Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠   ۧ
وَاَمَّا : اور رہی الْجِدَارُ : دیوار فَكَانَ : سو وہ تھی لِغُلٰمَيْنِ : دو بچوں کی يَتِيْمَيْنِ : دو یتیم فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں۔ کے وَكَانَ : اور تھا تَحْتَهٗ : اس کے نیچے كَنْزٌ : خزانہ لَّهُمَا : ان دونوں کے لیے وَكَانَ : اور تھا اَبُوْهُمَا : ان کا باپ صَالِحًا : نیک فَاَرَادَ : سو چاہا رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ يَّبْلُغَآ : کہ وہ پہنچیں اَشُدَّهُمَا : اپنی جوانی وَيَسْتَخْرِجَا : اور وہ دونوں نکالیں كَنْزَهُمَا : اپنا خزانہ رَحْمَةً : مہربانی مِّنْ رَّبِّكَ : سے تمہارا رب وَمَا فَعَلْتُهٗ : اور یہ میں نے نہیں کیا عَنْ : سے اَمْرِيْ : اپنا حکم (مرضی) ذٰلِكَ : یہ تَاْوِيْلُ : تعبیر (حقیقت) مَا : جو لَمْ تَسْطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
اور رہا دیوار کا معاملہ سو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، آپ کے رب نے یہ چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں، یہ تیرے رب کی عنایت سے ہوا اور یہ جو کچھ میں نے کیا اپنی رائے سے نہیں کیا، یہ ہے حقیقت ان چیزوں کی جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔
وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌلَّھُمَا وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا ج فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّھُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَھُمَا صلے ق رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ج وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ط ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَالَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا۔ (الکہف : 82) (اور رہا دیوار کا معاملہ سو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، آپ کے رب نے یہ چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں، یہ تیرے رب کی عنایت سے ہوا اور یہ جو کچھ میں نے کیا اپنی رائے سے نہیں کیا، یہ ہے حقیقت ان چیزوں کی جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ ) دیوار کی مرمت کی حکمت وہ خسیس لوگ جنھوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کی میزبانی کرنے سے انکار کردیا تھا اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے بجائے ناراض ہونے کے اس بستی کی ایک گرتی ہوئی دیوار کو مرمت کرکے سیدھا کردیا تھا تو اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ آپ ان سے اجرت طے کرلیتے تو ہمارے کام آتی۔ اب اس کی حقیقت بیان کی جارہی ہے۔ یہ دیوار دراصل دو یتیموں کی تھی ان کے باپ نے جو ایک صالح آدمی تھے اس کے نیچے ان کے لیے ڈھیروں مال یا سونے کا کوئی حصہ جسے خزانہ کہا گیا ہے دفن کر رکھا تھا تاکہ اس کی موت کی صورت میں یہ یتیمی کے دھکے نہ کھاتے پھریں بلکہ بڑے ہو کر یہ خزانہ نکالیں اور اطمینان کی زندگی گزاریں۔ بچے ابھی چھوٹے تھے کہ دیوار گرنے کے قریب ہوگئی۔ اب اگر گر جاتی تو وہ خسیس لوگ جو دو بزرگوں کو کھانا دینے کے روادار نہ تھے یقینا یہ خزانہ ہڑپ کر جاتے اور وہ یتیم اس سے محروم ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے صالح باپ کی نیکی کی لاج رکھی اور ان کا خزانہ تباہ ہونے سے محفوظ کردیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا سراسر فضل و کرم تھا جو اس صالح آدمی کی نیکی کی وجہ سے تھا اس بستی والوں کی وجہ سے نہیں تھا۔ حضرت ابن عباس ( رض) کا ارشاد ہے کہ وہ سونے کی ایک تختی تھی جس پر نصیحت کے مندرجہ ذیل کلمات لکھے ہوئے تھے۔ یہ روایت حضرت عثمان ابن عفان نے مرفوعاً نبی کریم ﷺ سے نقل فرمائی ہے۔ (قرطبی) 1 بسم اللہ الرحمن الرحیم 2 تعجب ہے اس شخص پر جو اس پر ایمان رکھتا ہے کہ رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے پھر ضرورت سے زیادہ مشقت اور فضول قسم کی کوشش میں کیوں لگتا ہے۔ 