Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي : میں الْاَنْعَامِ : چوپائے لَعِبْرَةً : البتہ عبرت نُسْقِيْكُمْ : ہم پلاتے ہیں تم کو مِّمَّا : اس سے جو فِيْ : میں بُطُوْنِهٖ : ان کے پیٹ (جمع) مِنْ : سے بَيْنِ : درمیان فَرْثٍ : گوبر وَّدَمٍ : اور خون لَّبَنًا : دودھ خَالِصًا : خالص سَآئِغًا : خوشگوار لِّلشّٰرِبِيْنَ : پینے والوں کے لیے
(اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں ایک عبرت ہے، ہم ان کے پیٹوں کے اندر کے گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو نہایت خوشگوار ہے پینے والوں کے لیے۔
وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ م بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبْنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلْشّٰرِبِیْنَ ۔ (سورۃ النحل : 66) (اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں ایک عبرت ہے، ہم ان کے پیٹوں کے اندر کے گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو نہایت خوشگوار ہے پینے والوں کے لیے۔ ) ربوبیت کا فیضان دودھ کی صورت میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت انسان چونکہ اللہ تعالیٰ سے برگشتہ ہوچکا تھا، وہ اس کے ایک آستانے کو چھوڑ کر ہر آستانے پر ذلیل ہورہا تھا۔ پروردگار ان نعمتوں کا ذکر فرما کر جو روزانہ انسان کے استعمال میں آتی ہیں اسے سوچنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس سے پہلے پانی کا ذکر فرمایا کیونکہ پانی انسانی ضرورتوں میں ہوا کے بعد سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے حوالے سے بعض حکمتوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ اب دودھ جیسی نعمت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے جو عرب قوم کی غذا کا ایک لازمی جز تھا اور عرب کی سرزمین پر اس سے بہتر کسی نعمت کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ کھجور اور دودھ ان کے لیے مکمل غذا تھی۔ وہاں کے گرم موسم کی تمازت کے مقابلے اور عرب جیسے وسائلِ رزق کی کمیابی کے شکار ملک کو فوری ضرورت پوری کرنے کے لیے اس سے بہتر غذا کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ اور پھر اس آیت کریمہ میں صرف دودھ کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ خود چارپایوں کو اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت قرار دیا ہے جن کے اندر قدرت نے عبرت کا سامان رکھا ہے۔ عبرت کا معنی ہے، ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک پہنچ جانا۔ چارپایوں کی افادیت اور تخلیق کے بارے میں آدمی جتنا غور کرتا ہے اتنا ہی عبرت کا دروازہ کھلتا جاتا ہے۔ انھی چارپایوں میں ایک قسم ان جانوروں کی ہے جو سواری کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں اور دودھ کے لیے بھی۔ جب آدمی پر اسس پر غور کرتا ہے جس کے نتیجے میں دودھ وجود میں آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت یاد آتی ہے۔ پروردگار نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح تم نباتاتی نعمتوں پر پلتے ہو، اسی طرح دودھ دینے والے جانور بھی چارہ کھا کے پلتے ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کی صِنفِ اناث میں قدرت نے یہ حیرت انگیز نظام رکھا ہے کہ اس کی غذا ایک طرف گوبر کی شکل اختیار کرتی ہے اور دوسری طرف خون میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ جتنا خون ان کے جسم کی طاقت کے لیے ضروری ہے وہ ان کی شریانوں میں بھیج دیا جاتا ہے اور باقی کو دودھ کی شکل دے کر گوبر اور خون کے درمیان سے انسانی غذا کے لیے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ خون اور گوبر کے درمیان سے گزر کے آتا ہے لیکن اس میں ان دونوں کی کوئی خصوصیت منتقل نہیں ہوتی۔ اس کا رنگ و بو، اس کی خاصیتیں اور اس کے مقاصد بالکل ان دونوں سے جدا ہوتے ہیں اور ایسا خوش ذائقہ کہ ہر پینے والا اس کو اپنے لیے خوشگوار محسوس کرتا ہے۔ یہ مشروب بھی ہے اور غذا بھی۔ اور کھجور کے ساتھ مل کر مکمل اور بہترین غذا وجود میں آتی ہے کہ صحت کے نقطہ نگاہ سے شاید اس سے بہتر کوئی دوسری غذا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذرا غور کرو کہ اگر دودھ جیسی خوشگوار چیز پیدا کرنے میں مختلف ارادے کارفرما ہوتے اور مختلف دیوتا ہر چیز کے تخلیقی عمل میں شریک ہوتے تو کیا خون اور گوبر کے اندر سے دودھ جیسی صاف اور پاکیزہ نعمت کا نکلنا ممکن تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی الوہیت اور اس کی حاکمیتِ مطلقہ کی کس قدر محکم لیکن سامنے کی مثال ہے۔
Top