Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 96
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ١ؕ وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَا : جو عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس يَنْفَدُ : وہ ختم ہوجاتا ہے وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَاقٍ : باقی رہنے والا وَلَنَجْزِيَنَّ : اور ہم ضرور دیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَبَرُوْٓا : انہوں نے صبر کیا اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
(جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر، ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔
مَاعِنْدَکُمْ یَنْفَدُوَمَا عِنْدَاللّٰہِ بَاقٍ ط وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 96) (جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر، ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔ ) اہلِ ایمان کے لیے بشارت گزشتہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے عہد کے مقام و مرتبہ کو نمایاں کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھنا کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی کسی بات کو دنیا کے خزف ریزوں کے بدلے میں بدلنے کی کوشش نہ کرنا۔ ساری دنیا کی دولت بھی اس کی ایک ایک آیت کے مقابلے میں ثمن قلیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ پھر اسی مضمون کو مزید واضح کرنے کے لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا کہ تمہیں اگر ساری دنیا کے وسائل بھی میسر آجائیں وہ بہرحال فنا ہونے والے ہیں، لیکن تمہاری قربانیوں اور تمہارے اعمال کے بدلے میں جو کچھ تمہیں میسر آنے والا ہے وہ فانی نہیں، باقی اور ابدی ہے۔ خود غور کرو کہ ختم ہونے والی چیز اور باقی رہنے والی چیز کا کیا مقابلہ ہے۔ اور اگر اسے لینے کا اختیار دیا جائے تو دونوں میں سے کس کا انتخاب قرین عقل ہوگا ؟ اور مزید یہ بات فرما کر اس مضمون کی قدر و قیمت میں ناقابلِ بیان اضافہ فرمادیا ہے کہ بلاشبہ دنیا میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور شرک کے مقابلے میں توحید کا رویہ اپناتے ہیں انھیں قسم قسم کی تکلیفوں سے واسطہ پڑتا ہے، لیکن جو لوگ دنیا کے مصائب پر صبر اختیار کرتے ہیں اور قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو اپنی منزل بنا لیتے ہیں۔ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہم ان کے اس صبر اور ثبات قدم کا قیامت کے دن جو اجروثواب دیں گے وہ ان کے بہترین اعمال کے مطابق ہوگا۔ ممکن ہے ثابت قدمی اور استقلال میں وہ کہیں کمزوری دکھا جائیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں رہنے دے گا بلکہ اجروثواب پانے والے اپنے اعمال کی کم مائیگی اور اجروثواب کی بڑھوتری کو اللہ تعالیٰ کے شکرو امتنان کے اظہار میں رطب اللسان ہوجائیں گے۔
Top