Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 6
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا
ثُمَّ : پھر رَدَدْنَا : ہم نے پھیر دی لَكُمُ : تمہارے لیے الْكَرَّةَ : باری عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَمْدَدْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں مدد دی بِاَمْوَالٍ : مالوں سے وَّبَنِيْنَ : اور بیٹے وَجَعَلْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں کردیا اَكْثَرَ : زیادہ نَفِيْرًا : جتھا (لشکر)
پھر ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔
ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْھِمْ وَاَمْدَدْنٰـکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰـکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا۔ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْقف وَاِنْ اَسَاْ تُمْ فَلَھَا ط فَاِذَا جَآئَ وَعْدُالْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْٓئٗ ا وُجُوْھَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 6۔ 7) (پھر ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔ اگر تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔ ) یہود کی تاریخ کا دوسرا دور اس آیت کریمہ میں قرآن کریم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کو پھر سنبھلنے کا موقع دیا۔ اسرائیل نام کی سلطنت کے لوگ تو اپنے اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اٹھے ‘ مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک بقیہ ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والا تھا ‘ اس نے لوگوں میں اصلاح کا کام جاری رکھا۔ آخر رحمت الٰہی مددگار ہوئی ‘ بابل کی سلطنت کو زوال آیا ‘ 539 قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے سال اس نے بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ پھر حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ایک فرمان کے ذریعے مجاز کیا گیا کہ وہ اپنے علاقے میں دین کا کام کریں اور حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کرائیں۔ حضرت عزیر نے اس سے فائدہ اٹھا کر دین موسیٰ کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا۔ بائبل کی کتب خمسہ کو جن میں تورات ہے مرتب کر کے شائع کیا۔ ایرانی سلطنت کے زوال کے بعد اور سکندرِ اعظم کی فتوحات کے نتیجے میں ان کے لیے پھر دشواریاں پیدا ہوئیں۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی ان میں سے شام کا علاقہ اس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے 198 قبل مسیح میں فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ یونانی فاتح جو مذہباً مشرک اور اخلاقاً اباحیت پسند تھے، یہودی مذہب اور تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 175 قبل مسیح میں انٹیوکس چہارم جب تخت نشیں ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب اور تہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی۔ چناچہ اس کی تمام سختیوں کے باوجود یہودی اس سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں مکابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کی پھونکی ہوئی روح دینداری نے اپنا اثر دکھایا کہ یہودیوں کی اکثریت مکابیوں کے ساتھ ہوگئی اور آخرکار انھوں نے یونانیوں کو ملک سے نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کرلی جو 67 قبل مسیح تک قائم رہی۔ یہ ایک طویل عرصہ ہے جس میں قدرت ان کے شامل حال رہی ‘ لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کے اندر وہی پرانی عادتیں عود کر آئیں۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا اخلاقی و دینی اثر کمزور ہونے لگا ‘ آخر ان کے درمیان پھوٹ پڑگئی اور انھوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔ چناچہ پومپی 63 قبل مسیح میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کردیا۔ لیکن رومی فاتحین کی یہ مستقل پالیسی تھی کہ وہ مفتوح علاقوں پر براہ راست اپنا نظم و نسق قائم کرنے کی بہ نسبت مقامی حکمرانوں کے ذریعے سے بالواسطہ اپنا کام نکلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فلسطین میں اپنے زیرسایہ ایک دیسی ریاست قائم کردی جو بالآخر 40 قبل مسیح میں ایک ہوشیار یہودی ہیرود نامی کے قبضہ میں آئی۔ اس کی ریاست 4 قبل مسیح تک باقی رہی۔ آخر یہ ریاست تین حصوں میں تقسیم ہوگئی جو اس کے تین بیٹوں کے حصے میں آئی۔ 41 عیسوی میں ہیرود اعظم کے پوتے کو رومیوں نے ان تمام علاقوں کا فرمانروا بنادیا جن پر ہیروداعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔ اس شخص نے برسراقتدار آنے کے بعد مسیح (علیہ السلام) کے پیروئوں پر مظالم کی انتہا کردی اور اپنا پورا زور خدا ترسی اور اصلاحِ اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی رہنمائی میں چل رہی تھی۔ چند ہی سالوں کے بعد حالات نے کروٹ لی اور یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہوگئی۔ یہودیوں نے نہ جانے اپنی طاقت کا کیا اندازہ لگایا کہ 64 ء اور 66 ء کے درمیان کھلی بغاوت کردی، تو رومی سلطنت نے ‘ ایک سخت فوجی کاروائی سے اس بغاوت کو کچل ڈالا اور 70 ء میں ٹیٹس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کرلیا۔ اس موقع پر قتل عام میں ایک لاکھ 33 ہزار آدمی مارے گئے۔ 67 ہزار آدمی گرفتار کر کے غلام بنائے گئے ‘ ہزار ہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے ‘ ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تاکہ ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے ‘ یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختہ مشق بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوند خاک کردیا گیا۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار ایسا مٹا کہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہوسکا۔ یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فسادِ عظیم کی پاداش میں ملی۔
Top