بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
(کاف ھا یا عین ص)
کٓھٰیٰـعٓصٓ۔ ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا۔ (مریم : 1، 2) (کاف ھا یا عین ص) یہ ذکر ہے آپ ﷺ کے رب کی رحمت کا جو اس نے اپنے بندے زکریا پر فرمائی۔ ) حروف مقطعات کٓھٰیٰـعٓصٓ … یہ حروف مقطعات میں سے ہے۔ حروف مقطعات کی وضاحت ہم سورة البقرہ کے آغاز میں کرچکے ہیں۔ اس پر اگرچہ مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں تاہم قشیری نے حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) سے اس کا ایک مفہوم نقل کیا ہے۔ ہم بھی دلچسپی کے لیے اسے نقل کررہے ہیں۔” کاف “ سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے لیے کافی ہے۔ اور ” ھا “ سے مراد ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہدایت دینے والا ہے۔” یا “ سے مراد اس کا ید یعنی ہاتھ ہے جو ساری کائنات پر غالب ہے۔ ” عین “ سے مراد عالم ہے کہ وہ سب کو جاننے والا ہے۔ اور ” ص “ سے مراد صادق ہے یعنی اپنے وعدے کا سچا ہے۔ قرطبی اور روح المعانی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ آپ ( رض) دعا مانگتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے یاکٓھٰیٰـعٓصٓ اغفرلی ” اے کاف ہا یا عین ص مجھے بخش دے۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ( رض) کے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے۔ بعض علماء نے اس کو اسم اعظم کہا ہے۔ ذکر کا مفہوم ذکر…بعض اہل علم کے نزدیک اسی طرح اُذْکُرْکے معنی میں ہے۔ جس طرح حضرت مریم [ سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) تک تمام انبیاء کرام کا ذکر بصیغہاُذْکُرْ ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے یہ کہا جارہا ہے کہ غافل انسانوں نے انبیاء کرام کے ذکر کو بھلا دیا اور ان سے جو حکمتیں اور نصیحتیں حاصل کی جاسکتی تھیں ان سے روگردانی کی۔ آپ ﷺ ازسرنو لوگوں کو اس کی یاد دہانی کیجیے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بعض دیگر اہل علم کے نزدیک ذکر سے پہلے ہٰذا محذوف ہے۔ اس سورت میں ہٰذا مبتدا ہوگا اور بعد کا فقرہ اس کی خبر ہوگی۔ اس جملے میں تمام انسانوں کو عموماً اور مشرکینِ مکہ کو خصوصاً توجہ دلائی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے تمام بندوں پر برسنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ جب کوئی بندہ اس کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے تو وہ اس کی رحمت سے محروم نہیں رہتا۔ اور اسی ضمن میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی جارہی ہے کہ اس کی رحمت کا محتاج جس طرح ہر انسان ہے اسی طرح اس کے مقرب بندے بھی اس کی رحمت کے محتاج ہیں۔ وہ بھی رات کی تنہائیوں میں اپنے رب ہی کو پکارتے ہیں اور پھر جس عاجزی، فروتنی اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے پکارتے ہیں اس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح بچہ ہمیشہ دودھ اپنی ماں کے سینے میں ڈھونڈتا ہے کسی اور طرف توجہ نہیں کرتا اسی طرح بندوں کو بھی اپنے رب کے آستانے سے ہٹ کر کسی اور آستانے پر نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ آستانہ ان کے رب کا آستانہ ہے۔ رب نے اپنے ذمے یہ کام لے رکھا ہے کہ میں تمام مخلوقات کو عموماً اور اپنے بندوں کو خصوصاً ضروریات زندگی فراہم کروں گا۔ ان کی ہر طرح کی ضرورتیں جو ان کی ظاہری اور معنوی تربیت کی ضرورت ہیں، مہیا کروں گا کیونکہ یہ ربوبیت کا تقاضا ہے کہ انھیں مہیا کی جائیں۔ بچہ جب تک بچپن میں ہے تو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اس کے بچپنے کی ضروریات مہیا کرتی ہے۔ پھر وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے تو اس کی ضروریات بھی بڑھتی چلی جاتی اور تبدیل ہوتی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت بھی ساتھ ساتھ ان تمام تبدیلیوں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے کیونکہ ربوبیت کا مفہوم ہے اِنْشَائُ الْشَّیِٔ حَالاً فَحَالاً اِلٰی حَدِّالتَّمَامِ ۔ دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ یوں تو پروردگار کی عنایات اور بوبیت کا فیضان سب کے لیے ہے حتیٰ کہ جو اس کا انکار کرنے والے اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے ہیں وہ بھی اس سے محروم نہیں رہتے۔ جو اسے ماننے سے انکار کرتا ہے، انکار کے لیے زبان بھی اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے اور اس کے انکار پر کبھی اس کی روزی بند نہیں کی جاتی۔ لیکن وہ خصوصی عنایات جو اللہ تعالیٰ کی اپنے بعض بندوں پہ ہوتی ہیں ان کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ عبدیت کے تقاضے پیش نظر رہیں۔ چناچہ یہاں حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لیے عبدہ کا لفظ لا کر ایک تو ان کے خصوصی مرتبہ و مقام کا اظہار ہے اور دوسرا یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ایسی خصوصی عنایات کے لیے عبدیت کے وہ تقاضے ملحوظ رکھے جانے چاہئیں جو حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں ملحوظ رکھے تھے۔ عبد کی وضاحت عبد ایک ایسا لفظ ہے جس کا اطلاق تمام ذی روح اور ذی شعور مخلوقات پر ہوتا ہے۔ جن بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، فرشتے بھی اور انسان بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں حتیٰ کہ اس کو ماننے والے بھی اس کے بندے ہیں اور انکار کرنے والے بھی اس کے بندے ہیں، لیکن عَبْدُہٗ کا اعزاز اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا : ؎ عبد دیگر عبدہ چیزے دگر ” عبد ہونا اور بات ہے اور عَبْدُہٗ ہونا اور بات ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے لیے بھی خصوصی طور پر عَبْدُہٗ کا اعزاز پسند فرمایا ہے۔ چناچہ یہاں حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لیے یہ اعزاز دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی ہوں گے، لیکن بعض مفسرین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ بائیبل بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ چناچہ بائبل کی وضاحتوں کو دیکھتے ہوئے صاحب تفہیم القرآن نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بارے میں ایک نوٹ لکھا ہے ہم اسے یہاں نقل کررہے ہیں۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تعارف یہ حضرت زکریا (علیہ السلام) جن کا ذکر یہاں ہورہا ہے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے خاندان سے تھے۔ ان کی پوزیشن ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کے نظام کہانت (Priesthood) کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کے 12 قبیلوں میں تو سارا ملک تقسیم کردیا گیا اور تیرہواں قبیلہ (یعنی لادی بن یعقوب کا گھر) مذہبی خدمات کے لیے مخصوص رہا۔ پھر بنی لادی میں سے بھی اصل وہ خاندان جو ” مقدس میں خداوند کے آگے نجور جلانے کی خدمت “ اور ” پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام “ کرتا تھا، حضرت ہارون (علیہ السلام) کا خاندان تھا۔ باقی دوسرے بنی لادی مقدس کے اندر نہیں جاسکتے تھے بلکہ خداوند کے گھر کی خدمت کے وقت صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے۔ سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو باری باری سے مقدس کی خدمت کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا (علیہ السلام) تھے۔ اپنے خاندان کی باری کے دنوں میں یہی مقدس میں جاتے اور خداوند کے حضور نجور جلانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب تواریخ اول۔ باب 23، 24)
Top