسرے دیوی دیوتا جو تم نے بنا رکھے ہیں اصل فطرت کے اندر ان کی کوئی جگہ نہیں۔ چناچہ جب بھی فطرت کو صحیح کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو یہ سب مصنوعی دیوی دیوتا غائب ہوجاتے ہیں اور صرف ایک ہی خدا باقی رہ جاتا ہے جس کا اعتقاد اصل فطرت کے اندر ودیعت ہے۔
Top