Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 95
وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : تم نہ لو بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کے عہد کے بدلے ثَمَنًا : مول قَلِيْلًا : تھوڑا اِنَّمَا : بیشک جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں هُوَ : وہی خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانو
(اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو متاع قلیل کے بدلے میں مت بیچو، جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اگر تم جانو۔
وَلاَ تَشْتَرُوْا بِعَھْدِاللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط اِنَّمَا عِنْدَاللّٰہِ ھُوَ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 95) (اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو متاع قلیل کے بدلے میں مت بیچو، جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ ) اشتراء اور ثمن قلیل کا مفہوم زمانہ قدیم میں بیع شراء یا خریدوفروخت عموماً اجناس کی صورت میں ہوتی تھی جس میں ہر ایک چیز مبیع بھی بن سکتی تھی اور ثمن بھی۔ اس لحاظ سے شراء کا معنی حقیقت میں مبادلہ ہوتا تھا یعنی دو چیزوں کا آپس میں تبادلہ اور پھر اسی سے آگے بڑھ کر یہ ترجیح کے معنی میں بولا جانے لگا کیونکہ خریدار ایک چیز لیتا ہے اور بیچنے والا ایک چیز دیتا ہے اور دونوں آپس میں دو چیزوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے پیچھے جو جذبہ کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ لینے والا اپنے ثمن پر مبیع کو ترجیح دے رہا ہے اور بیچنے والا مبیع پر ثمن کو ترجیح دے رہا ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک جس چیز کو ترجیح دے رہا ہے وہ اسے حاصل کرلیتا ہے، اسے اشتراء یا شراء کہتے ہیں۔ آیت کریمہ میں یہ بات فرمائی جارہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے عہد کو ثمن قلیل کے بدلے میں مت بیچو۔ مراد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ دین کی پابندی کا جو عہد کرچکے ہو اور جس کی تفصیلات کتاب اللہ میں موجود ہیں یہی درحقیقت تمہاری زندگی ہے۔ لیکن جب یہ کتاب اور اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد تمہاری زندگیوں میں اپنا وزن کھو دیتا ہے اور مادی زندگی تم پر غالب آجاتی ہے اور روحانی اور اخروی زندگی قصہ پارینہ بن جاتی ہے تو پھر تم مادی زندگی کی ایک ایک بات کے بدلے میں روحانی اور اخروی زندگی یا دینی زندگی کی ایک ایک قدر کو چھوڑتے جاتے ہو۔ یہی دراصل اللہ تعالیٰ کے عہد کو ثمن قلیل کے بدلے میں بیچنا ہے۔ اور اس ثمن کو ثمن قلیل اس لیے کہا گیا ہے کہ تم روحانی اور اخروی زندگی کے مقابلے میں جس مادی زندگی کو پیش کرتے ہو وہ تمہارے نزدیک کتنی بھی قیمتی ہو لیکن حقیقت میں وہ آخرت کے مقابلے میں ثمن قلیل کہلانے کی بھی مستحق نہیں کیونکہ دنیا اور آخرت کا کیا مقابلہ۔ ایک باقی دوسری فانی۔ ایک کی عمر چند سال، دوسری کو زوال ہی نہیں۔ ایک کی نعمتیں بےمثال اور دوسرے کی نعمتوں کا کوئی بھروسہ ہی نہیں۔ تو جو شخص دنیا کو دین پر ترجیح دیتا ہے وہ دراصل بیشمار خزانوں کے بدلے میں چند دمڑیاں وصول کرتا ہے۔ تفسیر بحر محیط کے مصنف ابن عطیہ نے ایک اور بات فرمائی اور خوب فرمائی کہ اس آیت کریمہ میں ہر طرح کی رشوت کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ اس طرح کہ ابن عطیہ کے نزدیک رشوت کی تعریف یہ ہے کہ اخذالاموال علی فعل ما یجب علی الاخذفعلہ اوفعل مایجب علیہ ترکہ ” اس کام پر معاوضہ دینا جس کا کرنا لینے والے پر واجب ہو اور اس کام کے چھوڑنے پر معاوضہ دینا جس کا چھوڑنا اس کے ذمہ لازم ہو، یہ رشوت ہے۔ “ (تفسیر بحرمحیط : ص 533 ج 5) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کسی ذمہ داری کو قبول کرتا ہے تو کچھ فرائض اس پر عائد ہوتے ہیں جنھیں کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ان فرائض کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو بندوں کے حقوق کی ادائیگی اس کے ذمہ لازم ہے۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا عہد کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر صاحب منصب کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ آپ فلاں فلاں کام نہ کرنے کے پابند ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا ایک عہد ہے۔ چناچہ جب ایک صاحب منصب کے پاس کوئی حق لینے والا اپنے حق کا مطالبہ لے کر آتا ہے جبکہ یہ مطالبہ پورا کرنا اس صاحب منصب کی ذمہ داری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد میں شامل ہے۔ لیکن صاحب منصب یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا حق تمہیں نہیں دلائوں گا جب تک تم مجھے اس کا معاوضہ نہ دو ، یہ رشوت ہے۔ اسی طرح اگر وہ صاحب منصب اپنے محکمے کی کوئی چیز معاوضہ لے کر کسی شخص کو دے دیتا ہے جبکہ وہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے تو یہ بھی رشوت ہے۔ اور یہاں رشوت اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ کر ثمن قلیل کی صورت میں وصول کی گئی ہے۔ چناچہ اسی کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عہد کو ثمن قلیل کے بدلے میں نہ بیچو کہ تم جو رشوت کا مال لے رہے ہو اور ایسے کام کے بدلے میں لے رہے ہو جو تمہاری ذمہ داری تھی۔ یہ تمہارا اپنے اللہ تعالیٰ سے عہد تھا۔ سوچو تم نے ایک حقیر معاوضے کے بدلے میں کتنی بڑی متاع کو برباد کردیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلال پر اکتفا کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر صبر کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کے ساتھ بہت سے وعدے کر رکھے ہیں۔ ان وعدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ایسے عطایا اور بخششیں ہیں آج تم جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اگر تم ان کے بارے میں کچھ بھی جانتے ہوتے یعنی یقین سے جانتے ہوتے تو کبھی تم میں یہ کمزوریاں پیدا نہ ہوتیں۔
Top