Ruh-ul-Quran - Maryam : 29
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ١ؕ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا
فَاَشَارَتْ : تو مریم نے اشارہ کیا اِلَيْهِ : اس کی طرف قَالُوْا : وہ بولے كَيْفَ نُكَلِّمُ : کیسے ہم بات کریں مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں صَبِيًّا : بچہ
(مریم نے اس (بچہ) کی طرف اشارہ کیا، لوگ کہنے لگے ہم اس سے کس طرح بات کریں جو ابھی گود میں ( کمسن) بچہ ہے۔
فَاَشَارَتْ اِلَیْہِ ط قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِیًّا۔ (مریم : 29) (مریم نے اس (بچہ) کی طرف اشارہ کیا، لوگ کہنے لگے ہم اس سے کس طرح بات کریں جو ابھی گود میں (کمسن) بچہ ہے۔ ) نصرتِ خداوندی کا ظہور لوگوں کے مسلسل نفرت سے بھرپور سوالات پر حضرت مریم نے کچھ کہنے کی بجائے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا مقصد یہ تھا کہ میں چونکہ خاموشی کا روزہ رکھ چکی ہوں، میں کوئی جواب نہیں دے سکتی، اس بچے سے پوچھو۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے فرزند بخشا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نشانی بن کر آیا ہے۔ اس لیے اپنے اندر غیرمعمولی صفات رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ کام سونپا ہے کہ مجھ پر جس طرح تہمتیں باندھی جارہی ہیں وہی اس کا جواب دے گا۔ لیکن لوگوں نے حضرت مریم کے اس اشارے کو ایک مذاق سمجھا اور نہایت برہم ہو کر کہنے لگے کہ تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہی ہو، خود خاموشی کی تصویر بنی بیٹھی ہو اور ہمیں اس شیرخوار بچے سے گفتگو کرنے کے لیے کہہ رہی ہو جو ابھی جھولے میں جھول رہا ہے۔ پیشِ نظر آیت کا وہ مفہوم جو الفاظ سے واضح ہورہا ہے اور حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کے تسلسل میں نہایت فطری معلوم ہوتا اسے ہم نے بیان کردیا لیکن بعض لوگوں نے ” کان “ پر بحث چھیڑ کر اپنے غلط عقیدے کے حق میں دلیل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہم یہاں ” ضیاء القرآن “ سے اس بحث کو نقل کررہے ہیں۔ کان فعل ناقص ہے اور ماضی کا صیغہ ہے جو گزشتہ زمانہ پر دلالت کرتا ہے۔ اس طرح آیت کا معنی یوں ہوگا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو گزشتہ زمانے میں پنگھوڑے میں بچہ تھا۔ یہ معنی کسی طرح پسندیدہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے علماء اسلام طاب اللہ ثراھم نے اس آیت کے ضمن میں کان پر بڑی مفید بحث کی ہے۔ ابوعبیدہ (امام نحو و ادب) نے کہا ہے کہ یہاں کان زائدہ ہے اور محض تاکید کا فائدہ دیتا ہے اور کسی زمانہ پر دلالت نہیں کرتا۔ کان زائدۃ لمجرد التاکید من غیردلالۃ علی الزمان۔ (روح المعانی) بعض نے کہا ہے کہ یہ تامہ ہے۔ ان دونوں صورتوں پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر کان زائدہ ہوتا تو ” صَیِّبًا “ خبر کو کیسے نصب دیتا اور اگر کانتامہ تھا تو اسے خبر کی ضرورت ہی نہ تھی حالانکہ یہاں ” صَیِّبًا “ خبر مذکور ہے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ ” صَیِّبًا “ خبر نہیں بلکہ حال ہے اور اسی وجہ سے منصوب ہے۔ علامہ ابن حیان اندلسی یہ لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ کان ناقصہ ہے اور ” صَیِّبًا “ اس کی خبر ہے اور کان زمانہ ماضی پر دلالت کرنے کے ساتھ زمانہ حال میں اس فعل کے پائے جانے کی نفی نہیں کرتا بلکہ یہ بتاتا ہے کہ زمانہ ماضی میں پائے جانے کے ساتھ ساتھ وہ فعل زمانہ حال میں بھی بدستور پایا جارہا ہے جیسے کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا کہ پہلے بھی اللہ تعالیٰ غفورورحیم تھا اور اب بھی ہے یا جیسے ولاتقربوا الزنی انہ کان فاحشہ زنا کے قریب تک بھی نہ جاؤ۔ یہ پہلے بھی بےحیائی کا کام تھا اور اب بھی ہے۔ یہ نہیں کہ گزشتہ زمانہ میں تو زنا فحش و قبیح تھا اور اب نہیں ہے۔ والظاہرا نھانا قصۃ فتکون بمعنی صارا وتبقی علی مدلولھا من اقتران مضمون الجملۃ بالزمان الماضی ولایدل ذلک علی الانقطاع کمالم یدل فی قولہ وکان اللہ غوراً رحیمًا وفی قولہ ولاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ۔ والمعنی کان وھوالان علی ماکان ولذلک عبربعض اصحابنا ان کان ہذہ بانھا ترادف لم یزل۔ (البحر المحیط) دو قابل توجہ باتیں اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جھولے میں جھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قدرت سے قوم کے سامنے اپنا تعارف رکھا ہے جس سے حضرت مریم پر کیے جانے والے ایک ایک سوال کا جواب دے دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اسے پڑھیں ہمیں دو باتوں پر توجہ دینی چاہیے۔ ایک تو یہ بات کہ یہ غیرمعمولی واقعہ کیوں پیش آیا اور دوسری یہ بات کہ پنگھوڑے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کیوں بلوایا گیا جبکہ حضرت مریم ہی سے اس طرح جواب دلوایا جاسکتا تھا جس سے کسی حد تک قوم مطمئن ہوجاتی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک خاص حد تک امتحان لیتا ہے۔ ان کی بندگی اور وفاداری کو آزماتا ہے۔ لیکن جب وہ ہر مرحلہ میں سو فیصد کامیاب ثابت ہوتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ حضرت مریم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انھیں ایک خاص امانت حوالے کی گئی، لیکن اس امانت کا حق ادا کرنے کے راستے میں قدم قدم پر بےپناہ رکاوٹیں تھیں، تہمتوں کے اندیشے تھے اور خاندانی رسوائی کا سامان تھا۔ لیکن حضرت مریم نے نہایت صبر کے ساتھ اس امانت کا بوجھ اٹھایا۔ پھر جب اسے ادا کرنے کا وقت آیا تو اگرچہ ان کی ہمت چٹخنے لگی لیکن ان کی زبان پر شکوہ کبھی نہیں آیا۔ گھر چھوڑ کر ویرانے میں جا بیٹھیں۔ نہ جانے وہاں تنہائی میں کیسے وقت گزرا اور کیسے اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئیں۔ جب چلنے پھرنے کے قابل ہوئیں تو نہایت استقامت کے ساتھ اپنے اہل خانہ میں واپس آئیں۔ یہاں تک کہ جب انھوں نے ہر قدم پر کامیابی سے ہر آزمائش سے گزر کر دکھا دیا اور ہرحال میں صابر و شاکر رہیں تو تب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا دروازہ کھلا تو آپ پر لگنے والی تہمتوں اور رسوائیوں کا جواب دلوانے کے لیے اس نوزائیدہ بچے کو مکلف بنایا اور ہمت عطا کی اور حضرت مریم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ٹھہریں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حالات سے گزرتے ہوئے اب مکمل طور پر اپنے آپ کو نااہل ثابت کرچکے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی محرومی کو مکمل کرنے اور انھیں سزا دینے کے فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے پسند فرمایا کہ ایک پیغمبر ان کی طرف ایسا بھیجا جائے جو اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہو۔ وہ اپنی ولادت ہی سے پہچانا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانی بن کر آیا ہے۔ اس کا بچپن، اس کے لیے مزید گواہی کا باعث بنے، پھر اس کی نبوت کی زندگی ایسے معجزات کے ظہور سے روشن ہو جو کسی پیغمبر کے ہاتھ ہی سے ظاہر ہوسکتے ہیں۔ اس طرح سے بنی اسرائیل پر پوری طرح سے حجت تمام کردی گئی، پھر جب وہ اپنی کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ کر اور کھلے کانوں سے سب کچھ سن کر بھی بجائے ایمان لانے کے اللہ تعالیٰ کی اس مقرب ترین ہستی کے اس حد تک دشمن بن کر اٹھے کہ اپنے تئیں انھیں صلیب دینے میں کامیاب ہوگئے تو تب اللہ تعالیٰ نے انھیں سزا دیتے ہوئے تاریخ میں عبرت بنادیا۔
Top