Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور ( اسی نے پیدا کیے) گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ زینت بھی ہیں اور وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔
وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَۃً ط وَیَخْلُقُ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 8) (اور ( اسی نے پیدا کیے) گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ زینت بھی ہیں اور وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔ ) ایک اور پہلو سے چوپایوں کا ذکر اب تک جتنی نعمتوں اور جتنے جانوروں کا ذکر ہوا وہ انسان کی ضرورت بھی ہیں اور ضرورتوں کی ادائیگی کا ذریعہ بھی۔ لیکن اب جن دو جانوروں کا ذکر کیا جارہا ہے یہ انسان کے لیے سواری بھی ہیں اور باعث زینت بھی۔ عرب میں عام طور پر سواری اور جنگی ضرورتوں کے لیے گھوڑے استعمال ہوتے تھے۔ اور یہی دونوں کام خچروں سے بھی لیے جاتے تھے کیونکہ خچر اور گھوڑے میں بہت تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ عرب اگرچہ ان دونوں نسلوں کی خصوصیات تک پر نگاہ رکھتے تھے لیکن عام حوالوں سے یہ دونوں کام ان سے لیے جاتے تھے۔ اسی طرح یہ بڑے لوگوں کے لیے زینت کا باعث بھی تھے۔ ایک اچھی نسل کا صحت مند گھوڑا ایسے آدمی کو بھی اچھا لگتا ہے جو گھوڑوں سے زیادہ سروکار نہ رکھتا ہو۔ چہ جائیکہ عرب وہ تو گھوڑوں پر جان دیتے تھے۔ ان کی پرورش اور پرداخت میں بچوں کو بھوکا رکھ کر بھی انھیں کھلانا ضروری سمجھتے تھے۔ آج جس طرح ہمارا طبقہ امراء گاڑیوں کے بیڑے پر فخر کرتا ہے اور کوٹھیوں کے بڑے بڑے پورچ میں لگی ہوئی گاڑیاں ان کا سر اونچا رکھ کر چلنے کا باعث بنتی ہیں۔ یہی حال عرب امراء کا بھی تھا۔ اس لیے قرآن کریم نے اسے زینت کا باعث قرار دیا۔ اور مزید فرمایا کہ افادیت، ضرورت، اہمیت، سواری اور زینت کے لیے ہم نے مختلف جانوروں کا ذکر کیا ہے جنھیں تم جانتے ہو اور جن پر تمہیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن کچھ چیزیں یا کچھ جانور انھی ضرورتوں کے لیے ایسے بھی ہیں جو دنیا کے دیگر علاقوں میں اللہ تعالیٰ پیدا فرماتا ہے لیکن تم ان سے واقف نہیں ہو۔ وہ رب العالمین ہیں اس کی ربوبیت کا فیضان سب کے لیے ہے۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے وہ یہ کہ آج تو تمہاری ضرورتوں اور زینت آرائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ جانور پیدا کر رکھے ہیں لیکن تمہیں کیا خبر کہ مستقبل میں انھیں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کیا کچھ پیدا فرمائے گا۔ آج ہم سواری، باربرداری اور زینت کے لیے وہ چیزیں اپنے پاس رکھتے ہیں کہ جن کا گزشتہ زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں تو انسان نے تخلیق کیا تھا، ہوائی جہاز اللہ تعالیٰ نے نہیں بنایا بلکہ انسان نے بنایا لیکن یہ خودفریبی ہے کیونکہ کسی بھی ایجاد اچانک آنے والا خیال وہ سائنسدان کا کمال نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ کی عطا اور دین ہوتا ہے۔ نیوٹن نے باغ میں سیب گرتے نہ جانے کتنی دفعہ دیکھا ہوگا لیکن کبھی اس کے ذہن میں کشش ثقل کا تصور نہیں آیا۔ اور جب آیا اور اس نے سائنس کے سامنے ترقی کے لامتناہی راستے کھول دیے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آیا۔ جب اسے منظور ہوا کہ انسانی عقل پر اس عقدے کو واشگاف ہونا چاہیے تو اس نے نیوٹن کے دماغ میں اس کا القا کردیا۔ اس طرح سے دنیا میں کوئی ایجاد بھی انسان کی نہیں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کہی جاسکتی ہے۔
Top