Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 65
وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کی موت اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّسْمَعُوْنَ : وہ سنتے ہیں
اور اللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا، پس اس سے زمین کو زندہ کیا، اس کے مرجانے ( خشک ہوجانے) کے بعد، بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو بات کو سنتے ہیں۔
وَاللّٰہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَابِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 65) (اور اللہ تعالیٰ ہی نے آسمان سے پانی اتارا، پس اس سے زمین کو زندہ کیا، اس کے مرجانے ( خشک ہوجانے) کے بعد، بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو بات کو سنتے ہیں۔ ) توحید کی دلیل تخالف آنحضرت ﷺ کی دعوت تین اساسی باتوں پر مشتمل تھی جن کے قبول کرلینے پر ایمان کا دارومدار تھا۔ ان تین باتوں میں پہلی بات ہے توحید، اور دوسری بات آخرت اور تیسری رسالت ہے۔ اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کی دعوت کے ان تینوں اساسی اصولوں کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کی صورت میں پانی نازل فرماتا ہے۔ بارش کے نازل ہونے کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ زمین فوری طور پر اس کا اثر قبول کرتی ہے اور جو لمبی قحط سالی کے نتیجے میں بالکل مردہ ہوچکی تھی اس میں تیزی سے زندگی کے آثار ابھرتے ہیں۔ عرب میں چونکہ بارشیں بہت کم ہوتی تھیں اور بعض دفعہ کئی کئی سال تک بارش نہیں ہوتی تھی۔ ہم اس خشک سالی کا صحیح طور سے تصور نہیں کرسکتے، ممکن ہے تھر کے علاقوں میں اس کا تصور پایا جاتا ہو کیونکہ وہاں بھی بعض دفعہ عرصے تک بارشیں اترنے کا نام نہیں لیتیں اور ویرانی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ پانی کے ذخیرے ختم ہوجاتے ہیں اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن اتنی گہری خشک سالی کے بعد جب بارش نازل ہوتی ہے تو حیرت انگیز بات یہ ہوتی ہے کہ وہ زمین جس میں کل تک ریت اڑتی تھی اور ویرانیوں کا پہرہ تھا چند ہی دنوں میں وہ زمین مخملی لباس پہن لیتی ہے اور ہر طرف ہریاول نظر آتی ہے۔ نباتات کی وہ جڑیں جو زمین کی تہوں میں کہیں خشک سو رہی تھیں ان میں زندگی انگڑائی لے کے اٹھتی ہے۔ اس میں سب سے پہلی بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ذرا غور کیجیے کہ زمین اور آسمان میں آپس میں تخالف کی نسبت پانی اور مٹی آپس میں متضاد ہیں۔ اور بھی کتنے عناصر ہیں جو باہمی ایک دوسرے کے متخالف ہیں، لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کہ یہ سب مل کر وہ فریضہ انجام دے رہے ہیں جس کی انجام دہی پر انھیں لگایا گیا ہے۔ زمین اپنی زرخیزی بروئے کار لانے سے انکار نہیں کرتی، سورج اپنی کرنیں بکھیرنے سے انکار نہیں کرتا، پانی اپنے جو دو کرام میں بخل سے کام نہیں لیتا، ہوا اپنی لوریوں میں کمی نہیں کرتی، سب مل کر انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنا اپنا فرض انجام دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آسمان اور زمین دونوں میں ایک ہی خدائے حکیم و قدیر کا ارادہ کارفرما ہے۔ اگر یہاں مختلف دیوتائوں اور مختلف خدائوں کی حکومت ہوتی اور یہاں مختلف ارادے کارفرما ہوتے تو متخالف اور متضاد عناصر مل کر ایک خیر مطلوب کو کبھی بروئے کار لانے کے لیے مجبور نہ ہوتے۔ ان میں یہ توافق اور مقصد کے شعور میں ہم آہنگی یقینا اس لیے ہے کہ یہ سب ایک ارادے کے تحت کام کررہے ہیں اور ایک ہی خدا ان پر حکمران ہے۔ جنت بعدالموت پر دلیل دوسری بات یہ ثابت کی جارہی ہے کہ دیکھو مردہ زمین پر اللہ تعالیٰ نے پانی برسایا تو اس میں زندگی لہلہانے لگی، خشک اور چٹیل میدان بارش کے چند چھینٹوں سے حیات تازہ سے بہرہ ور ہوگئے، تو جس پروردگار کی قدرت کا یہ عالم ہے کہ اس کی بارش کے چند چھینٹے مردہ زمین کو زندہ کردیتے ہیں تو کیا اس کی قدرت سے یہ بات بعید ہے کہ وہ مردہ مخلوق کو ازسرنو زندہ کرے اور تمام لوگوں کو قیامت کے دن قبروں سے اٹھا کھڑا کرے اور حشر بپا کردے۔ وحیِ الٰہی حیات بخش ہے تیسری بات جس کی طرح توجہ دلانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کی زندگی کے لیے بارش نازل فرماتا ہے اور اس سے ہر طرف زندگی کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں، اسی طرح جب قومیں زندگی کے شعور سے بےبہرہ ہوجاتی ہیں اور وہ اپنے اللہ تعالیٰ کو بھول کر کفر کی موت قبول کرلیتی ہیں اور ہر طرف دلوں پر موت کے پہرے گہرے ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وحیِ الٰہی کی بارش نازل فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول کی زبان سے ایک حیات بخش پیغام لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ دلوں میں زندگی کے سوتے پھوٹنے لگیں لیکن اس کے لیے ایک شرط رکھی گئی ہے جسے اس آیت کے آخر میں بیان فرمایا گیا ہے۔ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ کہ جس طرح زمین پر زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوتے تاوقتیکہ وہ بارش کو اپنے اندر جذب ہونے کا موقع نہ دے، اسی طرح انسانوں میں بھی وحی الٰہی سے وہ زندگی پیدا نہیں ہوتی جب تک لوگ اسے غور سے سننے اور قبول کرنے کی شرط پوری نہ کریں۔ اگر اسے غور سے سنیں گے تو یقینا اس سے اثر قبول کریں گے۔ پھر یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ہدایت عطا نہ فرمائے۔
Top