Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
( اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو، اگر وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ان میں سے ایک یا دونوں تو نہ ان کو اُف کہو اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے شریفانہ بات کہو۔
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْکِلٰـہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّـہُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّـھُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 23۔ 24) ( اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو، اگر وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ان میں سے ایک یا دونوں تو نہ ان کو اُف کہو اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے شریفانہ بات کہو۔ اور ان کے لیے رحم دلانہ اطاعت کے بازو جھکائے رکھو اور دعا کرتے رہے کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا۔ ) گزشتہ آیات میں چند تمہیدی نصیحتیں فرمائی گئی ہیں۔ اب یہاں سے ان بنیادی اصولوں کا ذکر شروع کیا گیا ہے جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونا ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کا وہ منشور ہے جس پر نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی عمارت اٹھائی جانی ہے۔ عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ عبادت اسلام کی ایک وسیع اصطلاح ہے۔ قرآن کریم نے عبادت ہی کو جنوں اور انسانوں کا مقصد تخلیق ٹھہرایا ہے۔ انبیائِ کرام جس دعوت کو لے کے آئے اس دعوت کا عنوان صرف عبادت رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے قیامت تک کے انسانوں کی ہدایت کے لیے جس بات کی طرف دعوت دی اور جس پر زندگی بھر زور دیا وہ یہی عبادت ہے۔ قرآن کریم کی سورة بقرہ میں جہاں قرآن کریم کی دعوت شروع ہوئی ہے اس کی پہلی آیت ہی یہ ہے ” یایھا الناس اعبدوا ربکم “ (اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا) یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ عبادت کے تصور میں صرف پرستش اور پوجا ہی شامل نہیں بلکہ اس میں غلامی اور بےچون و چرا اطاعت بھی شامل ہے۔ مقصود یہ ہے کہ پرستش بھی اللہ ہی کی کرو ‘ اسی کی بےچون و چرا اطاعت کرو ‘ اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ غلامی کے جتنے تصورات انسانوں نے اپنی فکر اور اپنی زبان سے رائج کیے اور اسے قانونی شکل دی اللہ کی اطاعت ان تمام تصورات پر محیط اور ان سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ جسے اگر سمیٹ کر کہا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر مسلمان اللہ کا غلام ہے۔ نہ اس کا جسم اپنا ہے نہ جان ‘ نہ اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں اپنی ہیں ‘ نہ وہ اپنی جسمانی قوتوں کا مالک ہے ‘ نہ اسے اولاد پر حق ملکیت حاصل ہے اور نہ وہ مال و دولت پر حق ملکیت جتانے کا مجاز ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی دین اور اس کا عطیہ ہے۔ وہی ان سب کا مالک ہے۔ مسلمانوں کے پاس یہ اس کی دی ہوئی امانت ہے۔ امانت میں ان حدود سے تجاوز کرنا جو امانت رکھنے والے نے عائد کردی ہیں اور یہ اپنی مرضی اس طرح استعمال کرنا جو امانت کو ملکیت بنا دے ‘ یہ امانت داری نہیں خیانت ہے۔ ہم اپنی ان چیزوں میں اپنی مرضی کرنے کے ہرگز مجاز نہیں۔ زندگی اس نے ہمیں گزارنے کے لیے دی ہے تو گزارنے کے طریقے بھی عطا فرمائے ہیں۔ اس میں اپنی مرضی سے لکیریں کھینچنا ‘ اپنی مرضی سے نقشے بنانا ‘ اپنی مرضی سے اس کی اصول و ضوابط اور آداب وضع کرنا یہ بندگی اور غلامی کے خلاف ہے۔ اور پھر اس زندگی کے لیے از خود نصب العین اور مقصد زندگی متعین کرنا سراسر حدود سے تجاوز ہے۔ اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے جو احکام دیے گئے ہیں انھیں کامل بندگی کے تصور کے ساتھ بجا لانے کی بجائے ان کے خلاف دل و دماغ کی قوتیں صرف کرنا اس کے خلاف اپنے اعضاء وجوارح کو حرکت میں لانا بلکہ کھلم کھلا اس کے احکام کے خلاف زندگی کے معاملات کا فیصلہ کرنا سراسر اس کی عبادت ‘ بندگی اور غلامی سے بغاوت ہے۔ اور پھر وہ تنگی اور ترشی ‘ عسر و یسر اور امن اور خوف جس حال میں رکھے اس کے خلاف حرف شکایت زبان پر لانا یا اس کے سوا کسی اور کے سامنے دست سوال دراز کرنا اور کسی اور سے امیدیں باندھنا ‘ محبت کسی اور سے کرنا ‘ نفرت کا حوالہ کسی اور کو بنانا ‘ دل کی دنیا کسی اور سے آباد کرنا ‘ زندگی کے الجھے ہوئے مسائل میں اس کی دی ہوئی ہدایت کے برعکس کوئی اور ہدایت قبول کرنا اس کے آئین و قانون کو چھوڑ کر ملک میں وضعی قوانین کو نافذ کرنا ‘ اسلامی تہذیب کے سوادوسری تہذیبوں کو رائج کرنا اور پسند کرنا یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس بندگی اور عبادت کے خلاف ہیں۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی کریم ﷺ نے اسی عبادت کے جامع تصور کو مسلمانوں کے دل و دماغ میں راسخ فرمایا اور اسی کو تہذیب ‘ تمدن ‘ اخلاق اور قانون کی بنیاد بنایا۔ اور اسی کو ریاست کا مقصد قرار دے کر ریاست کے تمام وسائل کو اس کی خدمت پر لگا دیا۔ انسانوں میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں آنے کا سبب والدین کے سوا اور کوئی نہیں۔ خالق تو اللہ کی ذات ہے ‘ لیکن بظاہر جسمانی ظہور ہر شخص کا والدین کی وساطت سے ہوا اور مزید یہ بات کہ اللہ تعالیٰ انسان کو نہایت بےبسی کی شکل میں دنیا میں بھیجتا ہے ‘ پیدا ہونے والا بچہ نہ سننے کی طاقت رکھتا ہے ‘ نہ دیکھنے کی ‘ نہ وہ پکڑ سکتا ہے ‘ نہ سمجھ سکتا ہے۔ گوشت کا ایک خوبصورت لوتھڑا ہے جو کبھی مسکراتا ہے کبھی روتا ہے۔ لیکن اپنے طور سے کسی بات پر قدرت نہیں رکھتا۔ والدین کا احسان یہ ہے کہ انھوں نے اس لوتھڑے کو پالا ‘ پروان چڑھایا ‘ تربیت کیا ‘ اس کی ہر ضرورت پوری کی ‘ انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ‘ ماں نے اپنا خون جگر اس کے گلے میں ٹپکایا ‘ باپ کے کندھوں نے اس کا بوجھ اٹھایا ‘ پھر دھیرے دھیرے اس عمر کو پہنچا جب وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل ہوسکا۔ اتنے بڑے احسان کا بدلہ بڑے سے بڑا ہونا چاہیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے عظیم بدلے کے طور پر ماں باپ کے حق کو سب سے مقدم رکھا۔ لیکن یہ حق انھیں نہیں دیا کہ وہ اللہ کی عبادت میں شریک کیے جائیں۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں۔ (1) حُسنِ سلوک۔ (2) اطاعت۔ (3) دعا۔ والدین کے تین حقوق میں سے پہلا حق حُسنِ سلوک ہے حُسنِ سلوک ادائے حق سے ایک بالا تر چیز ہے۔ اس لیے کہ اس کا حقیقی تعلق اولاد کی فرمانبرداری کے جذبے اور حسن ذوق سے ہے۔ جتنا کسی کا ذوق اس لحاظ سے پاکیزہ اور نازک ہوگا وہ اتنا ہی حسن سلوک میں آگے بڑھ جائے گا۔ لیکن اس آیت کریمہ میں اس حسن سلوک کی طرف رہنمائی بھی فرمائی گئی ہے۔ فرمایا گیا کہ اگر ماں باپ تمہاری زندگی میں بوڑھے ہوجائیں تو ان کے بارے میں تمہارا رویہ یہ ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بڑھاپے سے پہلے ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی ضرورت نہیں یا یہ ان کا حق نہیں۔ بڑھاپے کا ذکر تو صرف یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہی زمانہ ہے جس میں لوگوں کو ماں باپ بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں اور اسی میں وہ اولاد کی خدمت اور حسن سلوک کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ کیونکہ بڑھاپے میں انسان میں دو طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ بڑھاپے میں آنے والی تبدیلیاں 1 قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں۔ اپنی مرضی سے چلنا پھرنا تو درکنار بعض دفعہ حرکت کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں نوکروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دیا جائے ‘ یا ان کی طرف سے بےپرواہی نہ برتی جائے ‘ بلکہ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ امکانی حد تک خود ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا مداوا بننے کی کوشش کریں۔ 2 دوسری تبدیلی ذہن اور عقل کی تبدیلی ہے۔ بڑھاپے میں بعض دفعہ آدمی ٹھیک بات کہنے اور سمجھ کر گفتگو کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بات بہت حد تک صحیح ہے کہ بڑھاپے میں آدمی دوبارہ بچہ بن جاتا ہے۔ ان دونوں تبدیلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پروردگار نے فرمایا کہ دیکھنا ایسی صورت حال میں اپنے ماں باپ کو اف تک بھی نہ کہنا۔ یعنی اظہارِ بیزاری نہ کرنا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے منہ سے رال ٹپک رہی ہو ‘ ناک بہہ رہی ہو ‘ آنکھیں تلچھٹ سے بھری ہوں ‘ ممکن ہے وہ رفع حاجت بھی خود نہ کرسکیں۔ ایسی حالت میں خدمت سے تنگ آجانا ‘ انسانی فطرت سے بعید نہیں۔ دیکھنا ایسے وقت میں بیزاری کا اظہار نہ کرنا۔ اور اگر وہ عقل اور ذہن میں فتور کے باعث بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگیں ‘ بلا وجہ کسی بات پر ضد کریں یا بار بار کوئی بات پوچھیں تو دیکھنا ان کو جھڑکنا نہیں۔ ان سے ناراض نہیں ہونا۔ بلکہ جس طرح انھوں نے نہایت محبت اور پیارے تمہیں اس وقت پالا جب تم گوشت کے ایک لوتھڑے کی طرح تھے۔ ہر طرح کی عقل اور سمجھ سے خالی ‘ بستر پر گندگی ‘ نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا سلیقہ ‘ لیکن اس کے باوجود ماں باپ نے کیسی محبت سے تمہیں پالا ‘ تم بھی اسی محبت کے جذبے سے دیکھ بھال کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب بوڑھے ہوگئے۔ ایک دن گھر کے لان میں بیٹھے تھے کہ جوان بیٹا آگیا۔ جوان بیٹے کو پاس بٹھایا۔ دیوار پر کوا بیٹھا تھا، اس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا بیٹا یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا : ابا جان ! یہ کوا ہے۔ انھوں نے پھر پوچھا یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے پھر جواب دیا کہ یہ کوا ہے۔ جب انھوں تیسری دفعہ پوچھا تو بیٹے کے لہجے میں تیزی آنے لگی۔ حتیٰ کہ جب پانچویں دفعہ یہی سوال کیا تو بیٹے نے جھڑک کر کہا کہا ابا جان یہ کیا ایک ہی سوال آپ بار بار کیے جا رہے ہیں۔ میں کتنی دفعہ آپ کو جواب دے چکا ہوں۔ یہ صاحب اٹھے، اندر سے اپنی ڈائری اٹھا لائے۔ ڈائری کا ایک صفحہ کھول کر بیٹے کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا کہ ” میرا بیٹا چھوٹا سا تھا۔ اسی صحن میں بیٹے ہوئے اس نے مجھ سے دیوار پر بیٹھے کوے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے اس کو جواب دیا۔ لیکن وہ بار بار مجھ سے پوچھتا ابا جان یہ کیا ہے۔ میں جواب دیتا بیٹے یہ کوا ہے۔ اس نے پچیس دفعہ یہ سوال کیا اور پچیس دفعہ ہی میں نے جواب دیا اور اتنی دفعہ جواب دینے کے بعد مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرا بیٹا بار بار مجھ سے پوچھتا ہے۔ “ اندازہ کیجیے کہ باپ پچیس دفعہ جواب دیتا ہے تو اس کی محبت اور پیار میں کوئی کمی نہیں آتی۔ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ تم بھی اسی جذبہ سے اپنے ماں باپ کی خدمت کرنا اور ہر طرح کی بات برداشت کرنا۔ والدین کا دوسرا حق اطاعت ہے دوسرا حق جو اس میں بیان کیا گیا ہے وہ ہے ہرحال میں اپنے ماں باپ کی اطاعت کرنا اور ہر جائز حکم کو بجا لانا۔ ان کی مالی ضروریات کو پورا کرنا اور ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اور پھر اس میں یہاں تک و سعت کی گئی کہ تمہارے والدین اگر غیر مسلم بھی ہوں وہ تمہیں کوئی اسلام کے خلاف بات کہیں تو اسے ہرگز نہ ماننا، لیکن ویسے ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا۔ ارشاد خداوندی ہے : وَ اِنْ جَاہَدَاکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلَا تُطِعْہُمَا وَ صَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا۔ (لقمان : 15) (اور اگر تیرے والدین تجھے مجبور کریں اس بات پر کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کر، جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کرنا، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ ) رضاعی والدین بھی حُسنِ سلوک کے مستحق ہیں پھر والدین کے اس رشتے کو اسلام نے رضاعی والدین تک وسعت دے دی ہے۔ یعنی جس خاتون کا دودھ پیا ہے وہ دودھ پینے والے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جاتا ہے۔ اور ساتھ دودھ پینے والا دوسرا بچہ رضاعی بھائی کہلاتا ہے۔ جس طرح حضرت حلیمہ سعدیہ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی والدہ تھیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺ کی رضاعی والدہ یعنی حلیمہ سعدیہ تشریف لے آئیں۔ آپ ﷺ نے اپنی چادربچھا دی کہ اس پر تشریف رکھیں۔ پھر آپ ﷺ کے رضاعی والد آئے تو آپ ﷺ نے چادر کا دوسرا حصہ ان کے لیے بچھا دیا۔ اتنے میں آپ ﷺ کے رضاعی بھائی بھی پہنچ گئے تو آپ ﷺ نے ان کو ماں باپ کے درمیان بٹھایا۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں ماں باپ کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اطاعت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ نافرمانی سے بھی منع فرمایا بلکہ نافرمانی سے روکنے کو قانونی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّہَاتِ (اللہ نے تم پر مائوں کی نافرمانی کو حرام کردیا ہے) ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا حَقُّ الْوَالِدَیْنِ عَلٰی وَلَدِہِمَا قَالَ ہُمَا جَنَّـتُکَ وَ نَارُکَ (کہ اے اللہ کے رسول ﷺ والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے ؟ فرمایا وہ دونوں تمہاری جنت ہیں اور اور تمہاری جہنم ہیں) یعنی اطاعت کرو گے تو جنت کے مستحق ٹھہرو گے اور نافرمانی کرو گے تو اس کی وجہ سے جہنم میں جانا ہوگا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ ، قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ رَغِمَ اَنْفُہٗ رَغِمَ اَنْفُہٗ رَغِمَ اَنْفُہٗ قِیْلَ مَنْ ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَنْ اَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِاَحَدَہُمَا اَوْ کِلَا ہُمَا لِمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ (حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل ہو۔ پوچھا گیا کہ کون اے اللہ کے رسول ﷺ ؟ فرمایا جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا۔ ان میں سے ایک کو یا دونوں کو اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے باپ کی رضامندی کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی ٹھہرایا اور باپ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قرار دیا : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ رِضٰی الرَّبِّ فِیْ رِضٰی الوَالِدِ وَ سُخْطَ الرَّبِّ فِیْ سُخْطَ الْوَالِدِ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے) اور پھر والد کی نافرمانی کو نہ صرف اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ والد کی نافرمانی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا میں ہی اس کی سزا نہ دے دی جائے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : کل الذنوب یغفر اللّٰہ تعالیٰ منہا ماشاء الا عقوق الوالدین فانہ یجعل لصاحبہ فی الحیاۃ قبل الممات (اللہ تعالیٰ تمام گناہوں میں سے جس کو چاہے گا معاف فرمائے گا مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ وہ نافرمان کو موت سے پہلے زندگی میں ہی سزا دے ڈالے۔ ) ماں چونکہ اولاد کی پیدائش میں اور بچپن میں ان کی تربیت میں زیادہ دکھ اٹھاتی ہے اور باوجود اس کے کہ اس کا تعلق صنف نازک سے ہے، لیکن وہ کس قدر حوصلہ مندی کے ساتھ اپنی اولاد کی ہر غلط بات اور بڑی سے بڑی خدمت کے بوجھ کو برداشت کرتی ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ماں کی خدمت اور حسن سلوک کا حق باپ کی نسبت سے تین گنا تم پر زیادہ ہے : قَالَ رَجَلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ اَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ قَالَ اُمُّکَ ثُمَّ اُمُّکَ ثُمَّ اُمُّکَ ثُمَّ اَبَاکَ ثُمَّ اَدْنَاکَ ثُمَّ اَدْنَاکَ (ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے بہتر حق کا اور بہتر مصاحبت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ کہا تمہاری ماں۔ پوچھا پھر کون ؟ کہا تمہارا باپ اور پھر تمہارے اور درجہ بدرجہ قریبی رشتے دار۔ ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ماں کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کو باپ کی نسبت تین گنا زیادہ اہمیت دی۔ عہدِ نبوت کی ایک معروف شخصیت حضرت اویس قرنی ہیں، جو یمن کے علاقے قرن کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے علاقے میں کسی صحابی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ اور پھر انھوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ” حضور میری والدہ بوڑھی ہیں، کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ ارشاد فرمایئے میرے لیے کیا حکم ہے ؟ “ آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ” تم اپنی ماں کی خدمت کرتے رہو۔ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔ “ ذرا غور کیجیے کہ ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے بہرہ ور ہونے والے کو صحابی کہتے ہیں اور یہ شرف صحابیت جو محض آنحضرت ﷺ کی زیارت سے ملتا ہے، اس سے بڑھ کر کوئی شرف دنیا میں نہیں۔ ایک آدمی ساری عمر بھی اللہ کی عبادت کرتا رہے تو وہ ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ حضرت اویس قرنی t تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک جو بڑے جلیل القدر محدث ہیں، ان سے کسی نے پوچھا ” امیر معاویہ ؟ افضل ہیں یا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؟ “ تو حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ” بھائی ! تم نے ان دونوں میں عجیب تقابل کیا ہے۔ ان دونوں کا آپس میں تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کیونکہ حضرت امیر معاویہ صحابی ہیں وہ جب آنحضرت ﷺ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے تھے تو جو مٹی اڑ کر ان کی ناک میں جاتی تھی جو مقام و مرتبہ اس مٹی کا ہے وہ بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بعد میں آنے والا بڑے سے بڑا شخص بھی شرف صحابیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ اندازہ فرمائیں کہ اتنا بڑا شرف حضرت اویس قرنی نے ماں کی خدمت کی وجہ سے قربان کردیا۔ کیونکہ ان کی والدہ زندہ رہیں اور وہ ان کی خدمت میں لگے رہے۔ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں باوجود اس کے کہ آپ ہمیشہ اس کے لیے تڑپتے تھے حاضر نہ ہو سکے۔ حتیٰ کہ حضور ﷺ نے انتقال فرمایا۔ لیکن ماں کی خدمت کی اطاعت کا جو ان کو صلہ ملا اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر فاروق ( رض) سے فرمایا ” عمر ! میرے بعد ایک شخص اس حلیے کا جس کا نام اویس ہوگا، یمن سے آئے گا۔ تم اس کو تلاش کرنا۔ اگر وہ تمہیں مل جائے تو اس سے اپنے لیے دعا کرانا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مستجاب الدعوات بنایا ہے۔ “ یعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ آپ ( رض) کو یہ شرف صرف اس وجہ سے ملا کہ آپ ( رض) نے ماں کی خدمت کی۔ چناچہ حضرت عمر فاروق ( رض) نے یہ تلاش جاری رکھی کہ جو بھی قافلہ یمن سے آتا آپ ( رض) اس میں معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ اس نام اور حلیے کا آدمی اس میں موجود ہے یا نہیں ؟ چناچہ آپ ( رض) کو ایک دفعہ یہ خبر ملی کہ کوئی قافلہ یمن سے آیا ہے اور اس میں اس نام کے صاحب موجود ہیں تو آپ ( رض) فوراً ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ حضرت آپ مجھ سے دعا کراتے ہیں حالانکہ آپ کا مقام و مرتبہ تو معروف و معلوم ہے تو پھر آپ نے آنحضرت ﷺ کے حوالے سے یہ سارا واقعہ بیان کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں ایک ماں کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ جہاد جو اسلام میں سب سے بڑی عبادت ہے، والدین اگر بوڑھے ہیں اور کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں یا صرف اکیلی ماں ہے اور ان کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی خدمت کو جہاد پر اہمیت دی ہے۔ آپ درج ذیل دو احادیث کو ملاحظہ فرمائیں : جَآئَ رَجُلٌ اِلٰی النَّبِیِّ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ اُجَاہِدُ قَالَ اَلَکَ اَبَوَانِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِیْہِمَا فَجَاہِدْ (ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا کیا تمہارے ماں باپ ہیں ؟ اس نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا واپس جاؤ ان دونوں کے حوالے سے جہاد کرو یعنی ان دونوں کی خدمت کرو۔ ) ان جاہمۃ جاء الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ اردت ان اغزو و قد جئت استشبرک فقال ہل لک من ام قال نعم قال فالزمہا فان الجنۃ عند رجلہا (کہ جاہمہ نامہ کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ سے مشورہ کروں۔ فرمایا کیا تمہاری والدہ ہیں ؟ کیا ہاں۔ فرمایا جاؤ جا کر ہر وقت ان کی خدمت کرو۔ اس لیے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ ) ان دونوں احادیث میں والدین کو یا والدہ کی خدمت کو جہاد سے افضل قرار دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان کے والدین یا ان کی والدہ کی نگہداشت کرنے والا اور کوئی نہیں۔ اس لیے آپ نے ان کو والدین کی خدمت یا ماں کی خدمت کو جہاد پر ترجیح دینے کا حکم دیا۔ ماں باپ کی خدمت اور جہاد بات یہ ہے کہ اگر جہاد فرض نہ ہوا ہو بلکہ جہاد میں شرکت صرف ثواب کی نیت سے کرنا ہو تو پھر ایسے جہاد کے لیے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے۔ لیکن اگر جہاد فرض ہوجائے جیسے جنگ تبوک میں آنحضرت ﷺ نے ہر صحابی کو نکلنے کا حکم دے دیا تھا، ایسے جہاد کو فرض عین کہتے ہیں تو پھر سب کا جہاد پر نکلنا فرض ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ ماں باپ کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہ سکتے ہوں اور اندیشہ ہو کہ بیٹے کے چلے جانے کی صورت میں ان کی موت واقع ہوجائے گی تو ایسی صورت حال میں ماں باپ کی دیکھ بھال جہاد سے زیادہ درجہ حاصل کر جاتی ہے۔ والدین کی اطاعت قانوناً بھی ضروری ہے اور اخلاقاً بھی ماں باپ کی اطاعت کا ذکر ہورہا ہے تو اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اطاعت ایک تو خدمت کو کہتے ہیں۔ یعنی ماں باپ کی دیکھ بھال، نگہداشت، ان کی ہر طرح کی مدد اور تعاون، لیکن اطاعت کی دوسری صورت ان کے اخراجات کو برداشت کرنا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ کو صرف مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والے دوسرے بھی ہوتے ہیں تو اطاعت جس کو ہم نفقہ کہتے ہیں اولاد پر قانونی طور پر بھی ضروری ہے اور اخلاقی طور پر بھی۔ قانونی طور پر ضروری ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی اولاد والدین کی جائز ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے اس اولاد کو مجبور کرے اور اخلاقی طور پر ضروری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا جرم ہے جو مسلمان معاشرے میں قابل نفرت ہونا چاہیے۔ آخرت میں اللہ کے یہاں اس کی شدید باز پرس ہوگی۔ قرآن حکیم نے اولاد کو ماں باپ پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی اس کی تاکید فرمائی ہے اور دور خلافتِ راشدہ میں خلفائے راشدین نے اس کے بارے میں فیصلہ بھی فرمایا۔ آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد ہے : عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصٍ اَنَّ اَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَّ لِیْ مَالًا وَ وَلَدَانِ وَ اَنَّ اَبِیْ یُحْتَاجُ اِلٰی مَالِیْ فَقَاَل اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبِیْکَ (حضرت عمرو بن العاص ( رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میرے پاس مال اور دو بیٹے بھی ہیں اور میرے والدین میرے مال کے محتاج ہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کا ہے) اسی طرح حضرت عمر فاروق ( رض) کے زمانے میں حضرت عمر فاروق ( رض) کی خدمت میں ایک ایسے شخص کی شکایت کی گئی جو اپنے والدین کے اخراجات کے تحمل میں کوتاہی کا ارتکاب کر رہا تھا تو حضرت عمر ( رض) نے اسے حکم دیتے ہوئے یہی جملہ دہرایا یعنی ” اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ “ (تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کی ملکیت ہے)
Top