Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 89
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
پھر اس نے ایک اور مہم کی تیاری کی۔
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا۔ حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَذَھَا تَطْلُعُ عَلٰی قُوْمٍ لَّـم نَجْعَلْ لَّھُمْ مِّنْ دُوْنِھَا سِتْرًا۔ کَذٰلِکَ ط وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْہِ خُبْرًا۔ (الکہف : 89 تا 91) ( پھر اس نے ایک اور مہم کی تیاری کی۔ یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کے مقام پر پہنچا تو اس نے سورج کو پایا ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے ہوئے جس کے لیے دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی آڑ ہم نے نہیں بنائی تھی۔ ایسا ہی ہم نے کیا اور ہم اس کے احوال سے خوب باخبر تھے۔ ) ذوالقرنین کی دوسری مہم اس آیت کریمہ میں ذوالقرنین کی دوسری مہم کا ذکر ہے۔ پہلا سفر اس کا مغرب کی جانب تھا۔ یہ سفر اس کا مشرقی سمت میں تھا۔ اس سمت میں وہ فتح کا پھریرا لہراتا ہوا متمدن اور مہذب دنیا کی آخری حد تک پہنچ گیا۔ وہاں اس نے ایسی قوم کو دیکھا جو انتہائی وحشی اور غیرمتمدن لوگ تھے۔ انھیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے گھر بنانا بھی ضروری ہیں۔ وہ تعمیر و تمدن کی ہر ضرورت سے ناآشنا، حیوانوں کی طرح وحشت کی زندگی گزار رہے تھے اور خانہ بدوشوں کی طرح چلتے پھرتے ان کی زندگی گزرتی تھی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ ذوالقرنین کے اس سفر کا سبب مکران، قندھار اور بلخ کے وحشی اور صحرا گرد قبائل کی سرکشی تھی۔ انھوں نے مشرقی سرحد پر ایسی بدامنی پھیلا رکھی تھی کہ جس کا سدباب کرنے کے لیے ذوالقرنین کو یہ سفر کرنا پڑا۔ چناچہ اپنی مشرقی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے ذوالقرنین نے اس پورے علاقے کو فتح کیا تاکہ ان وحشی قبائل کی دست برد سے محفوظ رہا جاسکے۔ اس کے بعد یہ جو فرمایا گیا کہ ہم اس کے احوال سے خوب باخبر تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین کی یہ فتوحات سکندر اور چنگیز کی فتوحات کی طرح نہیں تھیں جس میں ظلم وتعدی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ ان فتوحات کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید کام کررہی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتے تھے کہ ذوالقرنین کی صلاحیتوں اور اس کی سیرت و کردار کا کیا عالم ہے۔ چناچہ جب اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ ثابت کیا اور اس نے اپنی قوت و طاقت کو ظلم کا ذریعہ بنانے کی بجائے خدمتِ خلق اور نظام عدل کے قیام کا ذریعہ بنایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے فتوحات کے دروازے کھول دیئے۔
Top