بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
(ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اس نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّـہٗ عِوَجًا۔ قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاسًاشَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْـہُ وَیُبَشِّرَالْمُوْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَنًا۔ مَّا کِـثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا۔ وَّیُنْذِرَالَّذِیْنَ قَالُوْا اتَّخَذَاللّٰہُ وَلَدًا۔ (الکہف : 1 تا 4) (ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اس نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا۔ بالکل ہموار اور استوار تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے اور بشارت دے دے ایمان لانے والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہت اچھا بدلہ ہے۔ جس میں وہ رہیں گے ہمیشہ۔ اور وہ خبردار کرے ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد بنائی ہے۔ ) انسان رہنمائی کا محتاج ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا تو اسے زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی کے وسائل بھی مہیا کیے۔ محسوسات میں رہنمائی کے لیے حواس خمسہ عطا کیے اور معقولات میں عقل عطا فرمائی۔ لیکن زندگی کے وہ دائرے اور وہ شعبے جو حواس اور عقل کی حدود سے ماورا ہیں جن کے بارے میں یا تو یہ دونوں فیصلہ نہیں کرسکتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو اپنی نارسائی کے باعث عموماً غلطی اور کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے دائروں اور شعبوں میں انسان کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی سے انسان کو نوازا ہے۔ انسان اپنی جسمانی اور دماغی ضرورتوں کی تکمیل حواس اور عقل کی رہنمائی میں بروئے کار لاسکتا ہے۔ اس کے لیے یہ بات بہت آسان ہے کہ اپنی اشیائے خوردونوش اور زندگی کی دوسری ضروریات کو ان دونوں کی مدد سے ایجاد کرے اور ترقی دے۔ چناچہ ہم آج جو ماکولات، مشروبات اور ملبوسات میں تنوع دیکھتے ہیں یہ سب انسانی عقل کی کارفر مائی ہے۔ اس طرح زندگی میں ہم اپنے گردوپیش میں جو ہما ہمی اور زیب وزینت دیکھتے ہیں یہ سب انسانی عقل کے معجزے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی عقل سے یہ معلوم کرنا چاہے کہ میرا خالق کیسا ہے ؟ وہ کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور کن باتوں سے راضی ہوتا ہے ؟ میری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے ؟ عالم برزخ کیا ہے ؟ عالم غیب کیا ہے ؟ روح کیا چیز ہے ؟ بعث بعدالموت کی حقیقت کیا ہے ؟ اعمال کی جزا اور سزا کی نوعیت کیا ہوگی ؟ جنت اور جہنم کیا ہے ؟ عالم آخرت کی صفات کیا ہیں ؟ انسان کی روحانیت کن باتوں سے توانا ہوتی ہے اور کن اسباب سے مردہ ہوجاتی ہے ؟ ایسے بیشمار سوال ہیں جن کا جواب انسان کے لیے اپنی عقل کی مدد سے ممکن نہیں۔ جس طرح حواس اور عقل کی بخشش اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان حیوانوں سے بدتر ہے۔ جو چیز اسے حیوانوں سے الگ کرتی ہے وہ اس کا جوہرِ عقل ہے جس پر وہ جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تھوڑا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی وہ ہدایت اور رہنمائی ہے جو اس نے وحی الٰہی کے ذریعہ عطا فرمائی ہے کیونکہ حواس اور عقل سے آدمی اپنی دنیا تو بنا سکتا تھا، کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے کے طریقے تو اختیار کرسکتا تھا لیکن انسانیت اور اقدارِ انسانیت، مکارمِ اخلاق، معرفتِ حق، ہمدردی و خیرخواہی، سچ اور اس پر استقامت، ایثار اور قربانی، عزت نفس اور خودداری جیسی کتنی صفات ہیں جنھیں انسان اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ غور فرمایئے وہ زندگی کیسی زندگی ہوتی جس میں ان صفات کا نہ کوئی عکس ہوتا نہ عمل دخل ہوتا۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ صفات ہیں جنھیں انسانیت کا حقیقی سرمایہ کہا جاسکتا ہے۔ انسان کی تخلیق اور تربیت کے بعد انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ان بنیادی وسائل کا فراہم کرنا ہے جن سے یہ صفات وجود میں آتی اور جنم لیتی ہیں۔ رہنمائی کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں پیش نظر آیت کریمہ میں ان دو بنیادی وسائل کا ذکر فرمایا گیا ہے جو انسانی ہدایت کا سرچشمہ ہیں اور جن کے ذریعے انسان کو انسانیت نصیب ہوتی ہے اور زندگی کا وہ طریقہ اور رویہ عطا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان، انسان بنتا ہے، اس کی زندگی پاکیزہ ہوتی ہے اور آخرت میں اس کے سرخرو ہونے کا سامان ہوتا ہے۔ وہ دو بنیادی وسائل یا سورسز اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ ہیں۔ اور پھر ان وسائل کی قدر افزائی اور ہمارے دلوں میں اس کی عظمت اتارنے کے لیے اپنی حمد اور اپنا شکر ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لیے ہے یا ہر طرح کا شکر اس اللہ کے لیے ہے۔ (کیونکہ حمد کے یہ دونوں ہی معنی کیے جاسکتے ہیں) جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری، بندے سے مراد یہاں رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے اور کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ دونوں ہمارے لیے رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ قرآن ہمیں اصول دیتا ہے اور رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی ہمیں ان کے انطباق کی تعلیم دیتی ہے۔ قرآن متن ہے آنحضرت ﷺ اس کی شرح ہیں۔ قرآن قول ہے اور حضور ﷺ کی زندگی اس کا عمل ہے۔ قرآن ایک تھیوری ہے اور آنحضرت ﷺ کی ذات اس کا پریکٹیکل ورک ہے۔ قرآن کریم خاموش ہدایت ہے اور آنحضرت ﷺ کی زندگی بولتی ہوئی ہدایت اور قرآن ناطق ہے۔ دونوں مل کر وہ دستور اور قانون مہیا کرتے ہیں جسے ہم اسلامی شریعت اور اسلامی آداب کہتے ہیں۔ ان دونوں پر چونکہ انسانی زندگی کا دارومدار ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانوں کی دنیا اور آخرت کا دارومدار ہے۔ اس لیے ازبس ضروری ہے کہ اس کتاب میں کوئی کجی نہ ہو۔ کہیں بھی کسی غلط بات یا کسی باطل کی طرف میلان نہ ہو۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کو ہر طرح کی کجی سے محفوظ رکھا۔ نہ اس کے الفاظ میں کجی ہے نہ معنی میں۔ نہ اس کے بیان میں لکنت ہے نہ اس کے ابلاغ میں نقص۔ اس کا ہر لفظ اس کے جملوں میں اس طرح روشن ہے جیسے انگشتری میں نگینہ ہوتا ہے۔ اس کا ہر جملہ بلاغت کا شاہکار ہے۔ اس کا کوئی محاورہ مرورایام کے ساتھ تغیر کا شکار نہیں ہوا۔ اس کا کوئی اسلوب آج تک متروک نہ ہوسکا۔ اس کا پیش کردہ نظام ہر اختلاف سے پاک، ہر نارسائی سے مبرا اور ہر ناکامی سے پاک ہے۔ جب بھی اسے روبہ عمل لایا گیا زندگیوں میں انقلاب آگیا، فضا میں بہار آگئی، ہر چیز کی پیداوار بڑھ گئی، زمین سونا اگلنے لگی، نفرتیں محبتوں میں بدل گئیں، حریص لوگ قناعت آشنا ہوگئے، دولت مند دولت کے امین بنگئے اور غریب لوگ بےنیاز اور خوددار ہوگئے۔ غرضیکہ لفظی، معنوی اور عملی تینوں اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے اور ہر الجھن سے محفوظ ہے۔ قَیِّمًاکا معنی و مفہوم دوسری آیت کا پہلالفظ قَیِّمًا پہلی آیت میں لَمْ یَجْعَلْ لَّـہٗ عِوَجًا کی تاکید بھی ہے اور مثبت انداز میں وضاحت بھی۔ یعنی قرآن کریم میں کجی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قَیِّم ہے، قَیِّم کا ایک معنی ہوتا ہے، مستقیم۔ مستقیم وہ ہوتا ہے جس میں کوئی ادنیٰ کجی اور کسی جانب میلان نہ ہو بلکہ اس کی ہر بات حق کے ترازو پر تلنے والی فطرت کے پیمانوں میں پوری اترنے والی اور دلوں میں گھر کر جانے والی ہے۔ انکار کرنے والے اس کا انکار تو کرسکتے ہیں لیکن اس میں کوئی سقم تلاش نہیں کرسکتے۔ قیم کا دوسرا معنی نگران اور محافظ بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن کریم جس طرح اپنی ذات میں ہر قسم کی کجی اور افراط وتفریط سے پاک ہے، اسی طرح یہ دوسروں کو بھی ہر کجی اور افراط وتفریط سے بچانے والا اور بندوں کی تمام مصالح کی حفاظت کرنے والا ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ قرآن کریم اپنی ذات میں ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے۔ اور اپنی رہنمائی میں ہر لحاظ سے نہایت جامع و مانع ہے جو اپنی پیروی کرنے والوں کو بھی کمال اور تکمیل سے نوازتا ہے۔ نزولِ قرآن کا مقصد اس کے بعد اس کتاب کے نازل کرنے کا مقصد بیان فرمایا گیا ہے کہ پروردگار نے اس کتاب کو اس لیے نازل کیا ہے تاکہ وہ انکار کرنے والوں کو انذار کرے اور ایمان لانے والوں کو بشارت دے۔ اس جملے میں لِّیُنْذِرَ کا فاعل اللہ بھی ہوسکتا ہے اور عبد یعنی رسول بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے انکار کرنے والوں کو انذار کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کو بشارت دیتا ہے۔ اور اگر اس کا فاعل رسول کو بنائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اس لیے اتاری ہے تاکہ اس کے رسول کریم ﷺ انکار کرنے والوں کو انذار کریں اور ایمان لانے والوں کو بشارت دیں۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انذار کا ذکر پہلے ہے اور تبشیر کا ذکر بعد میں۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم اور تبلیغ میں اپنے مخاطب کو پہلے ہر اس برے انجام سے خبردار کرنا چاہیے جو اس کے غلط رویئے کے نتیجے میں پیش آسکتا ہے اور اپنی اصلاح کی صورت میں جو بہتری پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے جو فوائد نکل سکتے ہیں اس کی بشارت بعد میں دی جانی چاہیے، لیکن اگر تدبر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی جب دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو ان کے سامنے سب وہ لوگ ہوتے ہیں جو انھیں نبی اور رسول ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ بات انتہائی معقول ہوگی کہ انھیں ان کے انکار کے خطرناک نتائج سے خبردار کیا جائے۔ اور اگر ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف کچھ میلان پیدا ہو تو پھر انھیں بہتر مستقبل کی بشارت دی جائے کیونکہ ایسے لوگ جو سرے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور وہ ان تمام باتوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ دعوت دے رہا ہے تو ایسے لوگوں کے سامنے اگر اسلام کی قبولیت کے نتیجے میں ملنے والی نعمتوں کا ذکر کیا جائے گا اور بہتر مستقبل کی خبر دی جائے گی تو بجائے اثر قبول کرنے کے وہ اس پر ہنسیں گے۔ اس لیے یہ بات کہ انذار پہلے ہونا چاہیے یا تبشیر، کفار کے حوالے سے تو بالکل واضح ہے۔ لیکن جہاں تک گنہگار مسلمانوں کا تعلق ہے اس کا دارومدار داعی کی اپنی فراست اور فہم و بصیرت پر ہے۔ وہ طبائع کا اندازہ کرنے کے بعد فیصلہ کرسکتا ہے کہ مجھے اس وقت کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ چناچہ ہم نبی کریم ﷺ کو دونوں ہی طریقوں پر عمل کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے کبھی انذار سے کام لیا اور کبھی تبشیر سے۔ کیونکہ طبیعتیں کبھی خوفزدہ ہو کر راہ راست کی طرف اور مائل بہ عمل ہوتی ہیں اور کبھی ترغیب اور تشویق ان کے اندر جذبہ عمل کو ابھارتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت قرآن کریم کی خبر کے مطابق بروبحر میں فساد پھیل چکا تھا، یعنی دنیا کا کوئی گوشہ اس فساد سے محفوظ نہیں تھا۔ خود وہ مقام جہاں اللہ تعالیٰ کا گھر ایستادہ تھا اور جسے حرم ہونے کی حیثیت حاصل تھی، وہ 360 خدائوں کا مرکز بن چکا تھا اور یہ حرم خداوندی حرم کی بجائے تیرتھ معلوم ہوتا تھا۔ پورا جزیرہ عرب اگرچہ اللہ تعالیٰ کے اس گھر سے بےپناہ عقیدت رکھتا تھا اور سال بہ سال اس کی زیارت کے لیے بھی لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ بایں ہمہ ان کی زندگی کا بگاڑ باقی دنیا سے کم نہ تھا۔ فساد کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو ان میں پائی نہ جاتی تھی اور اسی بگاڑ اور اللہ تعالیٰ سے دوری کا نتیجہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کو اس سورت کے نزول کے وقت تک کئی سال دعوت دیتے ہوئے گزر چکے تھے، لیکن ان کے بگاڑ میں کوئی قابل ذکر کمی نہ آئی تھی۔ ان کی حالت اور ان کے رویئے کو دیکھتے ہوئے پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے یہ کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ ہمارا رسول ﷺ براہ راست اہل مکہ اور بالواسطہ دوسرے لوگوں کو اس سخت ترین عذاب سے ڈرائے جو انکار کرنے والی قوموں پر ہمیشہ آیا کرتا ہے اور جس کے آنے کے بعد وہ دھرتی بانجھ ہوجاتی ہے اور اس قوم کی جڑ اکھاڑ دی جاتی ہے۔ لِّیُنْذِرَکا فاعل (جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں) اگر اللہ تعالیٰ کو سمجھا جائے تو پھر مِّنْ لَّدُنْـہُ کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے اہتمام اور خصوصی فضل و کرم سے نازل فرمایا ہے تاکہ اس کا رسول اس کا انکار کرنے والوں کو عذاب سے ڈرائے اور اگر اس کا فاعل آنحضرت ﷺ کو ٹھہرایا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ تعالیٰ کی کتاب کا انکار کرنے والوں کو اس عذاب سے ڈرائے جو معمولی عذاب نہیں ہوگا بلکہ بطور خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گا جو اس کے قہر کا اظہار ہوگا۔ انذار کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم نے اپنے اسلوب کے مطابق تبشیر کا ذکر فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی بعثت اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ وہ انکار کرنے والوں کو انذار کریں۔ اسی طرح اس کا یہ مقصد بھی ہے کہ وہ ایمان لانے والوں کو بشارت دیں اور ساتھ ہی اس کے یہ قید بھی لگا دی کہ وہ ایمان لانے والے ایسے ہوں جو نیک اعمال بھی کریں۔ اس پر ہمارے بعض اہل علم نے اپنے فہم کے مطابق قرآن و سنت سے استفادہ کرکے اعمالِ صالحہ کی ایک فہرست مرتب کی ہے، لیکن اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہر وہ عمل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اور اس کی شریعت کے احکام کے مطابق کیا جائے وہ عمل صالح کہلاتا ہے۔ اس لیے ہر عمل کرنے والا خوب جانتا ہے کہ میں جو عمل کررہا ہوں کس نیت سے کر رہا ہوں اور کیا اسلامی شریعت اس کی اجازت دیتی بھی ہے یا نہیں۔ اور میرا ایمان اس کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ جب ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ایسے صاحب ایمان لوگوں کو بہترین اجر عطا فرماتے ہیں۔ دنیا میں اس کا اجر یہ ہے کہ ایک باعمل مومن حیات طیبہ سے نوازا جاتا ہے اور آخرت میں اسے وہ جنت عطا کی جاتی ہے جس کی ایک ایک نعمت اپنا بدل نہیں رکھتی اور پھر یہ کہ نعمتوں بھرا عیش چند روزہ نہیں ہوگا بلکہ جو جنت میں داخل ہوگیا وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اور اسے ہر وہ نعمت میسر آئے گی جس کی وہ چاہت کرے گا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی چاہتیں ختم ہوجائیں گی لیکن نعمتیں ختم نہیں ہوں گی۔ چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ان لوگوں کو بھی انذار کرتا ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد بنا رکھی ہے۔ اس میں اس دور کے تینوں مشہور اور گمراہ فرقوں کا ذکر آگیا۔ یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا ٹھہرا رکھا تھا۔ اور مشرکینِ مکہ کا دعویٰ یہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اس مختصر سی آیت میں تینوں کا ابطال فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ ولد کا معنی صرف بیٹا نہیں، اولاد بھی ہوتا ہے جس میں مذکر اور مونث دونوں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے اس سے تینوں گمراہ فرقوں کی تردید ہوجاتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرنا صرف دینی لحاظ سے غلط نہیں بلکہ کوئی معقول آدمی ایسی حرکت کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہیں وہ اس کا بیٹا کیسے قرار دے سکتے ہیں کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا ہم جنس ہوتا ہے۔ جس طرح انسان کا بیٹا انسان اور حیوان کا بیٹا حیوان کہلاتا ہے۔ اسی طرح خدا کا بیٹا خدا کہلائے گا تو پھر خدا واحد کیسے رہ گیا۔ اور مزید یہ کہ بیٹے کی احتیاج تو اسے ہوتی ہے جسے بڑھاپے کا اندیشہ ہو تاکہ بیٹا پڑھاپے کی لاٹھی بنے، یا اس بات کی فکر ہو کہ مرنے کے بعد کوئی تو میرا نام لیوا ہونا چاہیے۔ تو جو شخص اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے تصورات رکھتا ہے اس نے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ماننے کی حماقت نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا بھی انکار کردیا۔ علیٰ ھذا القیاس اس پر جتنا بھی غور کرتے جایئے یہ بات جہالت اور بےوقوفی کے سوا اور کچھ نہیں کہی جاسکتی۔
Top