Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى
: اور حکم فرمادیا
رَبُّكَ
: تیرا رب
اَلَّا تَعْبُدُوْٓا
: کہ نہ عبادت کرو
اِلَّآ اِيَّاهُ
: اس کے سوا
وَبِالْوَالِدَيْنِ
: اور ماں باپ سے
اِحْسَانًا
: حسن سلوک
اِمَّا يَبْلُغَنَّ
: اگر وہ پہنچ جائیں
عِنْدَكَ
: تیرے سامنے
الْكِبَرَ
: بڑھاپا
اَحَدُهُمَآ
: ان میں سے ایک
اَوْ
: یا
كِلٰهُمَا
: وہ دونوں
فَلَا تَقُلْ
: تو نہ کہہ
لَّهُمَآ
: انہیں
اُفٍّ
: اف
وَّلَا تَنْهَرْهُمَا
: اور نہ جھڑکو انہیں
وَقُلْ
: اور کہو
لَّهُمَا
: ان دونوں سے
قَوْلًا
: بات
كَرِيْمًا
: ادب کے ساتھ
( اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو، اگر وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ان میں سے ایک یا دونوں تو نہ ان کو اُف کہو اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے شریفانہ بات کہو۔
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْکِلٰـہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّـہُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّـھُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 23۔ 24) ( اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو، اگر وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ان میں سے ایک یا دونوں تو نہ ان کو اُف کہو اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے شریفانہ بات کہو۔ اور ان کے لیے رحم دلانہ اطاعت کے بازو جھکائے رکھو اور دعا کرتے رہے کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا۔ ) گزشتہ آیات میں چند تمہیدی نصیحتیں فرمائی گئی ہیں۔ اب یہاں سے ان بنیادی اصولوں کا ذکر شروع کیا گیا ہے جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونا ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کا وہ منشور ہے جس پر نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی عمارت اٹھائی جانی ہے۔ عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ عبادت اسلام کی ایک وسیع اصطلاح ہے۔ قرآن کریم نے عبادت ہی کو جنوں اور انسانوں کا مقصد تخلیق ٹھہرایا ہے۔ انبیائِ کرام جس دعوت کو لے کے آئے اس دعوت کا عنوان صرف عبادت رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے قیامت تک کے انسانوں کی ہدایت کے لیے جس بات کی طرف دعوت دی اور جس پر زندگی بھر زور دیا وہ یہی عبادت ہے۔ قرآن کریم کی سورة بقرہ میں جہاں قرآن کریم کی دعوت شروع ہوئی ہے اس کی پہلی آیت ہی یہ ہے ” یایھا الناس اعبدوا ربکم “ (اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا) یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ عبادت کے تصور میں صرف پرستش اور پوجا ہی شامل نہیں بلکہ اس میں غلامی اور بےچون و چرا اطاعت بھی شامل ہے۔ مقصود یہ ہے کہ پرستش بھی اللہ ہی کی کرو ‘ اسی کی بےچون و چرا اطاعت کرو ‘ اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ غلامی کے جتنے تصورات انسانوں نے اپنی فکر اور اپنی زبان سے رائج کیے اور اسے قانونی شکل دی اللہ کی اطاعت ان تمام تصورات پر محیط اور ان سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ جسے اگر سمیٹ کر کہا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر مسلمان اللہ کا غلام ہے۔ نہ اس کا جسم اپنا ہے نہ جان ‘ نہ اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں اپنی ہیں ‘ نہ وہ اپنی جسمانی قوتوں کا مالک ہے ‘ نہ اسے اولاد پر حق ملکیت حاصل ہے اور نہ وہ مال و دولت پر حق ملکیت جتانے کا مجاز ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی دین اور اس کا عطیہ ہے۔ وہی ان سب کا مالک ہے۔ مسلمانوں کے پاس یہ اس کی دی ہوئی امانت ہے۔ امانت میں ان حدود سے تجاوز کرنا جو امانت رکھنے والے نے عائد کردی ہیں اور یہ اپنی مرضی اس طرح استعمال کرنا جو امانت کو ملکیت بنا دے ‘ یہ امانت داری نہیں خیانت ہے۔ ہم اپنی ان چیزوں میں اپنی مرضی کرنے کے ہرگز مجاز نہیں۔ زندگی اس نے ہمیں گزارنے کے لیے دی ہے تو گزارنے کے طریقے بھی عطا فرمائے ہیں۔ اس میں اپنی مرضی سے لکیریں کھینچنا ‘ اپنی مرضی سے نقشے بنانا ‘ اپنی مرضی سے اس کی اصول و ضوابط اور آداب وضع کرنا یہ بندگی اور غلامی کے خلاف ہے۔ اور پھر اس زندگی کے لیے از خود نصب العین اور مقصد زندگی متعین کرنا سراسر حدود سے تجاوز ہے۔ اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے جو احکام دیے گئے ہیں انھیں کامل بندگی کے تصور کے ساتھ بجا لانے کی بجائے ان کے خلاف دل و دماغ کی قوتیں صرف کرنا اس کے خلاف اپنے اعضاء وجوارح کو حرکت میں لانا بلکہ کھلم کھلا اس کے احکام کے خلاف زندگی کے معاملات کا فیصلہ کرنا سراسر اس کی عبادت ‘ بندگی اور غلامی سے بغاوت ہے۔ اور پھر وہ تنگی اور ترشی ‘ عسر و یسر اور امن اور خوف جس حال میں رکھے اس کے خلاف حرف شکایت زبان پر لانا یا اس کے سوا کسی اور کے سامنے دست سوال دراز کرنا اور کسی اور سے امیدیں باندھنا ‘ محبت کسی اور سے کرنا ‘ نفرت کا حوالہ کسی اور کو بنانا ‘ دل کی دنیا کسی اور سے آباد کرنا ‘ زندگی کے الجھے ہوئے مسائل میں اس کی دی ہوئی ہدایت کے برعکس کوئی اور ہدایت قبول کرنا اس کے آئین و قانون کو چھوڑ کر ملک میں وضعی قوانین کو نافذ کرنا ‘ اسلامی تہذیب کے سوادوسری تہذیبوں کو رائج کرنا اور پسند کرنا یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس بندگی اور عبادت کے خلاف ہیں۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی کریم ﷺ نے اسی عبادت کے جامع تصور کو مسلمانوں کے دل و دماغ میں راسخ فرمایا اور اسی کو تہذیب ‘ تمدن ‘ اخلاق اور قانون کی بنیاد بنایا۔ اور اسی کو ریاست کا مقصد قرار دے کر ریاست کے تمام وسائل کو اس کی خدمت پر لگا دیا۔ انسانوں میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں آنے کا سبب والدین کے سوا اور کوئی نہیں۔ خالق تو اللہ کی ذات ہے ‘ لیکن بظاہر جسمانی ظہور ہر شخص کا والدین کی وساطت سے ہوا اور مزید یہ بات کہ اللہ تعالیٰ انسان کو نہایت بےبسی کی شکل میں دنیا میں بھیجتا ہے ‘ پیدا ہونے والا بچہ نہ سننے کی طاقت رکھتا ہے ‘ نہ دیکھنے کی ‘ نہ وہ پکڑ سکتا ہے ‘ نہ سمجھ سکتا ہے۔ گوشت کا ایک خوبصورت لوتھڑا ہے جو کبھی مسکراتا ہے کبھی روتا ہے۔ لیکن اپنے طور سے کسی بات پر قدرت نہیں رکھتا۔ والدین کا احسان یہ ہے کہ انھوں نے اس لوتھڑے کو پالا ‘ پروان چڑھایا ‘ تربیت کیا ‘ اس کی ہر ضرورت پوری کی ‘ انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ‘ ماں نے اپنا خون جگر اس کے گلے میں ٹپکایا ‘ باپ کے کندھوں نے اس کا بوجھ اٹھایا ‘ پھر دھیرے دھیرے اس عمر کو پہنچا جب وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل ہوسکا۔ اتنے بڑے احسان کا بدلہ بڑے سے بڑا ہونا چاہیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے عظیم بدلے کے طور پر ماں باپ کے حق کو سب سے مقدم رکھا۔ لیکن یہ حق انھیں نہیں دیا کہ وہ اللہ کی عبادت میں شریک کیے جائیں۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں۔ (1) حُسنِ سلوک۔ (2) اطاعت۔ (3) دعا۔ والدین کے تین حقوق میں سے پہلا حق حُسنِ سلوک ہے حُسنِ سلوک ادائے حق سے ایک بالا تر چیز ہے۔ اس لیے کہ اس کا حقیقی تعلق اولاد کی فرمانبرداری کے جذبے اور حسن ذوق سے ہے۔ جتنا کسی کا ذوق اس لحاظ سے پاکیزہ اور نازک ہوگا وہ اتنا ہی حسن سلوک میں آگے بڑھ جائے گا۔ لیکن اس آیت کریمہ میں اس حسن سلوک کی طرف رہنمائی بھی فرمائی گئی ہے۔ فرمایا گیا کہ اگر ماں باپ تمہاری زندگی میں بوڑھے ہوجائیں تو ان کے بارے میں تمہارا رویہ یہ ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بڑھاپے سے پہلے ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی ضرورت نہیں یا یہ ان کا حق نہیں۔ بڑھاپے کا ذکر تو صرف یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہی زمانہ ہے جس میں لوگوں کو ماں باپ بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں اور اسی میں وہ اولاد کی خدمت اور حسن سلوک کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ کیونکہ بڑھاپے میں انسان میں دو طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ بڑھاپے میں آنے والی تبدیلیاں 1 قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں۔ اپنی مرضی سے چلنا پھرنا تو درکنار بعض دفعہ حرکت کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں نوکروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دیا جائے ‘ یا ان کی طرف سے بےپرواہی نہ برتی جائے ‘ بلکہ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ امکانی حد تک خود ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا مداوا بننے کی کوشش کریں۔ 2 دوسری تبدیلی ذہن اور عقل کی تبدیلی ہے۔ بڑھاپے میں بعض دفعہ آدمی ٹھیک بات کہنے اور سمجھ کر گفتگو کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بات بہت حد تک صحیح ہے کہ بڑھاپے میں آدمی دوبارہ بچہ بن جاتا ہے۔ ان دونوں تبدیلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پروردگار نے فرمایا کہ دیکھنا ایسی صورت حال میں اپنے ماں باپ کو اف تک بھی نہ کہنا۔ یعنی اظہارِ بیزاری نہ کرنا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے منہ سے رال ٹپک رہی ہو ‘ ناک بہہ رہی ہو ‘ آنکھیں تلچھٹ سے بھری ہوں ‘ ممکن ہے وہ رفع حاجت بھی خود نہ کرسکیں۔ ایسی حالت میں خدمت سے تنگ آجانا ‘ انسانی فطرت سے بعید نہیں۔ دیکھنا ایسے وقت میں بیزاری کا اظہار نہ کرنا۔ اور اگر وہ عقل اور ذہن میں فتور کے باعث بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگیں ‘ بلا وجہ کسی بات پر ضد کریں یا بار بار کوئی بات پوچھیں تو دیکھنا ان کو جھڑکنا نہیں۔ ان سے ناراض نہیں ہونا۔ بلکہ جس طرح انھوں نے نہایت محبت اور پیارے تمہیں اس وقت پالا جب تم گوشت کے ایک لوتھڑے کی طرح تھے۔ ہر طرح کی عقل اور سمجھ سے خالی ‘ بستر پر گندگی ‘ نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا سلیقہ ‘ لیکن اس کے باوجود ماں باپ نے کیسی محبت سے تمہیں پالا ‘ تم بھی اسی محبت کے جذبے سے دیکھ بھال کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب بوڑھے ہوگئے۔ ایک دن گھر کے لان میں بیٹھے تھے کہ جوان بیٹا آگیا۔ جوان بیٹے کو پاس بٹھایا۔ دیوار پر کوا بیٹھا تھا، اس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا بیٹا یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا : ابا جان ! یہ کوا ہے۔ انھوں نے پھر پوچھا یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے پھر جواب دیا کہ یہ کوا ہے۔ جب انھوں تیسری دفعہ پوچھا تو بیٹے کے لہجے میں تیزی آنے لگی۔ حتیٰ کہ جب پانچویں دفعہ یہی سوال کیا تو بیٹے نے جھڑک کر کہا کہا ابا جان یہ کیا ایک ہی سوال آپ بار بار کیے جا رہے ہیں۔ میں کتنی دفعہ آپ کو جواب دے چکا ہوں۔ یہ صاحب اٹھے، اندر سے اپنی ڈائری اٹھا لائے۔ ڈائری کا ایک صفحہ کھول کر بیٹے کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا کہ ” میرا بیٹا چھوٹا سا تھا۔ اسی صحن میں بیٹے ہوئے اس نے مجھ سے دیوار پر بیٹھے کوے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے اس کو جواب دیا۔ لیکن وہ بار بار مجھ سے پوچھتا ابا جان یہ کیا ہے۔ میں جواب دیتا بیٹے یہ کوا ہے۔ اس نے پچیس دفعہ یہ سوال کیا اور پچیس دفعہ ہی میں نے جواب دیا اور اتنی دفعہ جواب دینے کے بعد مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرا بیٹا بار بار مجھ سے پوچھتا ہے۔ “ اندازہ کیجیے کہ باپ پچیس دفعہ جواب دیتا ہے تو اس کی محبت اور پیار میں کوئی کمی نہیں آتی۔ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ تم بھی اسی جذبہ سے اپنے ماں باپ کی خدمت کرنا اور ہر طرح کی بات برداشت کرنا۔ والدین کا دوسرا حق اطاعت ہے دوسرا حق جو اس میں بیان کیا گیا ہے وہ ہے ہرحال میں اپنے ماں باپ کی اطاعت کرنا اور ہر جائز حکم کو بجا لانا۔ ان کی مالی ضروریات کو پورا کرنا اور ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اور پھر اس میں یہاں تک و سعت کی گئی کہ تمہارے والدین اگر غیر مسلم بھی ہوں وہ تمہیں کوئی اسلام کے خلاف بات کہیں تو اسے ہرگز نہ ماننا، لیکن ویسے ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا۔ ارشاد خداوندی ہے : وَ اِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلَا تُطِعْہُمَا وَ صَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۔ (لقمان : 15) (اور اگر تیرے والدین تجھے مجبور کریں اس بات پر کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کر، جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کرنا، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ ) رضاعی والدین بھی حُسنِ سلوک کے مستحق ہیں پھر والدین کے اس رشتے کو اسلام نے رضاعی والدین تک وسعت دے دی ہے۔ یعنی جس خاتون کا دودھ پیا ہے وہ دودھ پینے والے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جاتا ہے۔ اور ساتھ دودھ پینے والا دوسرا بچہ رضاعی بھائی کہلاتا ہے۔ جس طرح حضرت حلیمہ سعدیہ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی والدہ تھیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺ کی رضاعی والدہ یعنی حلیمہ سعدیہ تشریف لے آئیں۔ آپ ﷺ نے اپنی چادربچھا دی کہ اس پر تشریف رکھیں۔ پھر آپ ﷺ کے رضاعی والد آئے تو آپ ﷺ نے چادر کا دوسرا حصہ ان کے لیے بچھا دیا۔ اتنے میں آپ ﷺ کے رضاعی بھائی بھی پہنچ گئے تو آپ ﷺ نے ان کو ماں باپ کے درمیان بٹھایا۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں ماں باپ کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اطاعت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ نافرمانی سے بھی منع فرمایا بلکہ نافرمانی سے روکنے کو قانونی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّہَاتِ (اللہ نے تم پر مائوں کی نافرمانی کو حرام کردیا ہے) ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا حَقُّ الْوَالِدَیْنِ عَلٰی وَلَدِہِمَا قَالَ ہُمَا جَنَّـتُکَ وَ نَارُکَ (کہ اے اللہ کے رسول ﷺ والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے ؟ فرمایا وہ دونوں تمہاری جنت ہیں اور اور تمہاری جہنم ہیں) یعنی اطاعت کرو گے تو جنت کے مستحق ٹھہرو گے اور نافرمانی کرو گے تو اس کی وجہ سے جہنم میں جانا ہوگا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ ، قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ رَغِمَ اَنْفُہٗ رَغِمَ اَنْفُہٗ رَغِمَ اَنْفُہٗ قِیْلَ مَنْ ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَنْ اَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِاَحَدَہُمَا اَوْ کِلَا ہُمَا لِمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ (حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل ہو۔ پوچھا گیا کہ کون اے اللہ کے رسول ﷺ ؟ فرمایا جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا۔ ان میں سے ایک کو یا دونوں کو اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے باپ کی رضامندی کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی ٹھہرایا اور باپ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قرار دیا : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ رِضٰی الرَّبِّ فِیْ رِضٰی الوَالِدِ وَ سُخْطَ الرَّبِّ فِیْ سُخْطَ الْوَالِدِ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے) اور پھر والد کی نافرمانی کو نہ صرف اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ والد کی نافرمانی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا میں ہی اس کی سزا نہ دے دی جائے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : کل الذنوب یغفر اللّٰہ تعالیٰ منہا ماشاء الا عقوق الوالدین فانہ یجعل لصاحبہ فی الحیاۃ قبل الممات (اللہ تعالیٰ تمام گناہوں میں سے جس کو چاہے گا معاف فرمائے گا مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ وہ نافرمان کو موت سے پہلے زندگی میں ہی سزا دے ڈالے۔ ) ماں چونکہ اولاد کی پیدائش میں اور بچپن میں ان کی تربیت میں زیادہ دکھ اٹھاتی ہے اور باوجود اس کے کہ اس کا تعلق صنف نازک سے ہے، لیکن وہ کس قدر حوصلہ مندی کے ساتھ اپنی اولاد کی ہر غلط بات اور بڑی سے بڑی خدمت کے بوجھ کو برداشت کرتی ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ماں کی خدمت اور حسن سلوک کا حق باپ کی نسبت سے تین گنا تم پر زیادہ ہے : قَالَ رَجَلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ اَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ قَالَ اُمُّکَ ثُمَّ اُمُّکَ ثُمَّ اُمُّکَ ثُمَّ اَبَاکَ ثُمَّ اَدْنَاکَ ثُمَّ اَدْنَاکَ (ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے بہتر حق کا اور بہتر مصاحبت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ کہا تمہاری ماں۔ پوچھا پھر کون ؟ کہا تمہارا باپ اور پھر تمہارے اور درجہ بدرجہ قریبی رشتے دار۔ ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ماں کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کو باپ کی نسبت تین گنا زیادہ اہمیت دی۔ عہدِ نبوت کی ایک معروف شخصیت حضرت اویس قرنی ہیں، جو یمن کے علاقے قرن کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے علاقے میں کسی صحابی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ اور پھر انھوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ” حضور میری والدہ بوڑھی ہیں، کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ ارشاد فرمایئے میرے لیے کیا حکم ہے ؟ “ آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ” تم اپنی ماں کی خدمت کرتے رہو۔ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔ “ ذرا غور کیجیے کہ ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے بہرہ ور ہونے والے کو صحابی کہتے ہیں اور یہ شرف صحابیت جو محض آنحضرت ﷺ کی زیارت سے ملتا ہے، اس سے بڑھ کر کوئی شرف دنیا میں نہیں۔ ایک آدمی ساری عمر بھی اللہ کی عبادت کرتا رہے تو وہ ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ حضرت اویس قرنی t تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک جو بڑے جلیل القدر محدث ہیں، ان سے کسی نے پوچھا ” امیر معاویہ ؟ افضل ہیں یا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؟ “ تو حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ” بھائی ! تم نے ان دونوں میں عجیب تقابل کیا ہے۔ ان دونوں کا آپس میں تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کیونکہ حضرت امیر معاویہ صحابی ہیں وہ جب آنحضرت ﷺ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے تھے تو جو مٹی اڑ کر ان کی ناک میں جاتی تھی جو مقام و مرتبہ اس مٹی کا ہے وہ بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بعد میں آنے والا بڑے سے بڑا شخص بھی شرف صحابیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ اندازہ فرمائیں کہ اتنا بڑا شرف حضرت اویس قرنی نے ماں کی خدمت کی وجہ سے قربان کردیا۔ کیونکہ ان کی والدہ زندہ رہیں اور وہ ان کی خدمت میں لگے رہے۔ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں باوجود اس کے کہ آپ ہمیشہ اس کے لیے تڑپتے تھے حاضر نہ ہو سکے۔ حتیٰ کہ حضور ﷺ نے انتقال فرمایا۔ لیکن ماں کی خدمت کی اطاعت کا جو ان کو صلہ ملا اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر فاروق ( رض) سے فرمایا ” عمر ! میرے بعد ایک شخص اس حلیے کا جس کا نام اویس ہوگا، یمن سے آئے گا۔ تم اس کو تلاش کرنا۔ اگر وہ تمہیں مل جائے تو اس سے اپنے لیے دعا کرانا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مستجاب الدعوات بنایا ہے۔ “ یعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ آپ ( رض) کو یہ شرف صرف اس وجہ سے ملا کہ آپ ( رض) نے ماں کی خدمت کی۔ چناچہ حضرت عمر فاروق ( رض) نے یہ تلاش جاری رکھی کہ جو بھی قافلہ یمن سے آتا آپ ( رض) اس میں معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ اس نام اور حلیے کا آدمی اس میں موجود ہے یا نہیں ؟ چناچہ آپ ( رض) کو ایک دفعہ یہ خبر ملی کہ کوئی قافلہ یمن سے آیا ہے اور اس میں اس نام کے صاحب موجود ہیں تو آپ ( رض) فوراً ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ حضرت آپ مجھ سے دعا کراتے ہیں حالانکہ آپ کا مقام و مرتبہ تو معروف و معلوم ہے تو پھر آپ نے آنحضرت ﷺ کے حوالے سے یہ سارا واقعہ بیان کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں ایک ماں کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ جہاد جو اسلام میں سب سے بڑی عبادت ہے، والدین اگر بوڑھے ہیں اور کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں یا صرف اکیلی ماں ہے اور ان کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی خدمت کو جہاد پر اہمیت دی ہے۔ آپ درج ذیل دو احادیث کو ملاحظہ فرمائیں : جَآئَ رَجُلٌ اِلٰی النَّبِیِّ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ اُجَاہِدُ قَالَ اَلَکَ اَبَوَانِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِیْہِمَا فَجَاہِدْ (ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا کیا تمہارے ماں باپ ہیں ؟ اس نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا واپس جاؤ ان دونوں کے حوالے سے جہاد کرو یعنی ان دونوں کی خدمت کرو۔ ) ان جاہمۃ جاء الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ اردت ان اغزو و قد جئت استشبرک فقال ہل لک من ام قال نعم قال فالزمہا فان الجنۃ عند رجلہا (کہ جاہمہ نامہ کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ سے مشورہ کروں۔ فرمایا کیا تمہاری والدہ ہیں ؟ کیا ہاں۔ فرمایا جاؤ جا کر ہر وقت ان کی خدمت کرو۔ اس لیے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ ) ان دونوں احادیث میں والدین کو یا والدہ کی خدمت کو جہاد سے افضل قرار دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان کے والدین یا ان کی والدہ کی نگہداشت کرنے والا اور کوئی نہیں۔ اس لیے آپ نے ان کو والدین کی خدمت یا ماں کی خدمت کو جہاد پر ترجیح دینے کا حکم دیا۔ ماں باپ کی خدمت اور جہاد بات یہ ہے کہ اگر جہاد فرض نہ ہوا ہو بلکہ جہاد میں شرکت صرف ثواب کی نیت سے کرنا ہو تو پھر ایسے جہاد کے لیے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے۔ لیکن اگر جہاد فرض ہوجائے جیسے جنگ تبوک میں آنحضرت ﷺ نے ہر صحابی کو نکلنے کا حکم دے دیا تھا، ایسے جہاد کو فرض عین کہتے ہیں تو پھر سب کا جہاد پر نکلنا فرض ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ ماں باپ کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہ سکتے ہوں اور اندیشہ ہو کہ بیٹے کے چلے جانے کی صورت میں ان کی موت واقع ہوجائے گی تو ایسی صورت حال میں ماں باپ کی دیکھ بھال جہاد سے زیادہ درجہ حاصل کر جاتی ہے۔ والدین کی اطاعت قانوناً بھی ضروری ہے اور اخلاقاً بھی ماں باپ کی اطاعت کا ذکر ہورہا ہے تو اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اطاعت ایک تو خدمت کو کہتے ہیں۔ یعنی ماں باپ کی دیکھ بھال، نگہداشت، ان کی ہر طرح کی مدد اور تعاون، لیکن اطاعت کی دوسری صورت ان کے اخراجات کو برداشت کرنا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ کو صرف مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والے دوسرے بھی ہوتے ہیں تو اطاعت جس کو ہم نفقہ کہتے ہیں اولاد پر قانونی طور پر بھی ضروری ہے اور اخلاقی طور پر بھی۔ قانونی طور پر ضروری ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی اولاد والدین کی جائز ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے اس اولاد کو مجبور کرے اور اخلاقی طور پر ضروری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا جرم ہے جو مسلمان معاشرے میں قابل نفرت ہونا چاہیے۔ آخرت میں اللہ کے یہاں اس کی شدید باز پرس ہوگی۔ قرآن حکیم نے اولاد کو ماں باپ پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی اس کی تاکید فرمائی ہے اور دور خلافتِ راشدہ میں خلفائے راشدین نے اس کے بارے میں فیصلہ بھی فرمایا۔ آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد ہے : عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصٍ اَنَّ اَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَّ لِیْ مَالًا وَ وَلَدَانِ وَ اَنَّ اَبِیْ یُحْتَاجُ اِلٰی مَالِیْ فَقَاَل اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبِیْکَ (حضرت عمرو بن العاص ( رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میرے پاس مال اور دو بیٹے بھی ہیں اور میرے والدین میرے مال کے محتاج ہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کا ہے) اسی طرح حضرت عمر فاروق ( رض) کے زمانے میں حضرت عمر فاروق ( رض) کی خدمت میں ایک ایسے شخص کی شکایت کی گئی جو اپنے والدین کے اخراجات کے تحمل میں کوتاہی کا ارتکاب کر رہا تھا تو حضرت عمر ( رض) نے اسے حکم دیتے ہوئے یہی جملہ دہرایا یعنی ” اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ “ (تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کی ملکیت ہے)
Top