3 تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے، پھر غمگین کیونکر ہوتا ہے۔ 4 تعجب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر خوش و خرم کیسے رہتا ہے ؟ 5 تعجب ہے اس شخص پر جو حساب آخرت پر ایمان رکھتا ہے پھر غفلت کیسے برتتا ہے ؟ 6 تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو اور اس کے انقلابات کو جانتا ہے پھر کیسے اس پر مطمئن ہو کر بیٹھتا ہے ؟ 7 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ والدین کی نیکی کا فائدہ اولاد کو پہنچاتے ہیں بلکہ بعض واقعات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی نیک بندے اور ولی اللہ کا وجود پورے علاقے اور شہر کے لیے رحمت کا باعث ہوتا ہے۔ قرطبی میں ہے کہ حضرت شبلی فرمایا کرتے تھے کہ میں اس شہر اور پورے علاقے کے لیے امان ہوں۔ جب ان کی وفات ہوگئی تو ان کے دفن ہوتے ہی کفار ویلم نے دریائے دجلہ کو عبور کرکے بغداد پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت لوگوں کی زبان پر یہ تھا کہ ہم پر دوہری مصیبت آئی ہے یعنی شبلی کی وفات اور ویلم کا قبضہ۔ (قرطبی ص 29، ج 11) اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے ایک اشکال کا حل کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ گزشتہ آیات میں تین واقعات سے متعلق حضرت خضر (علیہ السلام) نے جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں ان میں اسلوبِ بیان کا ایک اشکال ذہن کو پریشان کرتا ہے، وہ یہ کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنی گفتگو کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جو کچھ کیا اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا۔ آپ کی اس وضاحت سے مطابقت رکھنے والا اسلوب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے کہ آپ نے جو بھی ان واقعات میں کیا اس کی نسبت پروردگار کی طرف کی جائے، جس طرح ایک واقعہ میں آپ نے یہ کہا فَاَرَادَرَبُّکَ ” یعنی تیرے رب نے یہ چاہا “ لیکن ہم ان واقعات کی حکمتوں کے ضمن میں حضرت خضر (علیہ السلام) کو اس اسلوب کی پابندی کرتا ہوا نہیں دیکھتے۔ مثلاً انھوں نے جب کشتی کو عیب دار کرنے کا ذکر کیا تو فرمایا فَاَرَدتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا ” میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں “ اس میں آپ ( علیہ السلام) نے کشتی توڑنے کی نسبت اپنی طرف کی، لیکن جب آپ ( علیہ السلام) نے لڑکے کو قتل کرنے کا ذکر کیا اور اس کی حکمت بیان فرمائی تو آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا فَخَشِیْنَایعنی ہمیں اندیشہ ہوا اور مزید فرمایا فَاَرَدْنَاپس ہم نے ارادہ کیا اور جب حضرت خضر (علیہ السلام) نے دیوار کو سیدھا کرنے کی حکمت بیان فرمائی تو کہا فَاَرَادَرَبُّکَ پس تیرے رب نے ارادہ کیا۔ اسلوبِ بیان کا یہ تفاوت یقینا ذہنوں میں خلجان پیدا کرتا ہے کہ آخر اس اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ اس خلجان کو دور کرنے کے سلسلے میں ہماری گزارش یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں بالخصوص نبیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ارادوں اور اللہ تعالیٰ کے ارادوں میں کامل یکسانی ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی ذات کی نفی کرکے اور اپنی خواہشات اور ارادوں کو مٹا کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ارادوں میں فنا کردیتے ہیں۔ اس صورت میں ان کا ہر کام اللہ تعالیٰ کا کام ہوتا ہے کیونکہ اس کا حکم اور اس کی رضا اس کے پس منظر میں ہوتی ہے۔ اس میں دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ کے بندے کے ہاتھ سے وجود پذیر ہے آیا اس کا تعلق خیر سے ہے یا شر سے، نفع سے ہے یا ضرر سے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان سب کا خالق حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، لیکن شر اور ضرر میں چونکہ تکدر کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے بندے چونکہ سرتاپا ادب اور عرفان ہوتے ہیں وہ کبھی شر یا ضرر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کرتے۔ بجز اس کے کہ کوئی شرعی مصلحت اس کا تقاضا کررہی ہو۔ جس طرح ہم جانتے ہیں کہ مرض اور صحت دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ شفا بھی وہی دیتا ہے اور بیمار بھی وہی کرتا ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ان کا ذکر فرمایا تو یہ کہا وَاِذَامَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِ ” اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔ “ بیماری میں چونکہ ایک بدنمائی ہے اس لیے اس کی نسبت اپنی طرف کی اور شفا میں خوبصورتی اور خوشی ہے تو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی۔ اسی طرح حضرت خضر (علیہ السلام) نے جب کشتی کی شکست کا ذکر کیا تو چونکہ اس میں ایک بدنمائی تھی اس لیے اس کی نسبت اپنی طرف کی حالانکہ اسے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ ( علیہ السلام) نے انجام دیا تھا۔ لیکن جب آپ ( علیہ السلام) نے دیوار کو یتیموں کا دفینہ بچانے کے لیے سیدھا کیا تو چونکہ یہ کام ہر لحاظ سے خوشنما اور احسن تھا اس لیے اس کی نسبت پروردگار کی طرف کی۔ لیکن جب لڑکے کے قتل کا ذکر ہوا تو اس کے دو پہلو تھے وہ اس پہلو سے تو خیر تھا کہ اس کے قتل کے نتیجہ میں والدین کے ایمان کی سلامتی تھی اور اس کے بدلے میں ان کو ایسی اولاد ملنے والی تھی جن سے بہت بڑا خیر ظہورپذیر ہونے والا تھا لیکن قتل غلام فی نفسہ شر تھا تو اس میں پہلی بات تو یہ فرمائی کہ ہمیں اندیشہ ہوا حالانکہ اندیشہ حضرت خضر کو تو ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کو اندیشہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کا کوئی کام بھی یقین سے خالی نہیں ہوتا۔ اندیشہ ہونا سراسر اجتہادی صفت ہے۔ لیکن اس کے پس منظر میں چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو وحی کے ذریعہ آپ ( علیہ السلام) تک پہنچا ہے اور آپ ( علیہ السلام) کا اندیشہ اسی حکم کی مصلحت کو سلجھانے کی ایک کوشش ہے اس لیے اس میں جمع کا صیغہ استعمال کیا تاکہ حکم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف رہے اور اندیشہ کی نسبت اپنی طرف اور پھر اَرَدْنَاکا لفظ استعمال فرمایا کہ قتل غلام کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والا خیر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ایک معصوم بچے کی جان لینا بظاہر ایک شر ہے۔ اس لیے اس کی نسبت حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنی طرف کرتے ہوئے اَرَدْنَا کا لفظ استعمال کیا۔ اگر ان گزارشات کی طرف توجہ دی جائے تو امید ہے کہ اسلوب کا خلجان دور ہوجائے گا۔ علامہ بدرالدین الزرکشی نے قریب قریب اسی توجیہ کو پسند فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : لما اراد ذکرالعیب للسفینۃ نسبہ لنفسہ ادبا مع الربوبیۃ فقال اردت ولما کان قتل الغلام مشترک الحکم بین المحمود والمذموم استتبع نفسہ مع الحق فقال فی الاخبار نبون الاستتباع لیکون المحمود من الفعل وھوراحۃ ابویہ المومنین من کفرہ، عائدا علی الحق سبحنہ والمذموم ظاہرا وھو قتل الغلام بغیرحق، عائدا الیہ، وفی اقامۃ الجدارکان خیرا محضا فنسبہ للحق۔ (البرہان فی علوم القرآن الزرکشی جلد 4 ص 60) اہلِ علم میں حضرت خضر (علیہ السلام) کی زندگی اور موت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ صاحب معارف القرآن نے اس پر جو لکھا ہے ہم اسے نقل کرتے ہیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں یا ان کی وفات ہوچکی ہے قرآن کریم میں جو واقعہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا مذکور ہے اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) اس واقعہ کے بعد وفات پا گئے یا زندہ رہے، اسی لیے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صریح بات مذکور نہیں۔ بعض روایات و آثار سے ان کا اب تک زندہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔ بعض روایات سے اس کے خلاف مستفاد ہوتا ہے، اسی لیے اس معاملے میں ہمیشہ سے علماء کی رائیں مختلف رہی ہیں، جو حضرات ان کی حیات کے قائل ہیں ان کا ستدلال ایک تو اس روایت سے ہے جس کو حاکم نے مستدرک میں حضرت انس ( رض) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو ایک شخص سیاہ سفید داڑھی والے داخل ہوئے اور لوگوں کے مجمع کو چیرتے پھاڑتے اندر پہنچے اور رونے لگے، پھر صحابہ کرام ( رض) کی طرف متوجہ ہو کر یہ کلمات کہے : اِنَّ فِی اللّٰہِ عَزَائً مِّنْ کُلِّ مُصِیْبَۃٍ وَعِوَضًا مِّنْ کُلِّ فَائِتٍ وَخَلَفًا مِّنْ کُلِّ ھَالِکٍ فَاِلَی اللّٰہِ فَاَنِیْبُوْا وَاِلَیْہِ فَارْغَبُوْا فَاِنَّمَا الْمَحْرُوْمُ مَنْ حُرِمَ الثَّوَابَ ۔ (اللہ کی بارگاہ میں صبر ہے ہر مصیبت سے اور بدلا ہے ہر فوت ہونے والی چیز کا، اور وہی قائم مقام ہے ہر ہلاک ہونے والے کا اس لیے اسی کی طرف رجوع کرو اسی کی طرف رغبت کرو کیونکہ محروم وہ شخص ہے جو مصیبت کے ثواب سے محروم ہوجائے۔ ) یہ آنے والے کلمات مذکورہ کہہ کر رخصت ہوگئے تو حضرت ابوبکر اور علی مرتضیٰ ( رض) نے فرمایا کہ یہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے، اس روایت کو جزری ( رح) نے حصن حصین میں بھی نقل کیا ہے جن کی شرط یہ ہے کہ صرف صحیح السند روایات اس میں درج کرتے ہیں۔ اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ دجال مدینہ طیبہ کے قریب ایک جگہ تک پہنچے گا تو مدینہ سے ایک شخص اس کے مقابلہ کے لیے نکلے گا، جو اس زمانے کے سب انسانوں میں بہتر ہوگا، یا بہتر لوگوں میں سے ہوگا، ابواسحاق نے فرمایا کہ یہ شخص حضرت خضر (علیہ السلام) ہوں گے۔ (قرطبی) اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الہواتف میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے ان کو ایک دعا بتلائی کہ جو اس کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرے اس کے لیے ثواب عظیم اور مغفرت و رحمت ہے۔ وہ دعا یہ ہے : یَامَنْ لاَیُشْغِلُہٗ سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ وَیَامَنْ لاَ تُغْلِطُہُ الْمَسَائِلُ وَیَامَنْ لاَیَبْرَمُ مِنْ اِلْحَاحِ الْمُلِحِّیْنَ اَذِقْنِیْ بَرْدَعَفْوِکَ وَحَلاَ وَۃَ مَغْفِرَتِکَ (قرطبی) (اے وہ ذات جس کو ایک کلام کا سننا دوسرے کلام کے سننے سے مانع نہیں ہوتا اور اے وہ ذات جس کو بیک وقت ہونے والے (لاکھوں کروڑوں) سوالات میں کوئی مغالطہ نہیں لگتا اور وہ ذات جو دعا میں الحاح و اصرار کرنے اور بار بار کہنے سے ملول نہیں ہوتا، مجھے اپنے عفو و کرم کا ذائقہ چکھا دیجیے اور اپنی مغفرت کی حلاوت نصیب فرمایئے۔ ) اور پھر اسی کتاب میں بعینہٖ یہی واقعہ اور یہی دعا اور حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کا واقعہ حضرت فاروق اعظم ( رض) سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ (قرطبی) اسی طرح اولیاء امت میں حضرت خضر (علیہ السلام) کے بیشمار واقعات منقول ہیں، اور جو حضرات خضر (علیہ السلام) کی حیات کو تسلیم نہیں کرتے ان کا بڑا استدلال اس حدیث سے ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ( رض) سے منقول ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز اپنی آخرحیات میں پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور یہ کلمات ارشاد فرمائے : اَرَأَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ھٰذِہٖ فَاِنَّ عَلٰی رَأْسِ مَائَۃِ سَنَۃٍ مِنْھَا لاَ یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَا عَلٰی ظَھْرِالْاَرْضِ اَحَدٌ، (کیا تم اپنی آج کی رات کو دیکھ رہے ہو، اس رات سے سو سال گزرنے پر کوئی شخص ان میں سے زندہ نہ ہوگا جو آج زمین کے اوپر ہے۔ ) حضرت ابن عمر ( رض) نے یہ روایت نقل کرکے فرمایا کہ اس روایت کے بارے میں لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ سو سال پر یہ قرن ختم ہوجائے گا، یہ روایت مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ ( رض) سے بھی تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے، لیکن علامہ قرطبی ( رح) نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس میں ان لوگوں کے لیے کوئی حجت نہیں جو حیات حضرت خضر (علیہ السلام) کو باطل کہتے ہیں کیونکہ اس روایت میں اگرچہ تمام بنی آدم کے لیے عموم کے الفاظ ہیں اور عموم بھی مؤکد کرکے لایا گیا ہے، مگر پھر بھی اس میں نص نہیں کہ یہ عموم تمام اولادِ آدم (علیہ السلام) کو شامل ہی ہو کیونکہ اولادِ آدم میں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہیں جن کی نہ وفات ہوئی اور نہ قتل کیے گئے، اس لیے ظاہر یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ عَلَی الْاَرْضِ میں الف لام عہد کا ہے اور مراد ارض سے ارض عرب ہے، پوری زمین جس میں ارض یاجوج و ماجوج اور بلادشرق اور جزائر جن کا نام بھی عربوں نے نہیں سنا اس میں شامل نہیں، یہ علامہ قرطبی کی تحقیق ہے۔ اسی طرح بعض حضرات نے مسئلہ ختم نبوت کو حیات خضر کے منافی سمجھا ہے، اس کا جواب بھی ظاہر ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات ختم نبوت کے منافی نہیں حضرت خضر (علیہ السلام) کی حیات بھی ایسی ہی ہوسکتی ہے۔ بعض حضرات نے حیات خضر پر یہ شبہ کیا ہے کہ اگر وہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں موجود ہوتے تو ان پر لازم تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ ﷺ کے تابع ہو کر اسلامی خدمات میں مشغول ہوتے، کیونکہ حدیث میں ارشاد ہے : لَوْ کَانَ مُوْسیٰ حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلاَّ اتِّبَاعِیْ ” یعنی اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آج زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع کرنا پڑتا (کیونکہ میرے آنے سے دین موسوی منسوخ ہوچکا ہے) ۔ لیکن یہ کچھ بعید نہیں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی زندگی اور ان کی نبوت عام انبیاء شریعت سے مختلف ہو، ان کو چونکہ تکوینی خدمات منجانب اللہ سپرد ہیں وہ ان کے لیے مخلوق سے الگ تھلگ اپنے کام پر مامور ہیں، رہا اتباع شریعت محمد ﷺ یہ تو اس میں کوئی بعد نہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت کے بعد سے انھوں نے اپنا عمل شریعتِ محمد یہ ﷺ پر شروع کردیا ہو، واللہ اعلم۔ ابوحیان نے تفسیر بحرمحیط میں متعدد بزرگوں کے واقعات حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کے بھی نقل کیے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ : وَالْجُمْھُوْرُ عَلٰی اَنَّہٗ مَاتَ ، (بحرمحیط، ص 147 ج 6) ” جمہور علماء اس پر ہیں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی۔ “ تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ( رح) نے فرمایا کہ تمام اشکالات کا حل اس میں ہے جو حضرت سید احمد سرہندی مجدد الف ثانی ( رح) نے اپنے مکاشفہ سے فرمایا وہ یہ کہ میں نے خود حضرت خضر (علیہ السلام) سے اس معاملہ کو عالم کشف میں دریافت کیا، انھوں نے فرمایا کہ میں اور حضرت الیاس (علیہ السلام) ہم دونوں زندہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قدرت بخشی ہے کہ ہم زندہ آدمیوں کی شکل میں متشکل ہو کر لوگوں کی امداد مختلف صورتوں میں کرتے ہیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ یہ بات میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی موت وحیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا عملی مسئلہ متعلق نہیں، اسی لیے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں کی گئی، اس لیے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی بھی ضرورت نہیں، نہ کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے، لیکن چونکہ مسئلہ عوام میں چلا ہوا ہے اس لیے مذکورہ صدر تفصیلات نقل کردی گئی ہیں۔
Top