Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ
: تمام تعریفیں
لِلّٰهِ
: اللہ کیلئے
الَّذِيْٓ
: وہ جس نے
اَنْزَلَ
: نازل کی
عَلٰي عَبْدِهِ
: اپنے بندہ پر
الْكِتٰبَ
: کتاب (قرآن)
وَلَمْ يَجْعَلْ
: اور نہ رکھی
لَّهٗ
: اس میں
عِوَجًا
: کوئی کجی
(ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اس نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّـہٗ عِوَجًا۔ قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاسًاشَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْـہُ وَیُبَشِّرَالْمُوْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَنًا۔ مَّا کِـثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا۔ وَّیُنْذِرَالَّذِیْنَ قَالُوْا اتَّخَذَاللّٰہُ وَلَدًا۔ (الکہف : 1 تا 4) (ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اس نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا۔ بالکل ہموار اور استوار تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے اور بشارت دے دے ایمان لانے والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہت اچھا بدلہ ہے۔ جس میں وہ رہیں گے ہمیشہ۔ اور وہ خبردار کرے ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد بنائی ہے۔ ) انسان رہنمائی کا محتاج ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا تو اسے زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی کے وسائل بھی مہیا کیے۔ محسوسات میں رہنمائی کے لیے حواس خمسہ عطا کیے اور معقولات میں عقل عطا فرمائی۔ لیکن زندگی کے وہ دائرے اور وہ شعبے جو حواس اور عقل کی حدود سے ماورا ہیں جن کے بارے میں یا تو یہ دونوں فیصلہ نہیں کرسکتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو اپنی نارسائی کے باعث عموماً غلطی اور کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے دائروں اور شعبوں میں انسان کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی سے انسان کو نوازا ہے۔ انسان اپنی جسمانی اور دماغی ضرورتوں کی تکمیل حواس اور عقل کی رہنمائی میں بروئے کار لاسکتا ہے۔ اس کے لیے یہ بات بہت آسان ہے کہ اپنی اشیائے خوردونوش اور زندگی کی دوسری ضروریات کو ان دونوں کی مدد سے ایجاد کرے اور ترقی دے۔ چناچہ ہم آج جو ماکولات، مشروبات اور ملبوسات میں تنوع دیکھتے ہیں یہ سب انسانی عقل کی کارفر مائی ہے۔ اس طرح زندگی میں ہم اپنے گردوپیش میں جو ہما ہمی اور زیب وزینت دیکھتے ہیں یہ سب انسانی عقل کے معجزے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی عقل سے یہ معلوم کرنا چاہے کہ میرا خالق کیسا ہے ؟ وہ کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور کن باتوں سے راضی ہوتا ہے ؟ میری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے ؟ عالم برزخ کیا ہے ؟ عالم غیب کیا ہے ؟ روح کیا چیز ہے ؟ بعث بعدالموت کی حقیقت کیا ہے ؟ اعمال کی جزا اور سزا کی نوعیت کیا ہوگی ؟ جنت اور جہنم کیا ہے ؟ عالم آخرت کی صفات کیا ہیں ؟ انسان کی روحانیت کن باتوں سے توانا ہوتی ہے اور کن اسباب سے مردہ ہوجاتی ہے ؟ ایسے بیشمار سوال ہیں جن کا جواب انسان کے لیے اپنی عقل کی مدد سے ممکن نہیں۔ جس طرح حواس اور عقل کی بخشش اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان حیوانوں سے بدتر ہے۔ جو چیز اسے حیوانوں سے الگ کرتی ہے وہ اس کا جوہرِ عقل ہے جس پر وہ جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تھوڑا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی وہ ہدایت اور رہنمائی ہے جو اس نے وحی الٰہی کے ذریعہ عطا فرمائی ہے کیونکہ حواس اور عقل سے آدمی اپنی دنیا تو بنا سکتا تھا، کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے کے طریقے تو اختیار کرسکتا تھا لیکن انسانیت اور اقدارِ انسانیت، مکارمِ اخلاق، معرفتِ حق، ہمدردی و خیرخواہی، سچ اور اس پر استقامت، ایثار اور قربانی، عزت نفس اور خودداری جیسی کتنی صفات ہیں جنھیں انسان اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ غور فرمایئے وہ زندگی کیسی زندگی ہوتی جس میں ان صفات کا نہ کوئی عکس ہوتا نہ عمل دخل ہوتا۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ صفات ہیں جنھیں انسانیت کا حقیقی سرمایہ کہا جاسکتا ہے۔ انسان کی تخلیق اور تربیت کے بعد انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ان بنیادی وسائل کا فراہم کرنا ہے جن سے یہ صفات وجود میں آتی اور جنم لیتی ہیں۔ رہنمائی کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں پیش نظر آیت کریمہ میں ان دو بنیادی وسائل کا ذکر فرمایا گیا ہے جو انسانی ہدایت کا سرچشمہ ہیں اور جن کے ذریعے انسان کو انسانیت نصیب ہوتی ہے اور زندگی کا وہ طریقہ اور رویہ عطا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان، انسان بنتا ہے، اس کی زندگی پاکیزہ ہوتی ہے اور آخرت میں اس کے سرخرو ہونے کا سامان ہوتا ہے۔ وہ دو بنیادی وسائل یا سورسز اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ ہیں۔ اور پھر ان وسائل کی قدر افزائی اور ہمارے دلوں میں اس کی عظمت اتارنے کے لیے اپنی حمد اور اپنا شکر ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لیے ہے یا ہر طرح کا شکر اس اللہ کے لیے ہے۔ (کیونکہ حمد کے یہ دونوں ہی معنی کیے جاسکتے ہیں) جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری، بندے سے مراد یہاں رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے اور کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ دونوں ہمارے لیے رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ قرآن ہمیں اصول دیتا ہے اور رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی ہمیں ان کے انطباق کی تعلیم دیتی ہے۔ قرآن متن ہے آنحضرت ﷺ اس کی شرح ہیں۔ قرآن قول ہے اور حضور ﷺ کی زندگی اس کا عمل ہے۔ قرآن ایک تھیوری ہے اور آنحضرت ﷺ کی ذات اس کا پریکٹیکل ورک ہے۔ قرآن کریم خاموش ہدایت ہے اور آنحضرت ﷺ کی زندگی بولتی ہوئی ہدایت اور قرآن ناطق ہے۔ دونوں مل کر وہ دستور اور قانون مہیا کرتے ہیں جسے ہم اسلامی شریعت اور اسلامی آداب کہتے ہیں۔ ان دونوں پر چونکہ انسانی زندگی کا دارومدار ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانوں کی دنیا اور آخرت کا دارومدار ہے۔ اس لیے ازبس ضروری ہے کہ اس کتاب میں کوئی کجی نہ ہو۔ کہیں بھی کسی غلط بات یا کسی باطل کی طرف میلان نہ ہو۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کو ہر طرح کی کجی سے محفوظ رکھا۔ نہ اس کے الفاظ میں کجی ہے نہ معنی میں۔ نہ اس کے بیان میں لکنت ہے نہ اس کے ابلاغ میں نقص۔ اس کا ہر لفظ اس کے جملوں میں اس طرح روشن ہے جیسے انگشتری میں نگینہ ہوتا ہے۔ اس کا ہر جملہ بلاغت کا شاہکار ہے۔ اس کا کوئی محاورہ مرورایام کے ساتھ تغیر کا شکار نہیں ہوا۔ اس کا کوئی اسلوب آج تک متروک نہ ہوسکا۔ اس کا پیش کردہ نظام ہر اختلاف سے پاک، ہر نارسائی سے مبرا اور ہر ناکامی سے پاک ہے۔ جب بھی اسے روبہ عمل لایا گیا زندگیوں میں انقلاب آگیا، فضا میں بہار آگئی، ہر چیز کی پیداوار بڑھ گئی، زمین سونا اگلنے لگی، نفرتیں محبتوں میں بدل گئیں، حریص لوگ قناعت آشنا ہوگئے، دولت مند دولت کے امین بنگئے اور غریب لوگ بےنیاز اور خوددار ہوگئے۔ غرضیکہ لفظی، معنوی اور عملی تینوں اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے اور ہر الجھن سے محفوظ ہے۔ قَیِّمًاکا معنی و مفہوم دوسری آیت کا پہلالفظ قَیِّمًا پہلی آیت میں لَمْ یَجْعَلْ لَّـہٗ عِوَجًا کی تاکید بھی ہے اور مثبت انداز میں وضاحت بھی۔ یعنی قرآن کریم میں کجی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قَیِّم ہے، قَیِّم کا ایک معنی ہوتا ہے، مستقیم۔ مستقیم وہ ہوتا ہے جس میں کوئی ادنیٰ کجی اور کسی جانب میلان نہ ہو بلکہ اس کی ہر بات حق کے ترازو پر تلنے والی فطرت کے پیمانوں میں پوری اترنے والی اور دلوں میں گھر کر جانے والی ہے۔ انکار کرنے والے اس کا انکار تو کرسکتے ہیں لیکن اس میں کوئی سقم تلاش نہیں کرسکتے۔ قیم کا دوسرا معنی نگران اور محافظ بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن کریم جس طرح اپنی ذات میں ہر قسم کی کجی اور افراط وتفریط سے پاک ہے، اسی طرح یہ دوسروں کو بھی ہر کجی اور افراط وتفریط سے بچانے والا اور بندوں کی تمام مصالح کی حفاظت کرنے والا ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ قرآن کریم اپنی ذات میں ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے۔ اور اپنی رہنمائی میں ہر لحاظ سے نہایت جامع و مانع ہے جو اپنی پیروی کرنے والوں کو بھی کمال اور تکمیل سے نوازتا ہے۔ نزولِ قرآن کا مقصد اس کے بعد اس کتاب کے نازل کرنے کا مقصد بیان فرمایا گیا ہے کہ پروردگار نے اس کتاب کو اس لیے نازل کیا ہے تاکہ وہ انکار کرنے والوں کو انذار کرے اور ایمان لانے والوں کو بشارت دے۔ اس جملے میں لِّیُنْذِرَ کا فاعل اللہ بھی ہوسکتا ہے اور عبد یعنی رسول بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے انکار کرنے والوں کو انذار کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کو بشارت دیتا ہے۔ اور اگر اس کا فاعل رسول کو بنائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اس لیے اتاری ہے تاکہ اس کے رسول کریم ﷺ انکار کرنے والوں کو انذار کریں اور ایمان لانے والوں کو بشارت دیں۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انذار کا ذکر پہلے ہے اور تبشیر کا ذکر بعد میں۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم اور تبلیغ میں اپنے مخاطب کو پہلے ہر اس برے انجام سے خبردار کرنا چاہیے جو اس کے غلط رویئے کے نتیجے میں پیش آسکتا ہے اور اپنی اصلاح کی صورت میں جو بہتری پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے جو فوائد نکل سکتے ہیں اس کی بشارت بعد میں دی جانی چاہیے، لیکن اگر تدبر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی جب دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو ان کے سامنے سب وہ لوگ ہوتے ہیں جو انھیں نبی اور رسول ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ بات انتہائی معقول ہوگی کہ انھیں ان کے انکار کے خطرناک نتائج سے خبردار کیا جائے۔ اور اگر ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف کچھ میلان پیدا ہو تو پھر انھیں بہتر مستقبل کی بشارت دی جائے کیونکہ ایسے لوگ جو سرے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور وہ ان تمام باتوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ دعوت دے رہا ہے تو ایسے لوگوں کے سامنے اگر اسلام کی قبولیت کے نتیجے میں ملنے والی نعمتوں کا ذکر کیا جائے گا اور بہتر مستقبل کی خبر دی جائے گی تو بجائے اثر قبول کرنے کے وہ اس پر ہنسیں گے۔ اس لیے یہ بات کہ انذار پہلے ہونا چاہیے یا تبشیر، کفار کے حوالے سے تو بالکل واضح ہے۔ لیکن جہاں تک گنہگار مسلمانوں کا تعلق ہے اس کا دارومدار داعی کی اپنی فراست اور فہم و بصیرت پر ہے۔ وہ طبائع کا اندازہ کرنے کے بعد فیصلہ کرسکتا ہے کہ مجھے اس وقت کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ چناچہ ہم نبی کریم ﷺ کو دونوں ہی طریقوں پر عمل کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے کبھی انذار سے کام لیا اور کبھی تبشیر سے۔ کیونکہ طبیعتیں کبھی خوفزدہ ہو کر راہ راست کی طرف اور مائل بہ عمل ہوتی ہیں اور کبھی ترغیب اور تشویق ان کے اندر جذبہ عمل کو ابھارتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت قرآن کریم کی خبر کے مطابق بروبحر میں فساد پھیل چکا تھا، یعنی دنیا کا کوئی گوشہ اس فساد سے محفوظ نہیں تھا۔ خود وہ مقام جہاں اللہ تعالیٰ کا گھر ایستادہ تھا اور جسے حرم ہونے کی حیثیت حاصل تھی، وہ 360 خدائوں کا مرکز بن چکا تھا اور یہ حرم خداوندی حرم کی بجائے تیرتھ معلوم ہوتا تھا۔ پورا جزیرہ عرب اگرچہ اللہ تعالیٰ کے اس گھر سے بےپناہ عقیدت رکھتا تھا اور سال بہ سال اس کی زیارت کے لیے بھی لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ بایں ہمہ ان کی زندگی کا بگاڑ باقی دنیا سے کم نہ تھا۔ فساد کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو ان میں پائی نہ جاتی تھی اور اسی بگاڑ اور اللہ تعالیٰ سے دوری کا نتیجہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کو اس سورت کے نزول کے وقت تک کئی سال دعوت دیتے ہوئے گزر چکے تھے، لیکن ان کے بگاڑ میں کوئی قابل ذکر کمی نہ آئی تھی۔ ان کی حالت اور ان کے رویئے کو دیکھتے ہوئے پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے یہ کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ ہمارا رسول ﷺ براہ راست اہل مکہ اور بالواسطہ دوسرے لوگوں کو اس سخت ترین عذاب سے ڈرائے جو انکار کرنے والی قوموں پر ہمیشہ آیا کرتا ہے اور جس کے آنے کے بعد وہ دھرتی بانجھ ہوجاتی ہے اور اس قوم کی جڑ اکھاڑ دی جاتی ہے۔ لِّیُنْذِرَکا فاعل (جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں) اگر اللہ تعالیٰ کو سمجھا جائے تو پھر مِّنْ لَّدُنْـہُ کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے اہتمام اور خصوصی فضل و کرم سے نازل فرمایا ہے تاکہ اس کا رسول اس کا انکار کرنے والوں کو عذاب سے ڈرائے اور اگر اس کا فاعل آنحضرت ﷺ کو ٹھہرایا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ تعالیٰ کی کتاب کا انکار کرنے والوں کو اس عذاب سے ڈرائے جو معمولی عذاب نہیں ہوگا بلکہ بطور خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گا جو اس کے قہر کا اظہار ہوگا۔ انذار کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم نے اپنے اسلوب کے مطابق تبشیر کا ذکر فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی بعثت اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ وہ انکار کرنے والوں کو انذار کریں۔ اسی طرح اس کا یہ مقصد بھی ہے کہ وہ ایمان لانے والوں کو بشارت دیں اور ساتھ ہی اس کے یہ قید بھی لگا دی کہ وہ ایمان لانے والے ایسے ہوں جو نیک اعمال بھی کریں۔ اس پر ہمارے بعض اہل علم نے اپنے فہم کے مطابق قرآن و سنت سے استفادہ کرکے اعمالِ صالحہ کی ایک فہرست مرتب کی ہے، لیکن اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہر وہ عمل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اور اس کی شریعت کے احکام کے مطابق کیا جائے وہ عمل صالح کہلاتا ہے۔ اس لیے ہر عمل کرنے والا خوب جانتا ہے کہ میں جو عمل کررہا ہوں کس نیت سے کر رہا ہوں اور کیا اسلامی شریعت اس کی اجازت دیتی بھی ہے یا نہیں۔ اور میرا ایمان اس کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ جب ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ایسے صاحب ایمان لوگوں کو بہترین اجر عطا فرماتے ہیں۔ دنیا میں اس کا اجر یہ ہے کہ ایک باعمل مومن حیات طیبہ سے نوازا جاتا ہے اور آخرت میں اسے وہ جنت عطا کی جاتی ہے جس کی ایک ایک نعمت اپنا بدل نہیں رکھتی اور پھر یہ کہ نعمتوں بھرا عیش چند روزہ نہیں ہوگا بلکہ جو جنت میں داخل ہوگیا وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اور اسے ہر وہ نعمت میسر آئے گی جس کی وہ چاہت کرے گا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی چاہتیں ختم ہوجائیں گی لیکن نعمتیں ختم نہیں ہوں گی۔ چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ان لوگوں کو بھی انذار کرتا ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد بنا رکھی ہے۔ اس میں اس دور کے تینوں مشہور اور گمراہ فرقوں کا ذکر آگیا۔ یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا ٹھہرا رکھا تھا۔ اور مشرکینِ مکہ کا دعویٰ یہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اس مختصر سی آیت میں تینوں کا ابطال فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ ولد کا معنی صرف بیٹا نہیں، اولاد بھی ہوتا ہے جس میں مذکر اور مونث دونوں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے اس سے تینوں گمراہ فرقوں کی تردید ہوجاتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرنا صرف دینی لحاظ سے غلط نہیں بلکہ کوئی معقول آدمی ایسی حرکت کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہیں وہ اس کا بیٹا کیسے قرار دے سکتے ہیں کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا ہم جنس ہوتا ہے۔ جس طرح انسان کا بیٹا انسان اور حیوان کا بیٹا حیوان کہلاتا ہے۔ اسی طرح خدا کا بیٹا خدا کہلائے گا تو پھر خدا واحد کیسے رہ گیا۔ اور مزید یہ کہ بیٹے کی احتیاج تو اسے ہوتی ہے جسے بڑھاپے کا اندیشہ ہو تاکہ بیٹا پڑھاپے کی لاٹھی بنے، یا اس بات کی فکر ہو کہ مرنے کے بعد کوئی تو میرا نام لیوا ہونا چاہیے۔ تو جو شخص اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے تصورات رکھتا ہے اس نے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ماننے کی حماقت نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا بھی انکار کردیا۔ علیٰ ھذا القیاس اس پر جتنا بھی غور کرتے جایئے یہ بات جہالت اور بےوقوفی کے سوا اور کچھ نہیں کہی جاسکتی۔
Top