Ruh-ul-Quran - Maryam : 22
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا
فَحَمَلَتْهُ : پھر اسے حمل رہ گیا فَانْتَبَذَتْ : پس وہ چلی گئی بِهٖ : اسے لیکر مَكَانًا : ایک جگہ قَصِيًّا : دور
پس حضرت مریم نے اس بچہ کا حمل اٹھا لیا اور وہ اس کو لے کر ایک دور کے مقام کو چلی گئیں۔
فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا۔ (مریم : 22) (پس حضرت مریم نے اس بچہ کا حمل اٹھا لیا اور وہ اس کو لے کر ایک دور کے مقام کو چلی گئیں۔ ) دُور کی جگہ سے مراد بیت اللحم ہے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حاملہ ہوگئیں، جب وہ پیٹ میں حمل کو محسوس کرنے لگیں تو اس خیال نے انھیں پریشان کردیا کہ آہستہ آہستہ یہ راز دوسروں پر بھی آشکارا ہونے لگے گا تو میں اس حجرے میں اعتکاف کی حالت میں محصور ہونے کے باوجود لوگوں کو کیسے مطمئن کرسکوں گی کہ یہ ایک راز الٰہی ہے اور اگر انھیں بتا بھی دوں تو اسے تسلیم کون کرے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ کہ میرے اپنے اور پرائے مجھ پر حملہ آور ہوں گے، طرح طرح کی الزام تراشیاں ہوں گی، لوگ میرا جینا دوبھر کردیں گے، میرے خاندان کے لیے میرا وجود ایک تہمت بن کر رہ جائے گا، لوگ کہیں گے کہ ایک نیک نام خاندان کی لڑکی جو بظاہر اعتکاف میں رہتی تھی لیکن اس کی سیرت ایسی گھنائونی تھی کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ ان باتوں کو سوچ کر حضرت مریم نے عافیت اسی میں سمجھی کہ یہاں سے نکل کر کسی دوردراز گوشے میں چلی جائے۔ قرآن کریم نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دور کا گوشہ کون سا تھا ؟ لیکن انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیت اللحم چلی گئی تھیں۔ یہاں ایک لمحہ رک کر اپنے ذہن سے پوچھئے کہ جب کوئی شادی شدہ لڑکی حاملہ ہوتی ہے اور وہ بھی شادی کے بعد پہلی دفعہ تو کیا وہ خوش ہونے کی بجائے اس طرح کی پریشانیوں میں گھر جاتی ہے اور وہ اندیشہ ہائے دور دراز کو محسوس کرکے اپنا گھر چھوڑ دیتی ہے، نہ اپنے میکے رہتی ہے اور نہ اپنے سسرال جاتی ہے۔ لیکن حضرت مریم کا یہ طرزعمل جس کی قرآن کریم تصویب کررہا ہے، کیا بتانے کے لیے کافی نہیں کہ آپ شادی شدہ نہ تھیں۔ یہ سب کچھ کنوارپن میں ہور ہا تھا اور اسی لیے آپ اپنی اس حالت کو چھپانا چاہتی تھیں۔ قَصِیٌّ … دور کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں مکان کی صفت واقع ہوا ہے اس لیے اس کا معنی دور جگہ ہوگا، یعنی ایسی جگہ جو حضرت مریم کا مامن بن سکے۔
Top