Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 92
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
پھر وہ ایک اور راہ پر روانہ ہوا۔
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا۔ حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِھِمَا قَوْمًا لا لاَّ یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ قَوْلاً ۔ قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَھَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلٰٓی اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ سَدًّا۔ قَالَ مَامَکَّنِّیْ فِیْہِ رَبِّیْ خَیْرٌفَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ اَجْعَلْ بَیْنَـکُمْ وَبَیْنَھُمْ رَدْمًا۔ اٰ تُوْنِیْ زُبَرَالْحَدِیْدِ ط حَتّٰیٓ اِذَا سَاوٰی بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْا ط حَتّٰیٓ اِذَا جَعَلَـہٗ نَارًا لا قَالَ اٰ تُوْنِٓیْ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا۔ فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ یَّظْھَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَـہٗ نَقْبًا۔ قَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّیْ ج فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَـہٗ دَکَّآئَ ج وَکَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا۔ (الکہف : 92 تا 98) (پھر وہ ایک اور راہ پر روانہ ہوا۔ یہاں تک کہ دو پہاڑوں کے درمیان کے درے تک جا پہنچا تو اس نے دونوں پہاڑوں کے پیچھے ایک ایسی قوم کو پایا جو کوئی بات سمجھ نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے درخواست کی کہ اے ذوالقرنین یاجوج و ماجوج ہمارے ملک میں فساد مچاتے رہتے ہیں تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم مقرر کردیں آپ کے لیے کچھ خراج تاکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردیں۔ اس نے جواب دیا وہ دولت جس میں میرے رب نے مجھے اختیار دیا ہے وہ بہتر (کافی) ہے، پس تم جسمانی مشقت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک اوٹ کھڑی کیے دیتا ہوں۔ میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لائو، یہاں تک کہ بیچ کے خلاء کو بھر دیا جو دو پہاڑوں کے درمیان تھا تو اس نے حکم دیا کہ اس کو خوب دھونکو یہاں تک کہ جب اس کو آگ کردیا تو اس نے کہا کہ اب تانبا لائو اس پر انڈیل دوں۔ سو یاجوج ماجوج بڑی کوشش کے باوجود اسے سر نہ کرسکے اور نہ ہی اس میں سوراخ کرسکے۔ اس نے کہا یہ میرے رب کا فضل ہے اور جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا وہ اسے ریزہ ریزہ کردے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہوا کرتا ہے۔ ) ذوالقرنین کی تیسری مہم مشکل الفاظ کی تشریح : خَرْج اور خراج ہم معنی ہیں۔ رَدْمًا مضبوط دیوار کو کہتے ہیں۔ صَدَفکا معنی ہے بلند اور مضبوط عمارت۔ اَلصَّدَفُ کُلُّ بِنَائٍ عَظِیْمٌ مُرْتَفَعٌ (قرطبی) قَطَرْ کا معنی ہے پگھلا ہوا تانبا۔ والقطرعند اکثر المفسرین النحاس المذاب وقیل الحدید المذاب وقیل الرصاص المذاب۔ (قرطبی) یہاں ذوالقرنین کی تیسری مہم کا ذکر ہے۔ مؤرخین نے اس مہم کا کوئی ذکر نہیں کیا، البتہ اتنا ضرور بتاتے ہیں کہ ذوالقرنین بابل کی فتح کے بعدشمال مشرق کی سمت میں ایک سفر پر روانہ ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی منزل بحرخزر کے مشرق میں ترکستان کی جانب تھی۔ جب وہ دو پہاڑی سلسلوں کے درمیان پہنچا۔ چونکہ ان دونوں پہاڑی سلسلوں کے اس طرف یاجوج ماجوج کا علاقہ تھا، اس لیے لامحالہ ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہی ہوسکتے ہیں جو بحر خزر (کیسپین) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں تو وہاں اس نے ایسے لوگوں کو پایا جو متمدن دنیا سے بالکل الگ تھلگ زندگی گزارنے کی وجہ سے کوئی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے کسی نہ کسی طرح سے ذوالقرنین کو اپنی مصیبت سنائی کہ ان پہاڑوں کے پیچھے یاجوج ماجوج رہتے ہیں۔ انھیں جب موقع ملتا ہے وہ ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ہمیں بےپناہ نقصان پہنچاتے ہیں، آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کردیجیے جو ہمیں ان کی دست برد سے محفوظ کردے۔ یاجوج ماجوج یاجوج ماجوج سے مراد جیسا کہ اس سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتے رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اٹھ کر ایشیا اور یورپ دونوں طرف رخ کرتے رہے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ یاجوج ماجوج حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی وہ اولاد ہے جو ایشیا کے شمالی علاقوں میں آباد ہوئی۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (باب : 10) ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب : 39۔ 38) میں ان کا علاقہ روس اور توبل اور مسک بتایا گیا ہے۔ حزقی ایل فرماتے ہیں ” اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش، مسک اور توبل کا فرمانروا ہے، متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر۔ “ اور کہہ خداوند یوں فرماتا ہے ” دیکھ اے جوج روش، مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دوں گا اور تجھے لیے پھروں گا اور شمال کے دوراطراف سے چڑھا لائوں گا۔ “ (حزقی ایل 39، 1۔ 2) روش، مسک اور توبل کے نام اب تک رشیا، ماسکو اور توبالسک کی صورت میں موجود ہیں اور یہ علاقے فلسطین سے شمال کے بعید اطراف میں ہیں۔ یاجوج و ماجوج کے قبائل بحر خزر کے شمال کی جانب اور وسطی ایشیا میں منگولیا کے علاقے میں آباد تھے۔ اسرائیلی مؤرخ یوسیفوس ان سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔ ایران پر ان کی تاخت ترکستان کے رستے سے بھی ہوتی تھی اور کوہ قفقاز کے درے کی راہ سے بھی۔ کوہ قفقاز ذوالقرنین کے دارالحکومت سے ٹھیک شمال کو ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ بادشاہ نے درے کو بند کرکے اس خطرے کا سدباب کردینا چاہا ہو۔ لیکن اس کا فوری سبب اس قوم کی اپیل بنی جو براہ راست یاجوج ماجوج کے حملوں کی زد میں تھی۔ ذوالقرنین نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا تو انھوں نے پیشکش کی کہ ہم اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات کے لیے ٹیکس یا خراج دینے کے لیے تیار ہیں تاکہ اس کے مصارف کا بار آپ پر نہ پڑے۔ ذوالقرنین چونکہ عادل اور رحم دل بادشاہ تھا اس نے اس پیشکش کو رد کردیا کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اب چونکہ یہ علاقے میری قلمرو میں شامل ہیں اور یہاں کے رہنے والے میری رعایا ہیں تو اپنی رعایا کی حفاظت کرنا میری قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، اس کے لیے ان سے ٹیکس لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ چناچہ اس نے ان کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے دے رکھا ہے وہ تمہارے ٹیکس سے بہتر بھی ہے اور کافی بھی، کیونکہ ” خیر “ کا معنی بہتر بھی ہوتا ہے اور کافی بھی، یعنی مجھے جو اللہ تعالیٰ نے مالی استحکام دے رکھا ہے تو میرے خزانے اس کام کے لیے کافی ہیں، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ یا ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ تم جو ٹیکس مجھے دو گے نہ جانے تمہارے وسائل اور ذرائع کیسے ہیں جن سے حاصل کرکے تم مصارف پورے کرنے کی کوشش کرو گے، ان میں بیشتر وسائل ناجائز نہیں تو مشکوک ضرور ہوں گے (کیونکہ وہ ایک غیرمہذب اور مذہب سے بیگانہ قوم تھی) ۔ البتہ تم جسمانی مشقت اور افرادی قوت کی فراہمی سے میری مدد کرو، یعنی لیبر تم مہیا کرو باقی تمام مصارف اور ٹیکنیکل گائیڈنس میں مہیا کروں گا۔ دیوار کی تعمیر کے لیے جو خام مال درکار تھا وہ تو یقینا اسی علاقے سے ہی فراہم ہونا تھا، اس لیے ذوالقرنین نے کہا کہ سب سے پہلے تم مجھے لوہے کے ٹکڑے مہیا کرو ” زُبر “” زُبرۃ “ کی جمع ہے، چادروں کو بھی کہتے ہیں اور لوہے کے ٹکڑوں کو بھی۔ میں ان آہن پاروں سے دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلاء کو بھر دوں گا۔ چناچہ جب یہ خلاء بھر دیا گیا تو پھر ذوالقرنین نے اسے دھونکنے کا حکم دیا یعنی اس پر اتنی آگ جلائو کہ لوہا آگ بن جائے۔ اس کے بعد اس پر تانبا پگھلا کر ڈالا گیا۔ اس طرح لوہے اور تانبے کی ایک ایسی دیوار بن گئی جس کو گرانا یا پھاندنا یا اس میں نقب لگانا ناممکن تھا۔ اس دور میں تخریب اور تباہی کے جتنے ذرائع انسانوں نے دریافت کیے تھے اس دیوار کا ان سے ٹوٹنا ممکن نہ تھا۔ اور پھر یاجوج ماجوج جسمانی قوت اور اینٹ پتھر اور بھالوں کے سوا اپنے پاس کوئی جدید ہتھیار نہیں رکھتے تھے، اس لیے ان کے لیے تو اب اس علاقے کو عبور کرنا ناممکن ہوگیا اور یہ اتنا بڑا کارنامہ اور ان لوگوں کے لیے اتنا بڑا احسان تھا کہ اس پر ذوالقرنین کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن وہ چونکہ ایک مومن قانت تھا اس لیے اس کارنامے کو تفاخر کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف منسوب کیا اور یہ کہا کہ اب یاجوج ماجوج تم پر حملہ آور نہیں ہوسکیں گے۔ لیکن یہ مت سمجھو کہ یہ دیوار ہمیشہ کے تحفظ کی ضمامت ہے۔ ہمیشہ کا تحفظ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ممکن ہے زمانہ چند کروٹوں کے بعد اتنی ترقی کرجائے کہ ایسی رکاوٹیں ان کے لیے کوئی رکاوٹیں نہ ہوں اور یا اس سے اشارہ قیامت کی طرف ہے کہ میرے رب کا وعدہ ہے کہ وہ ایک دن ایسا لائے گا جب ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، تو ظاہر ہے کہ یہ دیوار بھی کھڑی نہیں رہے گی۔ تمہیں فکر اس دن کی ہونی چاہیے۔ اس دن تمہیں پروردگار کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ ہم نے سدذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کے بارے میں قرآن کریم اور تاریخ کی روشنی میں بقدرکفایت عرض کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ بعض احادیث میں بڑی تفصیل سے یاجوج ماجوج اور اس کے ضمن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق وضاحت فرمائی گئی ہے۔ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب نے بڑی تفصیل سے احادیث کا ذکر کیا ہے اور آخر میں علامہ سیّد انور شاہ صاحب کے حوالے سے کچھ باتیں نقل کی ہیں جو ان مباحث کے سلسلے میں بحث کے بعض نئے گوشوں کو وا کرتی ہیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر ہم یہاں اسے نقل کررہے ہیں۔ حضرت الاستاذ حجۃ الاسلام سیّدی حضرت مولانا انور شاہ کشمیری قدس سرہ نے اپنی کتاب عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں یاجوج ماجوج اور سد ذوالقرنین کا حال اگرچہ ضمنی طور پر بیان فرمایا ہے مگر جو کچھ بیان کیا ہے وہ تحقیق و روایت کے اعلیٰ معیار پر ہے، آپ نے فرمایا کہ مفسد اور وحشی انسانوں کی تاخت و تاراج سے حفاظت کے لیے زمین پر ایک نہیں بہت سی جگہوں میں سدِّیں (دیواریں) بنائی گئی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف مقامات پر مختلف زمانوں میں بنائی ہیں، ان میں سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوارِ چین ہے، جس کا طول ابوحیان اندلسی (دربارِ ایران کے شاہی مؤرخ) نے بارہ سو میل بتلایا ہے اور یہ کہ اس کا بانی فغفور بادشاہِ چین ہے اور اس کی بنا کی تاریخ ہبوط حضرت آدم (علیہ السلام) سے تین ہزار چار سو ساٹھ سال بعد بتلائی ہے اور یہ کہ اس دیوارِچین کو مغل لوگ اتْکُووَہْ اور ترک لوگ بورقُْورْقَہ کہتے ہیں، اور فرمایا کہ اسی طرح کی اور بھی متعدد دیواریں (سدِّیں) مختلف مقامات پر پائی جاتی ہیں۔ ہمارے خواجہ تاش مولانا حفظ الرحمن سہواری ( رح) نے اپنی کتاب قصص القرآن میں حضرت شیخ ( رح) کے اس بیان کی تاریخی توضیح بڑی تفصیل و تحقیق سے لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج اور شروفساد کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ ایک طرف کا کیشیا کے نیچے بسنے والے ان کے ظلم و ستم کا شکار تھے تو دوسری جانب تبت اور چین کے باشندے بھی ہر وقت ان کی زد میں تھے، انہی یاجوج ماجوج کے شروفساد سے بچنے کے لیے مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر متعدد سدِّیں تعمیر کی گئیں، ان میں سب سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوارِ چین ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ دوسری سدّ وسط ایشیا میں بخارا اور ترمذ کے قریب واقع ہے، اور اس کے محل وقوع کا نام دربند ہے۔ یہ سدّ مشہور مغل بادشاہ تیمور لنگ کے زمانے میں موجود تھی اور شاہ روم کے خاص ہمنشین سیلابرجر جرمنی نے بھی اس کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے اور اندلس کے بادشاہ کسٹیل کے قاصد کلافچو نے بھی اپنے سفرنامہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ 1403 ء میں اپنے بادشاہ کا سفیر ہو کر جب تیمور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس جگہ سے گزرا ہے، وہ لکھتا ہے کہ باب الحدید کی سدّ موصل کے اس راستہ پر ہے جو سمرقند اور ہندوستان کے درمیان ہے۔ (ازتفسیر جواہر القرآن طنطاوی ج 9، ص 198) تیسری سدّ روسی علاقہ داغستان میں واقع ہے، یہ بھی دربند اور باب الابواب کے نام سے مشہور ہے۔ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں، ادریسی نے جغرافیہ میں اور بستانی نے دائرۃ المعارف میں اس کے حالات بڑی تفصیل سے لکھے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : ” داغستان میں دربند ایک روسی شہر ہے، یہ شہر بحرخزر (کاسپین) کے غربی کنارے پر واقع ہے، اس کا عرض البلد 3۔ 43 شمالاً اور طول البلد 15۔ 48 شرقاً ہے اور اس کو دربند نوشیرواں بھی کہتے ہیں اور باب الابواب کے نام سے بہت مشہور ہے۔ “ چوتھی سدّ اسی باب الابواب سے مغرب کی جانب کا کیشیا کے بہت بلند حصوں میں ہے، جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک درہ درہ داریال کے نام سے مشہور ہے۔ اس جگہ یہ چوتھی سدّ جو قفقاز یا جبل قوقا یا کوہ قاف کی سدّ کہلاتی ہے، بستانی نے اس کے متعلق لکھا ہے : ” اور اسی کے (یعنی سد باب الابواب کے) قریب ایک اور سدّ ہے جو غربی جانب بڑھتی چلی گئی ہے، غالباً اس کو اہل فارس نے شمالی بربروں سے حفاظت کی خاطر بنایا ہوگا کیونکہ اس کے بانی کا صحیح حال معلوم نہیں ہوسکا، بعض نے اس کی نسبت سکندر کی جانب کردی ہے اور بعض نے کسریٰ و نوشیرواں کی طرف اور یاقوت کہتا ہے کہ یہ تانبا پگھلا کر اس سے تعمیر کی گئی ہے۔ “ (دائرۃ المعارف جلد 7، ص 651، معجم البدان جلد 8 ص 9) چونکہ یہ سب دیواریں شمال ہی میں ہیں اور تقریباً ایک ہی ضرورت کے لیے بنائی گئی ہیں، اس لیے ان میں سے سدّ ذوالقرنین کونسی ہے، اس کے متعین کرنے میں اشکالات پیش آئے ہیں اور بڑا اختلاط ان آخری دو سدّوں کے معاملہ میں پیش آیا کیونکہ دونوں مقامات کا نام بھی دربند ہے اور دونوں جگہ سدّ بھی موجود ہے، مذکورالصدر چار سدّوں میں سے دیوارِچین جو سب سے زیادہ بڑی اور سب سے زیادہ قدیم ہے اس کے متعلق تو سدّ ذوالقرنین ہونے کا کوئی قائل نہیں اور وہ بجائے شمال کے مشرق اقصیٰ میں ہے اور قرآن کریم کے اشارے سے اس کا شمال میں ہونا ظاہر ہے۔ اب معاملہ باقی تین دیواروں کا رہ گیا جو شمال ہی میں ہیں، ان میں سے عام طور پر مؤرخین مسعودی، اصطخری، حموی وغیرہ اس دیوار کو سدّ ذوالقرنین بتاتے ہیں جو داغستان یا کا کیشیا کے علاقہ باب الابواب کے دربند میں بحر خزر پر واقع ہے، بخارا و ترمذ کے دربند اور اس کی دیوار کو جن مؤرخین نے سدّ ذوالقرنین کہا ہے وہ غالباً لفظ دربند کے اشتراک کی وجہ سے ان کو اختلاط ہوا ہے، اب تقریباط اس کا محل وقوع متعین ہوگیا کہ علاقہ داغستان کا کیشیا کے دربند باب الابواب میں یا اس سے بھی اوپر جبل قفقاز یا کوہ قاف کی بلندی پر ہے اور ان دونوں جگہوں پر سدّ کا ہونا مؤرخین کے نزدیک ثابت ہے۔ ان دونوں میں سے حضرت الاستاذ مولانا سیّد محمد انور شاہ قدس سرہ نے عقیدۃ الاسلام میں کوہ قاف قفقاز کی سدّ کو ترجیح دی ہے کہ یہ سدّ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ہے۔ (عقیدۃ الاسلام ص 297) سدّ ذوالقرنین اس وقت تک موجود ہے اور قیامت تک رہے گی یا وہ ٹوٹ چکی ہے ؟ آج کل تاریخ و جغرافیہ کے ماہرین اہل یورپ اس وقت ان شمالی دیواروں میں سے کسی کا موجود ہونا تسلیم نہیں کرتے اور نہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اب بھی یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہے، اس بنا پر بعض اہل اسلام مؤرخین نے بھی یہ کہنا اور لکھنا شروع کردیا ہے کہ یاجوج ماجوج جن کے خروج کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے وہ ہوچکا ہے، بعض نے چھٹی صدی ہجری میں طوفان بن کر اٹھنے والی قوم تاتار ہی کو اس کا مصداق قرار دے دیا ہے، بعض نے اس زمانے میں دنیا پرز غالب آجانے والی قوموں روس اور چین اور اہل یورپ کو یاجوج ماجوج کہہ کر اس معاملہ کو ختم کردیا ہے مگر جیسا کہ اوپر بحوالہ روح المعانی بیان ہوچکا ہے کہ یہ سراسر غلط ہے، احادیث صحیحہ کے انکار کے بغیر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس خروج یاجوج ماجوج کو قرآن کریم نے بطور علامتِ قیامت بیان کیا اور جس کے متعلق صحیح مسلم کی حدیث نواس بن سمعان وغیرہ میں اس کی تصریح ہے کہ یہ واقعہ خروجِ دجال اور نزول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور قتل دجال کے بعد پیش آئے گا۔ وہ واقعہ ہوچکا، کیونکہ خروجِ دجال اور نزول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بلاشبہ اب تک نہیں ہوا۔ البتہ یہ بات بھی قرآن و سنت کی کسی نص صریح کے خلاف نہیں ہے کہ سدذوالقرنین اس وقت ٹوٹ چکی ہو اور یاجوج ماجوج کی بعض قومیں اس طرف آچکی ہوں بشرطیکہ اس کو تسلیم کیا جائے کہ ان کا آخری اور بڑا ہلہ جو پوری انسانی آبادی کو تباہ کرنے والا ثابت ہوگا وہ ابھی نہیں ہوا، بلکہ قیامت کی ان بڑی علامات کے بعد ہوگا جن کا ذکر اوپر آچکا ہے یعنی خروجِ دجال اور نزول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ۔ حضرت الاستاذ حجۃ الاسلام علامہ کشمیری ( رح) کی تحقیق اس معاملہ میں یہ ہے کہ اہل یورپ کا یہ کہنا تو کوئی وزن نہیں رکھتا کہ ہم نے ساری دنیا چھان ماری ہے ہمیں اس دیوار کا پتہ نہیں لگا کیونکہ اول تو خود انہی لوگوں کی یہ تصریحات موجود ہیں کہ سیاحت اور تحقیق کے انتہائی معراج پر پہنچنے کے باوجود آج بھی بہت سے جنگل اور دریا اور جزیرے ایسے باقی ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہوسکا۔ دوسرے یہ بھی احتمال بعید نہیں کہ اب وہ دیوار موجود ہونے کے باوجود پہاڑوں کے گرنے اور باہم مل جانے کے سبب ایک پہاڑ ہی کی صورت اختیار کرچکی ہو لیکن کوئی نص قطعی اس کے بھی منافی نہیں کہ قیامت سے پہلے یہ سدّ ٹوٹ جائے یا کسی دوردراز کے طویل راستہ سے یاجوج ماجوج کی کچھ قومیں اس طرف آسکیں۔ اس سدّ ذوالقرنین کے تاقیامت باقی رہنے پر بڑا استدلال تو قرآن کریم کے اس لفظ سے کیا جاتا ہے کہ فَاَذَا جَآئَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَہٗ دَکَّآئَ یعنی ذوالقرنین کا یہ قول کہ جب میرے رب کا وعدہ آپہنچے گا (یعنی خروج یاجوج ماجوج کا وقت آجائے گا) تو اللہ تعالیٰ اس آہنی دیوار کو ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کردیں گے۔ اس آیت میں وَعْدُ رَبِّیْ کا مفہوم ان حضرات نے قیامت کو قرار دیا ہے حالانکہ الفاظِ قرآن اس بارے میں قطعی نہیں کیونکہ وَعْدُ رَبِّیْکا صریح مفہوم تو یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا راستہ روکنے کا جو انتظام ذوالقرنین نے کیا ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہمیشہ اسی طرح رہے، جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ ان کا راستہ کھل جائے تو یہ دیوار منہدم و مسمار ہوجائے گی، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ بالکل قیامت کے متصل ہو۔ چناچہ تمام حضرات مفسرین نے وَعْدُ رَبِّیْکے مفہوم میں دونوں احتمال ذکر کیے ہیں۔ تفسیر بحر محیط میں ہے والوعد یحتمل ان یرادبہ یوم القیمۃ و ان یرادبہ وقت خروج یاجوج وماجوج۔ اس کا تحقق یوں بھی ہوسکتا ہے کہ دیوار منہدم ہو کر راستہ ابھی کھل گیا ہو اور یاجوج ماجوج کے حملوں کی ابتداء ہوچکی ہو، خواہ اس کی ابتداء چھٹی صدی ہجری کے فتنہ تاتار سے قرار دی جائے یا اہل یورپ اور روس و چین کے غلبہ سے، مگر یہ ظاہر ہے کہ ان متمدن قوموں کے خروج اور فساد کو جو آئینی اور قانونی رنگ میں ہورہا ہے وہ فساد نہیں قرار دیا جاسکتا جس کا پتہ قرآن و حدیث دے رہے ہیں کہ خالص قتل و غارت گری اور ایسی خونریزی کے ساتھ ہوگا کہ تمام انسانی آبادی کو تباہ و برباد کردے گا بلکہ اس کا حاصل پھر یہ ہوگا کہ انہی مفسد یاجوج ماجوج کی کچھ قومیں اس طرف آکر متمدن بن گئیں۔ اسلامی ممالک کے لیے بلاشبہ وہ فساد عظیم اور فتنہ عظیمہ ثابت ہوئیں مگر ابھی ان کی وحشی قومیں جو قتل و خونریزی کے سوا کچھ نہیں جانتیں وہ تقدیری طور پر اس طرف نہیں آئیں اور بڑی تعداد ان کی ایسی ہی ہے کہ ان کا خروج قیامت کے بالکل قریب میں ہوگا۔ دوسرا استدلال ترمذی اور مسنداحمد کی اس حدیث سے کیا جاتا ہے جس میں مذکور ہے کہ یاجوج ماجوج اس دیوار کو روزانہ کھودتے رہتے ہیں مگر اول تو اس حدیث کو ابن کثیر نے معلول قرار دیا ہے، دوسرے اس میں بھی اس کی کوئی تصریح نہیں کہ جس روز یاجوج ماجوج انشاء اللہ کہنے کی برکت سے اس کو پار کرلیں گے وہ قیامت کے متصل ہی ہوگا اور اس کی بھی اس حدیث میں کوئی دلیل نہیں کہ سارے یاجوج ماجوج اسی دیوار کے پیچھے رکے ہوئے رہیں گے، اگر ان کی کچھ جماعتیں یاقو میں کسی دوردراز کے راستہ سے اس طرف آجائیں جیسا کہ آج کل کے طاقتور بحری جہازوں کے ذریعے ایسا ہوجانا کچھ مستبعد نہیں اور بعض مؤرخین نے لکھا بھی ہے کہ یاجوج ماجوج کو طویل بحری سفر کرکے اس طرف آنے کا راستہ مل گیا ہے تو اس حدیث سے اس کی بھی نفی نہیں ہوتی۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل صریح اور قطعی نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ سدّ ذوالقرنین قیامت تک باقی رہے گی یا ان کے ابتدائی اور معمولی حملے قیامت سے پہلے اس طرف کے انسانوں پر نہیں ہوسکیں گے۔ البتہ ! وہ انتہائی خوفناک اور تباہ کن حملہ جو پوری انسانی آبادی کو برباد کردے گا اس کا وقت بالکل قیامت کے متصل ہی ہوگا جس کا ذکر بار بار آچکا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص کی بنا پر نہ یہ قطعی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ سدّ یاجوج ماجوج ٹوٹ چکی ہے اور راستہ کھل گیا ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ازروئے قرآن و سنت اس کا قیامت تک قائم رہنا ضروری ہے۔ احتمال دونوں ہی ہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بحقیقۃ الحال۔
Top