Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ
: پاک
الَّذِيْٓ
: وہ جو
اَسْرٰى
: لے گیا
بِعَبْدِهٖ
: اپنے بندہ کو
لَيْلًا
: راتوں رات
مِّنَ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام
اِلَى
: تک
الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
: مسجد اقصا
الَّذِيْ
: جس کو
بٰرَكْنَا
: برکت دی ہم نے
حَوْلَهٗ
: اس کے ارد گرد
لِنُرِيَهٗ
: تاکہ دکھا دیں ہم اس کو
مِنْ اٰيٰتِنَا
: اپنی نشانیاں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْبَصِيْرُ
: دیکھنے والا
(پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے گردونواح کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں، بیشک وہی ہے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِالْاَقْصَاالَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیْہٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط اِنَّہٗ ھُوَالسَّمِیْعُ الْبَیِصْرُ ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 1) (پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے گردونواح کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں، بیشک وہی ہے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا۔ ) 1 آنحضرت ﷺ کے ہاتھ سے اس سے پہلے بھی ایسے ایسے معجزات کا ظہور ہوچکا تھا کہ جس نے مسلمانوں میں اللہ کی ذات وصفات اور مغیبات پر یقین لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور روح فرسا مخالفتوں کے ہجوم میں اللہ کے رسول کا یقین و ثبات اور اللہ کی طرف سے آنے والی تائید و نصرت ان کی استقامت و استقلال کے لیے ہمیشہ معاون بنتی رہیں۔ لیکن واقعہ معراج تو ایسا محیر العقول اور حیرت انگیز واقعہ ہے کہ انبیاء کرام کی تاریخ میں ایسا گہرائی اور گیرائی رکھنے والا واقعہ اس سے پہلے کبھی نہیں گزرا۔ ہر رسول اپنے اپنے مقام کے مطابق سیر ملکوت سے نوازا گیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں تو خاص طور پر فرمایا گیا کہ ہم نے ابراہیم کو ملکوت السموات والارضکو دیکھنے کا موقع فراہم کیا تاکہ وہ یقین لانے والوں میں سے ہوجائے۔ یعنی ان کا یقین جو پہلے سے موجود تھا اس میں بیش از بیش ترقی ہوجائے اور آپ اس مقام تک پہنچ جائیں جس مقام سے دنیا کی امامت کی جاسکتی ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور دیگر رسولانِ عظام کا کوئی واقعہ جن سے سابقہ آسمانی کتابیں معمور ہیں ایسا نہیں جسے اس معراج سے تشبیہ دی جاسکے۔ انبیائِ کرام کے بیشتر اس طرح کے واقعات کا تعلق زمینی معاملات یا خواب کی کیفیات سے ہے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کا یہ سفر بیت اللہ سے مسجد اقصیٰ تک اور مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک اور پھر عالم لا مکان تک پھیلا ہوا ہے۔ اور پروردگار نے اگرچہ اس کی تفصیلات بیان نہیں فرمائیں اور یہ کام آنحضرت ﷺ پر چھوڑ دیا گیا لیکن اس واقعے کی خبر جس اہتمام سے دی ہے اسے دیکھ کر تو ذوق جھومنے لگتا ہے۔ اس سفر کی حیرت انگیزی اور محیر العقولی کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک ہی رات میں اتنا عظیم سفر کیسے وجود میں آگیا۔ اور دوسرا یہ پہلو کہ آنحضرت ﷺ نے ایسے ایسے جہانوں کی سیر کی جو جہانِ دنیا سے اپنی نوعیت اور کیفیت میں بالکل مختلف تھے۔ وہاں کے احساسات اور وہاں کی کیفیات ایسی نرالی تھیں جس سے انسانوں کو کبھی سابقہ پیش نہیں آسکتا۔ ہمارے خلانورد خلا کے سفر کے لیے نکلتے ہیں تو اس کے لیے ایک لمبی ٹریننگ اور ایک مخصوص لباس درکار ہوتا ہے اور پھر بھی کتنے لوگ ہیں جو اس میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ خلا کا تعلق اسی دنیا سے ہے۔ لیکن حضور تو وہاں تک پہنچے جہاں ہمارے خیال اور تصور کی بھی رسائی ممکن نہیں۔ پروردگار نے دونوں پہلوئوں کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ شک و شبہ کی ہر گرد چھٹ گئی ہے۔ آدمی کو سب سے پہلے جو شبہ لاحق ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر ایک رات میں اور بغیر ظاہری اسباب کے یہ سفر کس طرح ممکن ہوا۔ اس کا جواب پروردگار نے صرف ایک لفظ میں دیا ہے۔ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً …الخ “ (پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو ایک ہی رات میں لے گئی) زور لفظ ” سُبْحَان “ پر ہے کہ تمہیں یہ تو خلجان ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے ایک رات میں اتنا عظیم سفر کیسے کر گئے ؟ اور ان راہوں سے کیسے گزر گئے جو انسانی استطاعت سے ماورا ہیں۔ لیکن کیا کسی صاحب عقل اور صاحب ایمان کو اس بات میں بھی شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر اللہ کسی کو لیجانا چاہے تو اسے بھی دشواری ہوسکتی ہے۔ اس کے پیدا کردہ سورج کی روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اور اس کے فرشتے روزانہ زمین و آسمان کی پہنائیوں کو ناپتے ہیں اور یہ ناقابل عبور مسافتیں ان کے لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ جس خالق کی مخلوق کی قوت کا یہ عالم ہے اس خالق کی قدرت کا کیا عالم ہوگا ؟ اس کے لیے تو سوچنا بھی مشکل ہے۔ اس لیے دعویٰ یہ نہیں کہ محمد کریم ﷺ ایک رات میں اتنا عظیم سفر کر آئے ‘ بلکہ دعویٰ یہ ہے کہ وہ ذات آپ ﷺ کو لے گئی جو ہر طرح کی نارسائیوں ‘ کمزوریوں اور ناتمامیوں سے پاک ہے۔ اس کے بارے میں کسی عجز کا تصور کرنا کفر سے بڑھ کر گناہ ہے۔ اور جہاں تک دوسرے پہلو کا تعلق ہے کہ آپ نے اس ناقابل تصور جہاں کا مشاہدہ کیسے کیا ہوگا تو سورة و النجم میں اس سفر کی طرف اشارے کیے گئے ہیں اور اس کا آغاز بھی اس آیت سے ہوتا ہے ” مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَ مَا غَوٰی “ ( تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ ﷺ ) نے نہ راستہ گم کیا اور نہ وہ بہکے) یعنی جہاں جانا تھا جو دیکھنا تھا جہاں لے جایا گیا ‘ کہیں بھی ان سے غلطی نہیں ہوئی۔ اور آگے جا کر فرمایا ” مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغیٰ وَلَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیَاتِ رَبِّہٖ الْکُبْرٰی “ (نہ اس کی نظر بہکی ‘ نہ اچٹی ‘ اس نے یقینا اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں) اندازہ فرمایئے کہ جس سفر کے بارے میں اور جس جانے والے کی ہمت اور استطاعت اور مقام و مرتبہ کے بارے میں پروردگار اس اہتمام سے گواہی دے اور ذکر فرمائے اس کے بارے میں اس شب ہے کا اظہار کرنا ‘ کہ یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے یا اسے نیند کا واقعہ قراردے کر خواب قرار دینا بڑی جسارت کی بات ہے۔ کیا کسی خواب کے واقعہ کو پروردگار اس اہتمام سے ذکر فرما سکتے ہیں اور پھر خوابیں ایک سے ایک حیران کن دیکھی جاتی ہیں ‘ کبھی کسی نے خواب کے معاملے پر تعجب کا اظہار نہیں کیا اور نہ خالق کائنات نے کسی خواب کے بارے میں کبھی یہ فرمایا کہ ” دیکھنے والے کی نگاہ نہ ٹھٹھکی نہ اچٹی “ تیز روشنی میں بعض دفعہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور آدمی پوری طرح منظر کو دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتا لیکن آنحضرت ﷺ نور کے سیلاب سے گزرے اور پروردگار گواہی دے رہے ہیں کہ آپ کی نگاہوں نے دیکھنے میں کوتاہی نہیں کی۔ مزید برآں بعض اہل علم نے اس کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً …الخ “ میں پروردگار نے یہ فرمایا ہے کہ ” پاک ہے وہ خدا جو شب معراج میں اپنے بندہ یعنی عبد کو لے گیا “ بندہ یا عبد کا اطلاق جسم و روح دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے۔ تنہا روح کو عبد یا بندہ نہیں کہتے اس کا مطلب یہ ہے کہ معراج پر آپ کی صرف روح نہیں گئی تھی بلکہ جسم بھی گیا تھا۔ یعنی یہ سفر روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا۔ 2 واقعہ معراج میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ براق پر سوار ہوئے۔ آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ نوش فرمایا۔ سوار ہونا ‘ پینا یہ سب جسم کے خواص ہیں۔ اس لیے معراج جسمانی تھی۔ 3 اگر واقعہ معراج ایک خواب ہوتا تو کفار اس کی تکذیب کیوں کرتے ؟ انسان تو خواب میں خدا جانے کیا کیا دیکھتا ہے۔ محال سے محال چیز بھی اس کو عالم خواب میں واقعہ بن کر نظر آتی ہے۔ 4 پروردگار نے قرآن کریم میں فرمایا ” وَمَا جَعَلْنَا الرَّؤْیَا اَلَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ “ ( اس مشاہدہ معراج کو ہم نے لوگوں کے لیے معیار آزمائش بنایا ہے) اگر یہ عام خواب ہوتا تو یہ آزمائش کی کیا چیز تھی اور اس پر ایمان لانا کیونکر مشکل تھا ؟ بعض لوگوں نے ” وَمَا جَعَلْنَا الرَّؤْیَا اَلَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ “ کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ رؤیا عربی زبان میں خواب کو کہتے ہیں۔ اور پروردگار خود فرما رہے ہیں کہ ” ہم نے آپ کو ایک رؤیا دکھایا “ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رؤیا کا اطلاق صرف خواب پر نہیں ہوتا ‘ بلکہ عربی میں ” دکھاوا “ کو کہتے ہیں یعنی جو دیکھنے میں آئے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ دیکھنا خواب میں ہو یا بیداری میں۔ لیکن اس آیت میں جو رؤیا کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بارے میں صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ( رض) کی تصریح موجود ہے کہ ” رؤیا کے معنی مشاہدہ چشم کے ہیں “ یعنی آنکھ سے دیکھنے کے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں ” عن ابن عباس ( رض) فی قولہ تعالیٰ ” وَمَا جَعَلْنَا الرَّؤْیَا اَلَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ “ قَالَ ہِیَ رَؤْیَا عَیْنٍ اُرِیْہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَمَّا اَسْرٰی بِہٖ اِلٰی بَیْتِ الْمُقَدَّسِ “ (ابنِ عباس ( رض) اس آیت کی تفسیر میں ” ہم نے جو رؤیا تم کو دکھایا اس کو نہیں بنایا مگر لوگوں کے لیے آزمائش “ کہتے ہیں کہ یہ آنکھ کا مشاہدہ تھا جو رسول اللہ ﷺ کو دکھایا گیا جبکہ آپ ﷺ کو رات کے وقت بیت المقدس لیجایا گیا) غور کیجیے کہ حضرت ابن عباس ( رض) سے بڑھ کر لغت عرب کا واقف کار اور کون ہوسکتا تھا۔ لیکن ابن عباس ( رض) اس میں متفرد نہیں بلکہ بڑے بڑے شعراء نے رؤیا کا لفظ مشاہدہ چشم کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ راعی حماسی شاعر ہے۔ وہ کہتا ہے ” فکبر للرؤیا وہش فؤادہ “ اور متنبی کا مصرعہ ہے ” ورؤیاک احلیٰ فی العیون من الغمض “ ان دونوں شاعروں نے رؤیا کو مشاہدہ چشم کے معنی میں لیا ہے۔ واقعہ معراج پر اعتراضات اور ان کا جواب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ منکرین حدیث اس واقعہ معراج پر جو اعتراضات اٹھاتے ہیں ‘ نہایت اختصار سے ان کا جواب دے دیا جائے۔ ان کے تمام اعتراضات اس قابل نہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے ‘ البتہ دو اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔ (ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے۔ ورنہ اس کے حضور بندہ کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی کہ اسے سفر کرا کے ایک مقام خاص تک لیجایا جاتا۔ دوسرا اعتراض یہ کہ نبی کریم ﷺ کو دوزخ و جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ بندوں کے اعمال اور معاملات کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا تو قیامت سے پہلے اس کے ذکر کا کیا مطلب ؟ دراصل یہ دونوں اعتراضات قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے ‘ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بناء پر محدود وسائط اختیار کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سکے ‘ حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے۔ کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ‘ مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذات خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہے۔ جہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے ورنہ اس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی ﷺ کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھایا گیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں و اپس نہ جاسکا۔ یا زنا کاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح برے اعمال کی سزائیں جو آپ ﷺ کو دکھائی گئی ہیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزائوں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔ اس واقعہ میں مخفی بعض حکمتیں اس سورت کی پہلی آیت کریمہ جس میں واقعہ اسراء یا واقعہ معراج کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کریمہ نے اس محیر العقول واقعے کی خبر دی ہے اور اس کی علت بیان کی ہے۔ لیکن حقیقت میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کیا حکمت و بصیرت کی باتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن تھوڑے سے تدبر سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کے نبی القبلتین ہونے کا اعلان فرمایا گیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھرانے کو دنیا کی سعادتوں اور برکتوں کا کلید بردار بنایا تھا اور ان کو ارض مقدس کی تولیت کا منصب عطا کیا تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا کی امامت کا شرف عطا کر کے یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ آپ کی اولاد میں سے وہ لوگ اس امامت کے اہل قرار پائیں گے جو اس امامت کی اہلیت رکھیں گے ‘ جو اللہ کے شکر گزار بندے ‘ اس کی امانتوں کا حق ادا کرنے والے اور اس کے دین کے علمبردار ہوں گے۔ لیکن جو لوگ اس کے برعکس ظالم ہوں گے یعنی وہ اللہ کے دین کی علمبرداری کے بجائے اس کے نافرمان اور کفرانِ نعمت کرنے والے ہوں گے انھیں امامت کے منصب سے معزول کردیا جائے گا۔ چناچہ آپ (علیہ السلام) کی اولاد میں دو بیٹے نمایاں ہوئے جن کو اللہ نے نبوت و رسالت عطا فرمائی ‘ 1۔ حضرت اسحاق، 2۔ حضرت اسماعیل۔ حضرت اسحاق کی اولاد ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نسبت سے بنی اسرائیل کہلائی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد بنی اسماعیل کہلائی۔ ارضِ مقدس کو ان دونوں بیٹوں کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ شام کا ملک حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور عرب کا ملک حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو دیا گیا۔ آغاز میں تو سب کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جب اللہ کے حکم سے ہیکل سلیمانی (بیت المقدس) کی تعمیر ہوئی تو پھر بنی اسرائیل کا وہ قبلہ قرار پایا۔ اگرچہ بیت المقدس کا رخ بھی بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی طرف تھا ‘ لیکن متولی ہونے کے اعتبار سے ذمہ داریاں تقسیم ہوگئیں۔ انبیائِ بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی تولیت بخشی گئی اور آل اسماعیل کو بیت اللہ کی۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے تک یہی تقسیم جاری رہی۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کو چونکہ تمام انبیائِ کرام کے متفرق اوصاف و خصوصیات کا جامع بنایا گیا ‘ اسی طرح حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) دونوں کی برکتوں اور سعادتوں کا گنجینہ بھی ذات محمدی کو ہی قرار دیا گیا۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت جو صدیوں سے دو بیٹوں میں بٹتی چلی آئی تھی وہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پھر ایک جگہ جمع ہوگئی۔ اس طرح سے آپ کو دونوں قبلوں کی تولیت تفویض کی گئی۔ اور نبی القبلتین کا منصب عطا کیا گیا۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کو کعبہ اور بیت المقدس کی طرف نماز میں رخ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور معراج کے سفر میں آپ ﷺ کو مسجد حرام سے اٹھا کر مسجد اقصیٰ پہنچایا گیا اور وہاں تمام انبیائِ کرام کی آپ ﷺ نے امامت فرمائی۔ اس طرح سے اعلان کردیا گیا کہ آج کے بعد دونوں قبلوں کی امامت اور تمام امتوں کی قیادت سرکارِ محمدی ﷺ کو عطا کی جا رہی ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنے منصب سے معزول کیے جا رہے ہیں۔ آج کے بعد نجات کا دارومدار صرف اس بات پر ہوگا کہ کون آنحضرت ﷺ پر ایمان لاتا ہے ؟ اور تمام دنیا کی قیادت و امامت بھی اس امت کے سپرد کی جائے گی۔ جو آنحضرت ﷺ کی دعوت پر ایمان اور آپ ﷺ کے اتباع سے مشرف ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ آج کے بعد دنیا کی دینی امامت و قیادت نہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں میں ہوگی نہ بنی اسماعیل کے ہاتھوں میں بلکہ اب قیامت تک امامت کا تاج آنحضرت ﷺ کے سر پر رکھا گیا ہے اور آپ ﷺ کی نیابت اور جانشینی کا حق ان لوگوں کو ہوگا جو آپ ﷺ پر ایمان لائیں گے اور آپ ﷺ کا اتباع کریں گے۔ وہ حبشہ کا بلال ( رض) ہو یا روم کا صہیب ( رض) وہ اس امت میں امامت کے منصب پر فائز ہوں گے لیکن ابو جہل اور ابو لہب اور عتبہ و شیبہ قریشی اور آل اسماعیل میں ہونے کے باوجود جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ واقعہ معراج کی تفصیلات اب ہم اس واقعہ معراج کی تفصیلات عرض کرتے ہیں جس کے ایک ایک واقعہ میں جہانِ معنی مضمر ہے۔ جس میں مسلمانوں کے لیے یقین و ایمان کی تربیت بھی ہے ‘ آنے والے حالات کی راہنمائی بھی ہے اور سابقہ امتوں کے حوالے سے نصیحت و عبرت کا سامان بھی ہے۔ قرآن کریم نے اس واقعے کی تفصیلات کو ذکر نہیں کیا۔ قرآن اس واقعے کا مختصر ذکر کرنے کے بعد یہ بتاتا ہے کہ معراج کس غرض سے ہوئی تھی اور اللہ نے اپنے رسول کو بلا کر کیا ہدایات دی تھیں۔ اور حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ محیر العقول واقعہ کس طرح پیش آیا اور اس کی تفصیلات کیا ہیں ؟ اس واقعہ کی تفصیلات اٹھائیس ہم عصر راویوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے۔ سات راوی وہ ہیں جو خود معراج کے زمانہ میں موجود تھے اور اکیس وہ ہیں جنھوں نے بعد میں نبی کریم ﷺ کی اپنی زبان مبارک سے اس کا قصہ سنا۔ ان تمام روایات میں اہم تر روایات تین بزرگوں کی ہیں۔ ایک حضرت ابو ذر غفاری ‘ دوسرے حضرت مالک بن صعصعہ اور تیسرے حضرت انس بن مالک ( رض) ۔ صحیحین اور بعض دیگر کتب کی روایات کو ملا کر معراج کے سوانح و مشاہدات کا جو ایک جامع اور نظر افروز سفر نامہ تیار ہوتا ہے ہم اسے اختصار سے لکھتے ہیں۔ مختلف احادیث میں اجمال و تفصیل کا فرق ہے۔ اور بعض روایات میں بعض واقعات کو ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے ہم تمام روایات کو جمع کر کے اس کی تفصیل آپ کے سامنے عرض کر رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ باون برس کی عمر تھی ‘ آپ حرم کعبہ کا وہ حصہ جو حطیم کہلاتا ہے اس میں آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے ‘ آپ بیداری اور خواب کی درمیانی حالت میں تھے۔ وہ آپ ﷺ کو اٹھا کر چاہ زمزم پر لے گئے اور وہاں آپ ﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب اطہر کو نکال کر زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت ایمان و حکمت سے معمور لایا گیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس طشت سے ایمان و حکمت کے خزانے کو لے کر آپ ﷺ کے سینہ میں رکھ کر اس کو برابر کردیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کی سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا جس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ سفید رنگ کا لمبا جانور جسے براق کہا جاتا تھا ‘ برق کی رفتار سے چلتا تھا اور اسی نسبت سے اس کا نام براق تھا۔ اس کا ہر قدم وہاں پڑتا جہاں نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔ آپ ﷺ سوار ہونے لگے تو وہ چمکا ‘ جبرائیل (علیہ السلام) نے تھپکی دے کر کہا ” دیکھ کیا کرتا ہے آج تک محمد ﷺ سے بڑی شخصیت کا کوئی انسان تجھ پر سوار نہیں ہوا۔ “ پھر آپ ﷺ اس پر سوار ہوگئے اور جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے ساتھ چلے۔ پہلی منزل مدینہ کی تھی ‘ جہاں اتر کر آپ ﷺ نے نماز پڑھی ‘ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا اس جگہ آپ ﷺ ہجرت کر کے آئیں گے۔ دوسری منزل طور سینا کی تھی جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوئے تھے۔ تیسری منزل بیت لحم کی تھی جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ چوتھی منزل پر بیت المقدس تھا جہاں براق کا سفر ختم ہوا۔ اس سفر کے دوران ایک جگہ کسی پکارنے والے نے اپنی طرف بلایا ‘ لیکن آپ ﷺ نے توجہ نہیں فرمائی۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ” یہ یہودیت کی طرف بلا رہا تھا۔ “ دوسری طرف سے پھر بلانے کی آواز آئی ‘ آپ ﷺ اس کی طرف بھی متوجہ نہ ہوئے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ” یہ عیسائیت کا داعی تھا۔ “ پھر ایک عورت نہایت بنی سنوری سامنے آئی اور اس نے آپ ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کیا ‘ آپ ﷺ نے اس سے بھی نظر پھیرلی۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا :” یہ دنیا تھی۔ “ پھر ایک بوڑھی عورت سامنے آئی ‘ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ” دنیا کی عمر کا اندازہ آپ ﷺ اس کی عمر سے کر لیجیے۔ “ پھر ایک اور شخص ملا جس نے آپ ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ‘ مگر آپ ﷺ اسے بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ” یہ شیطان تھا جو آپ ﷺ کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ “ بیت المقدس پہنچ کر آپ ﷺ براق سے اتر گئے۔ اور براق کو اس قلابہ میں باندھ کر جس میں انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے آپ ﷺ نے مسجد اقصیٰ کے اندر قدم رکھا۔ اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ یہاں سے نکلے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ ﷺ کے سامنے پیش کیے۔ آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ” آپ ﷺ نے فطرت کو پسند کیا۔ اگر آپ ﷺ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔ “ اس کے بعد حضرت جبرائیل آنحضرت ﷺ کو لے کر آسمان پر چڑھے۔ پہلا آسمان آیا تو دروازہ بند تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے دربان کو آواز دی۔ اس نے کہا ” کون ہے ؟ “ جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنا نام بتایا۔ تو اس نے پوچھا ” تمہارے ساتھ اور کون ہے ؟ “ جواب دیا ” محمد ﷺ ہیں۔ “ پھر دریافت کیا کہ ” وہ بلائے گئے ہیں ؟ “ کہا ” ہاں۔ “ یہ سن کر فرشتہ نے دروازہ کھول دیا اور ” مرحبا اور خوش آمدید “ کہتے ہوئے آپ ﷺ کا پر تپاک خیرمقدم کیا گیا۔ یہاں آپ ﷺ کا تعارف فرشتوں اور انسانی ارواح کی ان بڑی بڑی شخصیتوں سے ہوا جو اس مرحلہ میں مقیم تھیں۔ ان میں نمایاں شخصیت ایک ایسے بزرگ کی تھی جو انسانی بناوٹ کا مکمل نمونہ تھا۔ چہرے مہرے اور جسم کی ساخت میں کسی پہلو سے کوئی نقص نہ تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا ” یہ آدم (علیہ السلام) ہیں۔ “ ان کے دائیں اور بائیں بہت سی پرچھائیاں تھیں۔ جب وہ داہنی طرف دیکھتے تو ہنستے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو آبدیدہ ہوجاتے۔ حضور ﷺ نے پوچھا ” یہ کیا ماجرا ہے ؟ “ بتایا گیا کہ ” یہ پرچھائیاں نسل آدم ہیں۔ آدم اپنی اولاد کے نیک لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور برے لوگوں کو دیکھ کر روتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ کو تفصیلی مشاہدہ کا موقع دیا گیا۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں ‘ جتنی کاٹتے جاتے ہیں اتنی ہی وہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پوچھا ” یہ کون ہیں ؟ “ بتایا گیا ” یہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ “ اندازہ فرمایئے ابھی جہاد فرض نہیں ہوا ‘ جہاد مدنی زندگی میں فرض ہوا ہے ‘ لیکن مکی زندگی میں ہی بتادیا گیا کہ مسلمانوں کی ترقی اور ان کی بقا کا دارومدار ان کے جذبہ جہاد پر ہوگا۔ جب تک مسلمانوں میں جہاد کی روح باقی رہے گی ان کی عزت اور سرافرازی کے دن باقی رہیں گے۔ اور جب یہ دنیا کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کے راستے میں جان دینے سے پہلو تہی کرنے لگیں گے اور زندگی حیوانوں کی طرح اشیاء خوردو نوش اور تعیشات میں تلاش کریں گے اس وقت ان کی ذلت کے دن شروع ہوجائیں گے۔ مسلمانوں کی تاریخ قدم قدم پر اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہے کہ مسلمان موت سے کھیلتے رہے تو ہر لحاظ سے ترقی کرتے رہے اور جب موت سے ڈرنے لگے اور محض جینے کو زندگی سمجھنے لگے تو عزت نے ان سے منہ پھیرلیا۔ ؎ شہیدوں کے لہو سے جو زمین سیراب ہوتی ہے بڑی زرخیز ہوتی ہے بڑی شاداب ہوتی ہے آپ ﷺ آگے بڑھے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں ‘ جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے ہیں۔ پوچھا ” یہ کون ہیں ؟ “ کہا گیا ” یہ وہ لوگ ہیں ‘ جن کی سرگرانی انھیں نماز کے لیے اٹھنے نہ دیتی تھی۔ مسلمان کا سر جب تک اللہ کے سامنے جھکتا ہے تو سرافراز رہتا ہے اور جب وہ اللہ کے سامنے جھکنے سے پہلو تہی کرتا ہے تو پھر وہ سر دنیا کی ٹھوکروں میں آجاتا ہے۔ یہاں بھی کچلا جاتا ہے اور قیامت کے دن بھی کچلا جائے گا۔ کیونکہ ؎ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات پھر آپ ﷺ نے کچھ اور لوگ دیکھے جن کے کپڑوں میں آگے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چر رہے تھے۔ پوچھا گیا ” یہ کون لوگ ہیں ؟ “ کہا گیا یہ وہ ہیں ” جو اپنے مال میں سے زکوۃ نہ دیتے تھے اور غریبوں کے لیے خیرات نہ نکالتے تھے۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا نام ہے اور اللہ کے راستے میں ہاتھ روک کے رکھنا حیوانیت ہے اس حیوانیت کے حامل لوگوں کو قیامت کے دن حیوانوں کی طرح گھاس کھانے پر لگا دیا جائے گا۔ پھر ایک شخص کو دیکھا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ نہیں اٹھتاتو اس میں کچھ اور لکڑیاں بڑھا دیتا ہے۔ پوچھا ” یہ کون احمق ہے ؟ “ کہا گیا ” یہ وہ شخص ہے جس پر امانتوں اور ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ تھا کہ اٹھا نہ سکتا تھا ‘ مگر یہ ان کو کم کرنے کی بجائے اور زیادہ ذمہ داریوں کا بار اپنے اوپر لادے چلا جاتا تھا۔ آج اپنے گردوپیش میں دیکھیں ‘ بالخصوص اربابِ حل و عقد کے حالات کا مشاہدہ کریں تو آپ کو قدم قدم پر ایک سے ایک بڑا احمق نظر آئے گا۔ جس وزیر کے پاس ایک محکمہ ہے اور اس کا حق اس سے ادا نہیں ہوتا لیکن اس کی کوشش یہ ہے کہ مجھے ایک چھوڑ کئی محکمے مل جائیں تاکہ میں اس کی مدد سے زیادہ سے زیادہ حرام اکٹھا کرسکوں۔ اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ہر محکمے کی ایک ذمہ داری ہے اور اس میں نہ جانے کتنے ہزار لوگوں کے حقوق شامل ہیں۔ جن کی عدم ادائیگی پر قیامت کے دن سخت باز پرس ہوگی۔ لیکن وہ ایک لمحے کے لیے اس بات کو سوچنے کا روا دار نہیں۔ نوکر شاہی کو دیکھ لیجیے عام ملازمین کو دیکھ لیجیے تعلیمی اداروں کے محترم اساتذہ کو دیکھ لیجیے ‘ ہر شخص کئی کئی ٹوپیاں پہننے کی فکر میں ہے۔ اب ذمہ داری کوئی بوجھ نہیں رہی بلکہ ایک منفعت بخش کاروبار بن گیا ہے۔ اس تمثیل میں جس برائی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، اس میں اور ہماری حالت میں ایک فرق ضرور ہے کہ گٹھے میں نئی نئی لکڑیاں ٹھونسنے سے اٹھانے والے کی کمر ٹوٹتی ہے تو اسے اپنی غلطی کی سزا بھی ملتی جاتی ہے۔ لیکن نئے نئے عہدوں کی تلاش اور نئی نئی ذمہ داریوں کا شوق اس سے اٹھانے والے کی تو کمر نہیں ٹوٹتی ‘ البتہ جن کے حقوق ان ذمہ داریوں سے وابستہ ہیں ان کا سب کچھ ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن اٹھانے والے کو قیامت کے دن اندازہ ہوگا کہ میں کتنا بڑا جرم کرتا رہا ہوں۔ آپ ﷺ مزید آگے بڑھے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں جانے کی کوشش کرنے لگا ‘ مگر نہ جاسکا۔ پوچھا ” یہ کیا معاملہ ہے “ کہا گیا ” یہ اس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمہ داری کے ساتھ ایک فتنہ انگیز بات کرجاتا ہے ‘ پھر نادم ہو کر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کرسکتا۔ “ یہ رویہ ہر اس غیر ذمہ دار شخص کا ہوتا ہے جسے اس بات کا یقین نہیں کہ میری زبان سے جو نکلتا ہے وہ لکھ لیا جاتا ہے اور قیامت کے دن مجھے اس کا جواب دینا ہوگا۔ اور نہ اسے اس بات کا یقین ہے کہ میرے بات کہنے سے جسکی دل آزاری ہوئی ہے جب تک وہ مجھے معاف نہ کرے میں اس وقت تک اس گناہ کی گرفت میں رہوں گا۔ اور قیامت کے دن اس کی سزا بھگتوں گا۔ طرفہ تماشایہ ہے کہ ہماری نئی تہذیب نے تو ان چیزوں کو سیاست کا چلن بنادیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے ‘ وہاں نہایت فتنہ انگیز باتیں ہوتی ہیں اور صرف اتنی بات سے ختم ہوجاتی ہیں کہ ” انھیں ریکارڈ سے حذف کردیا جائے۔ “ یا ایک شخص دوسرے کی توہین کرتا ہے ‘ اس کی دل آزاری کا مرتکب ہوتا ہے اور اتنی بات کہہ کر فارغ ہوجاتا ہے کہ ” میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ “ حالانکہ کہے ہوئے الفاظ کبھی بھی واپس نہیں ہوتے جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی دل آزاری ہوئی ہے۔ کیونکہ ؎ حالِ دل جب کہہ چکے تو پھر پشیمانی ہوئی بات اپنے منہ سے نکلی اور بیگانی ہوئی پھر آپ ﷺ نے کچھ اور لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آگ کھا رہے تھے۔ پوچھا ” یہ کون ہیں ؟ “ کہا گیا ” یہ یتیموں کا مال ہضم کر جاتے تھے۔ “ پھر آپ ﷺ نے کچھ اور لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بےانتہا بڑے اور سانپوں سے بھرے ہوئے تھے۔ آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گزرتے تھے مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے۔ پوچھا ” یہ کون ہیں ؟ “ کہا گیا ” یہ سود خور ہیں۔ “ پھر کچھ اور لوگ نظر آئے جن کی ایک جانب نفیس چکنا گوشت رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا گوشت جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے۔ پوچھا ” یہ کون ہیں ؟ “ کہا گیا ” یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے حلال بیویوں اور شوہروں کے ہوتے ہوئے حرام سے اپنی خواہشِ نفس پوری کی۔ انہی مشاہدات کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی جو نہایت ترش روئی سے ملا۔ آپ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا ” اب تک جتنے فرشتے ملے تھے سب خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے ‘ ان حضرت کی خشک مزاجی کا سبب کیا ہے ؟ “ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ” اس کے پاس ہنسی کا کیا کام ؟ یہ تو دوزخ کا داروغہ ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے دوزخ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ یکایک آپ ﷺ کی نظر کے سامنے سے پردہ اٹھا دیا گیا اور دوزخ اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ نمودار ہوگئی۔ ان مشاہدات سے گزر کر پھر سفر شروع ہوا۔ آپ ﷺ دوسرے آسمان پر پہنچے۔ یہاں آپ کی ملاقات حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) سے ہوئی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” آپ میانہ قامت اور سرخ وسفید رنگ کے ہیں۔ سر کے بال سیدھے اور لمبے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ ابھی حمام سے نہا کر نکلے ہیں۔ حضرت عروہ ابن مسعودثقفی ( رض) سے ان کی صورت ملتی جلتی ہے۔ “ پھر آپ تیسرے آسمان پر پہنچے تو آپ ﷺ کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کرائی گئی جن کا حسن عام انسانوں کے مقابلہ میں ایسا تھا جیسا تاروں کے مقابلہ میں چودہویں کا چاند۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا ” یہ یوسف (علیہ السلام) ہیں۔ “ چوتھے آسمان پر پہنچے تو حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ پانچویں پر حضرت ہارون (علیہ السلام) سے اور چھٹے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا حلیہ بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا ” ان کا قد لمبا اور رنگ گندمی ہے اور آپ کے بال الجھے ہوئے ‘ گھونگھر والے ہیں۔ ازوشنوہ کے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ “ ساتویں آسمان پر پہنچے تو ایک عظیم الشان محل دیکھا جسے بیت المعمور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں بیشمار فرشتے آتے اور جاتے تھے۔ اس کے پاس آپ ﷺ کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جو خود آپ ﷺ سے بہت مشابہ تھا۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے۔ جس طرح دنیا میں انسانوں کا قبلہ بیت اللہ ہے ‘ بالکل اسی کی سیدھ پر بیت المعمور ہے جو فرشتوں کا قبلہ ہے۔ اگر بیت اللہ سے بیت المعمور کی طرف خط کھینچا جائے تو بالکل ایک دوسرے کے متوازی نظر آئیں گے۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فرشتوں کے جس گروہ کو وہاں ایک دفعہ حاضری کا موقع ملا دوبارہ اس گروہ کی باری نہیں آئی۔ اس کے بعد مزید ارتقاء شروع ہوا یہاں تک کہ آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ گئے۔ جو پیشگاہِ رب العزت اور عالم خلق کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کا لفظی معنی انتہاء کی بیری کا درخت ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اسے یہ نام کیوں دیا گیا ہے۔ اس درخت کی وسعت کا عالم یہ ہے کہ انسانی نگاہ اسے ناپ نہیں سکتی۔ اس درخت پر شان ربانی کا پرتو ہے۔ تجلیات کی اس پر بارش ہوتی ہے۔ جب شان ربانی اس پر چھا جاتی ہے تو اس کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ اس میں حسن کی وہ کیفیت پید اہوتی ہے جس کو کوئی زبان بیان نہیں کرسکتی اور اس میں رنگ برنگ کے ایسے انوار کی تجلی نظر آتی ہے جن کو الفاظ ادا نہیں کرسکتے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے چیزیں نیچے زمین پر اترتی ہیں اور زمین سے چڑھ کر اوپر وہاں جاتی ہیں۔ بعض بزرگوں نے اسے جنرل پوسٹ آفس سے تشبیہ دی ہے۔ یہاں پہنچ کر جبرائیل (علیہ السلام) اصلی کمالی صورت میں آپ ﷺ کے سامنے نمودار ہوئے۔ اسی مقام کے قریب آپ ﷺ کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا اور آپ ﷺ نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی ذہن میں اس کا تصور تک گزر سکا۔ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رک گئے اور عرض کی ” حضور اب آگے آپ تنہا جائیں۔ “ حضور نے حیرت سے فرمایا ” جبرائیل ! یہ کیا بےوفائی ہے۔ آپ ہمارا ساتھ کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟ “ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی اگر یک سرِ موئے برتر پرم فروغِ تجلی بسوزد پرم (ترجمہ) ” اگر میں اس مقام سے آگے ایک بال برابر بھی بڑھا تو اللہ کی تجلی سے میرے پر جل جائیں گے۔ “ چناچہ آپ ﷺ تنہا آگے بڑھے ‘ ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے ‘ بارگاہِ جلال سامنے تھی۔ پھر شاہد مستورِازل سے خلوت گاہ راز میں نازو نیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ادھر سے بندگی کا سرمایہ پیش کیا گیا اور ادھر سے اعزازو اکرام کی بارش ہوئی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اظہارِ عجز و نیاز کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ” التحیات للہ والصلوٰت والطیبات “ ( تمام قولی عبادتیں ‘ تمام فعلی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں) اس کا مطلب یہ ہے کہ ؎ مرے دیدہ تر کی بےخوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بیتابیاں مرے نالہ نیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز امنگیں مری آرزوئیں مری امیدیں مری جستجوئیں مری مرا دل مری رزم گاہ حیات گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر ادھر سے جواب آیا ” السلام علیک ایہا النبی “ (اے نبی ! دنیا و عقبیٰ کی سلامتی اور خیر و فلاح کی ہر نعمت تجھ پر قربان) فرشتوں کو یہ خبر پہنچی تو انھوں نے درخواست کی ” السلام علینا و علیٰ عبادہ اللہ الصالحین “ (ہم پر سلامتی ہو اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر) الٰہی ہمیں اور اپنے تمام نیک بندوں کو رحمت کی اس بارش سے محروم نہ رکھ اور ہم میں سے ہر ایک کو بقدر ہمت اور بقدر قسمت حصہ عطا فرما۔ اس راز و نیاز کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس شہادت کو دہرایا جس کے لیے آپ ﷺ کو دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ ” اشہد ان لا الٰہ الا اللہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ “ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں) اللہ کی الوہیت کی گواہی تو دنیا میں ہر رسول اور ہر پیغمبر نے دی اور ان کی گواہی زمین تک یا عالم مکان تک محدود رہی ‘ لیکن آنحضرت ﷺ کی گواہی عالم لا مکان میں گونجی۔ آپ ﷺ نے شہادت کا حق وہاں بھی ادا کیا جہاں ِ آپ کے سوا کوئی نہ پہنچ سکا اور اللہ نے اپنے نام کے ساتھ آپ کے رسول ہونے کی گواہی جس طرح دنیا میں آپ سے اور آپ کے ماننے والوں سے ادا کروائی کہ جہاں بھی اللہ کا نام گونجتا ہے وہاں اللہ کے رسول کا نام بھی گونجتا ہے۔ ؎ وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں میں فرشتوں کی دعائوں میں موذن کی اذانوں میں اسی طرح حریم قدس میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ ﷺ کے نام کی گواہی دی گئی ‘ یہ پہلا اور آخری موقع ہے کہ وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کا نام آیا۔ یہ تو وہ اعزاز ہے جس کا ذکر انسانوں تک پہنچا۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کو کیا کیا اعزازات دیے گئے یہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتا ہے۔ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کی امت پر فضل و کرم کی بارش اس کے علاوہ آپ ﷺ کو جو عطیات مرحمت فرمائے گئے ہیں جس میں آپ ﷺ کی امت بھی شریک ہے وہ چار ہیں۔ سورة بقرۃ کی آخری آیتیں عطا کی گئیں ‘ جن میں اسلام کے عقائد و ایمان کی تکمیل اور اس کے دور مصائب کے خاتمہ کی بشارت ہے۔ (2) رحمت خاص نے یہ مژدہ سنایا کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کی امت میں سے شرک سے بچا رہا، اللہ تعالیٰ اسے ضرور مغفرت سے نوازیں گے۔ (3) جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کے حق میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ مگر جب برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس کرم کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ نیکی پر اجر و جزا ملنا یہ نیکی کرنے والے کا استحقاق نہیں۔ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ عطا کرے یا نہ کرے۔ لیکن جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ ایک بہت بڑی جسارت کا ارتکاب کرتا ہے۔ جتنی بڑی بارگاہ میں جسارت کی جاتی ہے اتنی بڑی سزا ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت آنحضرت ﷺ کے طفیل اس قدر جوش میں ہے کہ نیکی کا ارادہ کرنے والے کو ایک نیکی عطا کردی جاتی ہے اور اس پر عمل کرنے والے کو ایک کے بدلے میں دس گنا دیا جاتا ہے۔ اور قرآن کریم کی شہادت کے مطابق یہ اجر وثواب سات سو گنا تک بھی جاسکتا ہے۔ لیکن برائی جس کا خمیازہ عقل کا تقاضا بھی ہے اور اس بارگاہ کی عظمت کا بھی ‘ لیکن پروردگار اس قدر رحمت کا سلوک فرما رہے ہیں کہ جو شخص برائی کا ارادہ کرتا ہے اس سے درگزر کیا جائے گا اور جو شخص برائی کر گزرتا ہے اسے صرف ایک برائی کی سزاملے گی۔ کس قدر بدنصیبی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو بخشش کا عظیم موقع اپنی امت کو لے کے دیا ہے اگر امت اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔ اگر ایک امتی برائیوں سے کم بھی نیکیاں کرے جب بھی دس گنا اجر وثواب کے حساب سے نیکیاں کہیں کی کہیں پہنچ جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن صرف وہ شخص پکڑا جائے گا جس نے شرک سے پرہیز نہیں کیا اور اگر اس نے کوئی نیکیاں کیں تو اخلاص اور صحیح طریقے سے نہیں کیں ورنہ اللہ کی رحمت سے امید کی جاسکتی ہے کہ گناہ گار بھی وہاں بخشے جائیں گے۔ سعدیؔ مرحوم نے ٹھیک کہا ؎ شنیدم کہ در روز امید و بیم بداں را بہ نیکاں بہ بخشد کریم (4) ہر روز 50 نمازیں فرض کی گئیں۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے ان عطیات کو لے کر جب واپس ہوئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دریافت کیا کہ ” بارگاہِ خاص سے کیا احکام عطا ہوئے ؟ “ فرمایا ” امت پر 50 وقت کی نمازیں فرض ہوئیں “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” میں بنی اسرائیل کا تلخ تجربہ رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ کی امت سے یہ بار اٹھ نہ سکے گا۔ آپ ﷺ واپس جایئے اور کمی کے لیے عرض کیجیے۔ “ آپ ﷺ واپس پلٹے اور عرض پرداز ہوئے ” الٰہی ! میری امت نہایت کمزور اور اس کے قویٰ نہایت ضعیف ہیں۔ “ حکم ہوا کہ ” دس وقت کی نمازیں معاف ہوئیں۔ “ لوٹے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر واپس جانے کو کہا۔ آپ ﷺ چند بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورے سے بارگاہِ الٰہی میں عرض پرداز ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ شب و روز میں صرف پانچ وقت کی نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر یہی مشورہ دیا کہ اب بھی مزید تخفیف کی درخواست کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اب مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے۔ “ ندا آئی ” اے محمد ﷺ ! میرے حکم میں تبدیلی نہیں ‘ نمازیں پانچ ہوں گی لیکن ہر نیکی کا بدلہ دس گنا بخشوں گا۔ یہ پانچ بھی پچاس ہوں گی۔ میں نے اپنے بندوں پر تخفیف کردی اور اپنا فیصلہ نافذ کردیا۔ واپسی کے سفر میں آپ اسی سیڑھی سے اتر کر جس سے آپ چڑھ کے گئے تھے زمین پر تشریف لائے۔ بیت المقدس میں داخل ہوئے دیکھا کہ یہاں انبیاء (علیہم السلام) جمع ہیں۔ اور حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہما لسلام نماز میں مصروف ہیں۔ آپ ﷺ نے تمام انبیائِ کرام (علیہم السلام) کو فجر کی نماز پڑھائی۔ پھر بیت المقدس سے آپ ﷺ تمام منازل طے کرنے کے بعد مکہ معظمہ پہنچے اور صبح کو مسجد حرام سے بیدار ہوئے۔ کفار کا ردعمل خانہ کعبہ کے آس پاس رئوسائے قریش کی نشست رہتی تھی۔ صبح کو آپ ﷺ نے ان کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ تو ان کو سخت اچنبھا ہوا۔ جو زیادہ کور باطن تھے انھوں نے آپ ﷺ کا مذاق اڑایا اور آپ کی تکذیب کی۔ بعض لوگوں نے مختلف سوالات کیے۔ ان میں سے اکثر شام کے تاجر تھے اور انھوں نے بیت المقدس کو بارہا دیکھا تھا اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ آنحضرت ﷺ نے اس سے پہلے بیت المقدس کو نہیں دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ابھی اندازہ کرلیتے ہیں کہ آپ واقعی بیت المقدس گئے ہیں یا نہیں گئے۔ انہوں نے کہا ” یہ بتایئے کہ بیت المقدس کی شکل و صورت کیا ہے ؟ “ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ” میرے ذہن میں عمارت کا صحیح نقشہ نہ تھا ‘ بہت بےقراری ہوئی ‘ لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ اچانک آپ کی نظروں کے سامنے پوری عمارت جلوہ گر کردی گئی۔ وہ سوال کرتے جاتے تھے اور میں اس کو دیکھ کر جواب دیتا تھا۔ “ بعض روایات میں آیا ہے کہ جب یہ خبر مکہ معظمہ میں پھیلی تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ حضرت ابوبکر کے پاس چلتے ہیں۔ وہ آپ ﷺ کے دست راست ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس خبر کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ وہ ایک عقلمند آدمی ہیں وہ ایسی خلاف عقل بات کو کیوں تسلیم کریں گے ؟ ہوسکتا ہے وہ ایمان سے پھرجائیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یوں سمجھئے کہ اس تحریک کی جان ہی نکل جائے گی۔ چناچہ وہ تلاش کرتے ہوئے ابوبکر کے پاس پہنچے۔ انھوں نے یہ قصہ سن کر کہا ” اگر واقعی محمد ﷺ نے یہ واقعہ بیان کیا ہے تو ضرور سچ ہوگا۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے ‘ میں تو روز سنتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے پیغام آتے ہیں اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ “ کہا جاتا ہے اسی تصدیق کی وجہ سے حضرت ابوبکر کا لقب صدیق ہوگیا۔ بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قریش کے بعض آنے والے قافلوں کی بھی خبر دی۔ ان کی بعض علامتوں کو ذکر کیا۔ اور ایک قافلے کے بارے میں فرمایا کہ فلاں وادی میں فلاں قبیلہ کا قافلہ مجھے ملا ‘ سب لوگ سو رہے تھے ‘ میں نے ان کے برتن سے پانی پیا اور اس بات کی علامت چھوڑ دی کہ اس سے پانی پیا گیا ہے۔ ایسی ہی کچھ اور علامتیں بھی آپ ﷺ نے ان کے سامنے بیان کیں اور وہ قافلے بھی آپ ﷺ کی خبر کے مطابق واپس پہنچ گئے۔ ان تمام علامتوں کو دیکھ کر اور بیت المقدس کے بارے میں آپ ﷺ کے ٹھیک ٹھیک جواب سن کر زبانیں تو بند ہوگئیں لیکن دل جو صرف ایمان کی قوت سے مطمئن ہوتے ہیں ‘ وہ مطمئن نہ ہو سکے۔ وہ یہی سوچتے رہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ جو شخص مخبر صادق کی بات نہ مانے تو اس کا آخری سہارا عقل سلیم ہوتی ہے اور جو اس سے بھی محروم ہوجائے اور محض اپنی وقت واہمہ کے سہارے یہی کہتا رہے کہ ” یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ “ تو اس کا جواب کسی دور میں بھی ممکن نہیں ہوسکا۔ اس دور کے وہمی بھی اپنے توہمات کی آگ میں جلتے رہے اور آج کا نام نہاد دانشور بھی اپنی عقل کے بند گنبد میں کڑھ رہا ہے۔ اس دل افروز اور سبق آموز سفرنامے کی ایک ایک تفصیل پڑھئے اور ساتھ ہی ذہن میں یہ بھی رکھئے کہ یہ سفر نامہ اس ذات عزیز کا ہے جس کی بات کو سننے کے اہل مکہ روادار نہ تھے۔ ان کی سنگدلی اور اذیت رسانی کے باعث آپ ﷺ نے طائف کا رخ کیا تو وہ بھی انہی کے بھائی بند تھے انھوں نے جو آپ ﷺ کے ساتھ سلوک کیا وہ آپ سن چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے جس بےبسی سے طائف سے نکلتے ہوئے اپنے رب کو پکارا اور سراپا عجز و نیاز اور صبر کی تصویر بن کر اپنے رب سے التجا کی کہ اگر آپ اسی پر خوش ہیں کہ دوسرے لوگ میرا مذاق اڑائیں اور میں ان میں ہلکا کیا جاؤں تو مجھے تو ہر صورت میں آپ کی رضا عزیز ہے۔ میں اس صورت حال پر بھی خوش ہوں ‘ لیکن میرے آقا تو ہی دیکھ یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ واپس آپ ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو جب تک مطعم بن عدی نے آپ ﷺ کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان نہیں کیا اس وقت تک آپ ﷺ سرزمین مکہ میں قدم نہیں رکھ سکے۔ یہ بےبسی اور بےکسی کا زمانہ ہے۔ اور اسی زمانے میں آپ ﷺ کو یہ سفر پیش آتا ہے۔ اس سفر میں جو سب سے پہلی بات محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو یہ دکھایا جا رہا ہے کہ اللہ کی یہ کائنات کتنی وسیع و عریض ہے اور اسکی قدرت کس قدر بےپناہ ہے۔ اہل مکہ نے اگر اپنے دل آپ ﷺ کے لیے بند کرلیے ہیں تو آپ کو کیا خبر کہ قدرت آپ کے لیے کیا کیا امکانات پیدا کر رہی ہے۔ جس ذات کے استقبال کے لیے فرشتے چشم براہ ہوں اور جس کی عظمت کے سامنے کائنات کی بساط سمٹ کے رہ جائے اور جو حریم قدس تک بار پانے کی عزت سے نوازا جائے ‘ جب کہ اس سے پہلے کوئی بھی اس عزت کا مستحق نہ ہوا۔ تو کیا اسے ہم ان ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ حق و باطل کی کشمکش کی یہ لازمی سنتیں ہیں ‘ جن سے آپ ﷺ کو گزارا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ کو پہنچنے والی ایک ایک تکلیف تاریخ کے ادوار کو روشن کرے گی اور اس راستے پر چلنے والے انہی باتوں سے حوصلہ پائیں گے اور دنیا پر یہ بات آشکارا ہوجائے گی کہ حق کس قدر عظمتوں کا حامل ہے کہ اس کے لیے اللہ کے اس آخری رسول نے تکلیفیں اٹھائی تھیں جس کے لیے پوری کائنات نے آنکھیں بچھائی تھیں۔ اور دوسری یہ بات کہ حق و باطل کی کشمکش کا یہ سفر ایسا مشکل اور جانگسل ہے جس پر چلنے کے لیے پہاڑوں سے بڑھ کر استقلال کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ استقلال و پامردی اور یہ جذبہ و حوصلہ اس بےپناہ یقین سے پھوٹتا ہے جس یقین کو دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف اور بڑے سے بڑا حادثہ کبھی شکست دینے پر قادر نہ ہو سکے۔ یہ یقین اور ایقان صرف اللہ کے نبیوں کو دیا جاتا ہے اور ان کے اندر یہ بےپناہ قوت پیدا کرنے کے لیے ملکوت السموات والارض کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی جاتی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ معمور کیے جاتے ہیں۔ اللہ کی جانب سے آنے والی ایک ایک حقیقت پر وہ نہ صرف ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ کسی حقیقت کی گواہی دینے کے لیے محض ظن و گمان یا علم کافی نہیں ہوسکتا ‘ بلکہ اس کے لیے وہ یقین و ایمان درکار ہوتا ہے جس میں اضمحلال کا شائبہ تک نہ ہو۔ اور یہ یقین صرف آنکھوں سے دیکھ کر حاصل ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ وسیع علم شریعت دے کر مبعوث کیے گئے تھے۔ آپ ﷺ پر زندگی کی وہ حقیقتیں بھی کھولی گئیں جن کا اظہار مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ہو رہا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ کی معراج باقی رسولانِ گرامی کی معراج سے زیادہ وسیع و ہمہ گیر رکھی گئی۔ مثال کے طور پر خلانوردی اور چاند و مریخ کے سفر کا تصور بھی گزشتہ زمانوں میں کبھی کسی کو نہیں ہوا۔ جو حقیقت بھی دنیا کے سامنے آئی اس کا تعلق زمینی حقیقتوں سے تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد آہستہ آہستہ علم اور سائنس اس کی طرف بڑھتے گئے اور آج یہ ایک جانی پہچانی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حضور ﷺ کی معراج نے اس کی طرف بھی اشارے کیے۔ ابھی خلانوردی کی باتیں شروع نہیں ہوئی تھیں کہ اقبال نے اس اشارے کو سمجھتے ہوئے کہا ؎ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں تیسری بات یہ کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد آنحضرت ﷺ کو ہجرت کا سفر پیش آنے والا تھا۔ دارالہجرت میں جا کر آپ کو اسلامی ریاست کن اصولوں پر اٹھانی ہے اور آپ ﷺ کا مینیفیسٹو کیا ہوگا ؟ اس کی ضرورت بھی آپ ﷺ کو پیش آنیو الی ہے۔ چناچہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ معراج کے اس سفر میں یا واپسی پر آپ ﷺ پر سورة بنی اسرائیل نازل ہوئی۔ اس میں وہ تمام بنیادی احکام دے دیے گئے جن پر آئندہ آپ ﷺ نے اسلامی معاشرت، اسلامی ریاست اور اسلامی اقدار کی عمارت تعمیر کرنی تھی۔
Top