Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ : کیا گمان کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا اَنْ يَّتَّخِذُوْا : کہ وہ بنالیں گے عِبَادِيْ : میرے بندے مِنْ دُوْنِيْٓ : میرے سوا اَوْلِيَآءَ : کارساز اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نُزُلًا : ضیافت
کیا ان کافروں نے گمان کیا کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو کارساز بنالیں گے، ہم نے ایسے کافروں کے لیے جہنم بطور ضیافت تیار کر رکھی ہے۔
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ یَّـتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِٓیْ اَوْلِیَآئَ ط اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰـفِرِیْنَ نُزُلاً ۔ (الکہف : 102) (کیا ان کافروں نے گمان کیا کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو کارساز بنالیں گے، ہم نے ایسے کافروں کے لیے جہنم بطور ضیافت تیار کر رکھی ہے۔ ) خاتمہ سورت کی آیات یہاں سے سورة کے اختتام تک کی آیات خاتمہ سورة کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کا ربط ذوالقرنین کے واقعہ میں تلاش کرنے کی بجائے پوری سورت کے مجموعی مضامین میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا عمومی اسلوب یہ ہے کہ وہ جس مضمون سے سورت کا آغاز کرتا ہے انسانی زندگی کی رہنمائی کے لیے مختلف ضرورتوں کو پورا کرتا ہوا خاتمہ سورة میں اسی مضمون پر کلام کا اختتام کرتا ہے۔ جب اس سورة کے آغاز کے مضمون کو ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا یوں تو ہمہ گیر اور متنوع گمراہیوں کا شکار تھی، لیکن جس گمراہی کو تمام گمراہیوں کی بنیاد کہنا چاہیے وہ یہ تھی کہ انسان دنیا کی زیب وزینت اور رنگ و بو میں گم ہو کر آخرت کو بھول چکا تھا اور اس کے نتیجے میں اس کی زندگی خواہشات اور مفادات کی اسیر ہو کر رہ گئی تھی۔ ہر شخص اور ہر قوم اپنے مفادات اور اپنی خواہشات اور اپنے قومی تعصبات کے دائرے میں گم ہو کر اس طرح زندگی گزار رہی تھی کہ اب اس کے لیے اس سے باہر دیکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کوئی شخص اس سے ہٹ کر اخلاقی حوالے سے یا انسان کی حقیقت کے حوالے سے بات کرتا تھا تو وہ انھیں نہایت اجنبی بلکہ خطرناک محسوس ہوتی تھی اور وہ بات کہنے والے کا منہ نوچنے کے لیے تیار ہوجاتے تھے۔ اہل مکہ بھی اسی صورتحال سے دوچار تھے۔ اس سورت کے آغاز میں پروردگار نے نبی کریم ﷺ کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کا سبب بیان کرتے ہوئے واضح فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں صرف تمہاری زندگی کے نتائج سے باخبر کرنے اور غلط انجام سے انذار کے لیے بھیجا ہے۔ تم دنیا کی زیب وز ینت کے اسیر ہو کر جس طرح آخرت فراموشی اور خدا فراموشی کا شکار ہوئے ہو اس سے تمہاری دنیا تو تباہ ہوئی ہے آخرت بھی تباہ ہوجائے گی۔ تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو، آخرت کا یقین پیدا کرو اور دنیا کی حقیقت کو سمجھو، یہی وہ مضمون ہے جسے لپیٹتے ہوئے سورة کے آخر میں بیان کیا جارہا ہے۔ پوری سورة میں مختلف طریقوں سے مشرکین کے شرک کی تردید اور ان کے رویئے کے خطرناک انجام پر بار بار تنبیہ کے بعد ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ ان کافروں کا اب بھی یہ گمان ہے کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا اپنا کارساز بنالیں گے اگر بالفرض قیامت آبھی گئی تو وہ انھیں قیامت کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچا لیں گے۔ ان بدبختوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قیامت میں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔ وہاں ایمان و عمل اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا کوئی سہارا کارآمد نہیں ہوگا۔ رہے یہ لوگ جو ابھی تک سہاروں پر یقین لگائے ہوئے ہیں ہم نے ان کی مہمانی کے لیے جہنم تیار کررکھا ہے۔ بعض الفاظ کی تشریح آیتِ کریمہ کے بعض الفاظ غور طلب ہیں۔ مثلاً اَلَّذِیْنَ کَفَرَوْا سے کون مراد ہیں ؟ عبادی کا مفہوم کیا ہے ؟ اولیاء کا کیا معنی ہے ؟ عبادی کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے مراد ہیں۔ مثلاً مشرکینِ عرب نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا، یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ اس صورت میں الذین کفروا سے مراد یہودونصاریٰ اور مشرکینِ عرب مراد ہوں گے۔ ایک صورت یہ ہے کہ عبادی سے مراد وہ تمام قوتیں ہوں جن کی دنیا میں پوجا کی گئی ہے۔ اس صورت میں الذین کفروا سے مراد تمام کفار ہیں جو جنات اور شیاطین کی پرستش کرتے اور طاغوتی قوتوں کے سامنے جھکتے ہیں اور اسی طرح وہ تمام لوگ بھی مراد ہوں گے جو معبوداتِ باطلہ مثلاً بُت، آگ اور ستاروں وغیرہ کی پوجا کرتے رہے ہیں۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ آج کا انسان چونکہ فکری طور پر بہت ترقی کرگیا ہے اور اس نے علم کے تقریباً ہر گوشے میں نام پیدا کیا ہے۔ اس لیے اب اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آج بھی انسان اس شرک میں مبتلا ہوگا جس کی تردید قرآن کریم نے بار بار کی ہے۔ لیکن جب ہم انسانوں کے حالات دیکھتے ہیں تو یہ بات خوش فہمی کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں رکھتی، کیونکہ آج بھی دنیا میں ہر سطح کے انسان پائے جاتے ہیں۔ البتہ وہ ملک اور معاشرے جہاں انسانوں نے بظاہر ترقی کی ہے اور ٹیکنالوجی کے فروغ نے ان کے ذہنی افق کو بہت روشن کردیا ہے اور زندگی کے بارے میں ان کے تصورات بھی بہت حد تک تبدیل ہوگئے ہیں۔ یقینا ان میں ہمیں وہ پرانی بت پرستی نظر نہیں آتی اور بہت ساری وہ باتیں بھی ختم ہوگئی ہیں جن کی بنیاد صرف توہمات پر تھی۔ لیکن یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ انسان پتھروں کے تراشے ہوئے بتوں کے سامنے نہیں جھکتا لیکن کیا یہ امرواقعہ نہیں کہ جن بڑے شخصیتوں کے تصورات اور رہنمائی کو قبول کرلیا جاتا ہے چاہے وہ رہنمائی کیسے ہی غلط کیوں نہ ہو ان شخصیتوں کے مجسمے جابجا استادہ کیے جاتے ہیں۔ بت پرست تو اپنے بتوں کے سامنے عبادت کے وقت جھکتے تھے لیکن آج انسان اپنے پسندیدہ رہنمائوں کی تصویروں کو اپنی خواب گاہوں میں بھی آویزاں کرتا ہے۔ جن شخصیتوں کو وہ اپنا ہیرو قرار دے لیتا ہے ان کی ایک ایک بات پر دوسروں سے لڑائی مول لیتا ہے۔ پارٹی لیڈرز کو وہ مقام دے دیا جاتا ہے جو کسی پیغمبر کو بھی حاصل نہیں۔ ان کی ہر بات کو حرف آخر سمجھ کر پیروی کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ پارٹی لیڈر کا خاندان ایک ایسا مقدس حوالہ بن جاتا ہے کہ پارٹی لیڈر اگر دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو اس کی نالائق اولاد کو بھی لوگ اپنے سروں پر بٹھاتے اور رہنمائی کے منصب پر فائز کردیتے ہیں۔ کتنے ایسے رہنما گزرے ہیں جنھیں بہت سے لوگ مسترد کرچکے ہیں لیکن آج بھی ان کے مجسموں کے سامنے سر جھکائے جاتے ہیں۔ ان کی برسی کے دن ان کے اقوال کو دہرایا جاتا ہے اور ان سے وفاداری کے لیے تجدیدِ عہد کیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ممالک بھی ہیں جو صدیوں پیشتر جاہلیتِ قدیمہ کے سرغنوں کو اپنا جدِامجد قرار دے کر لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام جس نے حسب و نسب اور دولت کے بت توڑے ہیں اور صرف کردار کی عظمت کو اجالا ہے اس کے نام لیوائوں میں ایسے ملک موجود ہیں جہاں نیشنلزم کو بتوں کی طرح پوجا جاتا ہے۔ نسلی انتسابات کو فروغ دیا جارہا ہے۔ کمیونزم، کیپٹل ازم، لبرل ازم اور نیشنلزم یہ دنیا کے نئے خدا ہیں جن کی وجہ سے انسانیت تقسیم ہوگئی ہے اور ان میں اتنا بعد پیدا ہوگیا ہے کہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوگئے ہیں۔ ان تازہ خدائوں میں اقبال کی فکرکے مطابق وطن سب سے بڑا خدا ہے جس کی محبت کو غلط طور پر ایمان کا جز قرار دے کر دوسروں کے ساتھ دشمنی کا ذریعہ بنایا گیا ہے اور اسے مذہب پر فوقیت دے کر مذہب کی بنیاد اکھاڑی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس روشنی علم و ہنر کے زمانے میں جس قدر بت تراشے گئے ہیں اور جتنے نئے خدا بنائے گئے ہیں نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت بت پرستی کی ہمہ گیری کا یہ عالم نہیں تھا۔ اس لیے اقبال نے بالکل ٹھیک کہا تھا اور ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے : یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ اولیاء ولی کی جمع ہے جو متعدد معانی پر بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں اس سے مراد کارساز اور حاجت روا ہے جو معبودِبرحق کی خاص صفت ہے۔ نُزُلاً … عام طور پر مہمانی کو کہتے ہیں بلکہ عرب اس مہمانی کو نزل کہتے ہیں جو مہمان کے گھر میں داخل ہونے کے بعد ابتدائی طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت میں کافروں پر تعریض کی گئی ہے کہ تم جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش کیے جاؤ گے تم چونکہ ایک نووارد اور مہمان کی طرح اس نئی دنیا میں اترو گے تو تمہاری مہمانی جہنم سے ہوگی، لیکن بعض اہل علم نے اس کا ترجمہ رہائش کیا ہے کہ قیامت ایک دوسری دنیا ہے، پہلی دنیا کے خاتمے پر دوسری دنیا میں ہر شخص کو نئی رہائش کی ضرورت ہوگی۔ تمہارے لیے پہلے سے رہائش تیار کردی گئی ہے اور وہ جہنم ہے۔
Top