Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اس کے گلے کے ساتھ باندھ دیا ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جس کو وہ بالکل کھلا ہوا پائے گا۔
وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰـہُ طَآئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط وَنُخْرِِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبـًا یَّلْقٰـہُ مَنْشُوْرًا۔ اِقْرَاْ کِتٰـبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 13۔ 14) (اور ہم نے ہر انسان کا نصیبہ اس کے گلے کے ساتھ باندھ دیا ہے اور ہم قیامت کے روز اس کے لیے ایک رجسٹر نکالیں گے جس کو وہ بالکل کھلا ہوا پائے گا۔ لو پڑھ لو اپنا اعمال نامہ، آج تم خود ہی اپنا حساب کرلینے کے لیے کافی ہو۔ ) انسانوں کی فلاح و خسران کا مدار حُسنِ کردار پر ہے عربی زبان میں طائر کا لفظ پرندہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن اہل عرب دوسری مشرک قوموں کی طرح چونکہ پرندوں سے فال بھی لیتے تھے، اس وجہ سے یہ لفظ رفتہ رفتہ قسمت، حظ اور نصیبہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ جیسا کہ عرض کیا کہ اہل عرب فالوں اور شگونوں کے بڑے معترف تھے۔ اسی میں وہ اپنی قسمت تلاش کرتے تھے۔ وہ کہیں جانے کا ارادہ کرتے یا کسی کام کرنے کا سوچتے تو اگر بلی راستہ کاٹ جاتی یا کوا آکر منڈیر پر بولنے لگتا یا صبح سویرے پرندوں کی آوازیں کانوں میں پڑنے لگتیں تو وہ اس سے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوجاتے اور عموماً اس کام سے رک جاتے جس کا وہ ارادہ کرچکے ہوتے۔ قرآن کریم کے نزول سے اللہ تعالیٰ نے جو انسانوں کو ہدایات عطا فرمائی ہیں ان میں بنیادی بات یہ ہے کہ انسانوں کی فلاح و خسران کا انحصار طوطے کّوے اور بلی چوہے پر نہیں بلکہ ان کے اپنے اعمال پر ہے۔ انسان کے زندگی کے وہ معاملات جن کا تعلق تکوین سے ہے ان کا سررشتہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ہاتھ میں ہے۔ رہے وہ معاملات جس سے انسان کی کامیابی یا ناکامی وجود میں آتی ہے اور جو انسان کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں ان کا تعلق انسانی کردار سے ہے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ آدمی غلط طریقوں سے اپنی قسمت معلوم کرتا پھرے اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ میرے اعمال کیسے ہیں، میرے ایمان کی کیفیت کیا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے میں میرے عزم و حوصلہ کا عالم کیا ہے، میں اسلام اور خلق خدا کی طرف سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو کس نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ یہی چیزیں ہیں جن سے نامہ اعمال تیار ہوتا ہے اور یہ نامہ اعمال ہے جو ہر وقت انسان کی گردن میں معلق رہتا ہے یعنی ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور یہی نامہ اعمال قیامت کے دن ہر شخص کے ہاتھوں میں اس طرح دیا جائے گا کہ اس کا ایک ایک ورق کھلا ہوگا جسے وہ بڑی آسانی سے پڑھ سکے گا۔ یہی اعمال ہیں جن سے انسان کی دنیا بنتی ہے۔ اسی سے انسان عزت کے راستے پر چلتا ہے اور اسی کے نتیجے میں ذلت مقدر ہوتی ہے۔ اپنی ہی بداعمالیاں ہیں جو بعض دفعہ مصیبتوں کا باعث بنتی ہیں اور جب آدمی اللہ تعالیٰ کے سامنے شکایت کرتا ہے تو ادھر سے آواز آتی ہے ؎ جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ دنیا میں بھی اسی نامہ اعمال کو دیکھنے کی ہدایت ہوتی ہے کہ تم اپنی بدحالی کی شکایت کرنے کی بجائے اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرو۔ اسی کے نتیجے میں تمہاری دنیا کے احوال بدلیں گے۔ کتنی احادیث ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ رزق میں تنگی، بارشوں کا وقت پر نہ اترنا، وبائوں کا پھوٹ پڑنا، حادثاتی موتوں کا بڑھ جانا، باہمی تعلقات کا بگڑ جانا، ملکی حالات کا غیرمستحکم ہوجانا، دشمن کا حملہ کردینا اور ظالم حکمرانوں کا مسلط ہوجانا وغیرہ یہ سب انسانوں کی بداعمالیوں کا پھل ہیں۔ لیکن جب آدمی اپنے اعمال کی اصلاح کرلیتا ہے اور اس کی زندگی اسلامی شریعت کے اتباع میں گزرتی ہے تو حضرت عمرفاروق ( رض) کی طرح بڑے ناز سے زمین پر پائوں مار کر کہہ سکتا ہے ( جب زمین میں زلزلہ آیا) ارے زمین تو کانپتی ہے، کیا میں نے تجھ پر عدل نہیں کیا ؟ اسی طرح قیامت کے دن بھی انسان جب اپنے انجام کی فکر میں ہوگا تو اس کا نامہ اعمال ہی اس کے ہاتھوں میں دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اسے پڑھ کے دیکھو۔ اسے پڑھنے کے بعد تم خود اپناحساب کرنے کے لیے کافی ہو۔ تم خود اندازہ کرسکتے ہو کہ تمہارا یہ نامہ اعمال تمہیں جنت کا راستہ دکھاتا ہے یا جہنم کا۔ غور فرمایئے، وہ معاشرہ جس میں صرف انتسابات کا سکہ چلتا تھا، حسب، نسب اور دولت رائج الوقت سکے تھے۔ اس میں قرآن کریم نے کیسا انقلاب آفریں اعلان فرمایا کہ آج کے بعد انتسابات نہیں چلیں گے، صرف کردار کا سکہ چلے گا، تقویٰ کی بات سنی جائے گی، محنت برگ و بار لائے گی، صاحب صلاحیت اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اپنے لیے راستہ بنائے گا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک ہندو شاعر بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوا ؎ جس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دُرِّ یتیم اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا
Top