Ruh-ul-Quran - Maryam : 3
اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا
اِذْ : جب نَادٰى : اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب نِدَآءً : پکارنا خَفِيًّا : آہستہ سے
جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔
اِذْنَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا۔ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّلَمْ اَکُنْ م بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا۔ (مریم : 3، 4) (جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔ عرض کی اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور اور بوسیدہ ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے (بالکل سفید ہوگیا ہے) اور اے میرے رب میں تجھے پکار کے کبھی محروم نہیں رہا۔ ) دُعا کے آداب یہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی وہ دعا ہے جو آپ ( علیہ السلام) نے فرزند کی ولادت کے لیے کی ہے۔ ہم سورة ال عمران میں اس کی کسی حد تک وضاحت کرچکے ہیں۔ اسرائیلی روایات کے مطابق اس وقت آپ ( علیہ السلام) کی عمر 70 سال اور بعض روایات کے مطابق 120 سال تھی۔ اور آپ ( علیہ السلام) کی اہلیہ محترمہ کی عمر 98 سال ہوگئی تھی اور ابھی تک آپ ( علیہ السلام) کے ہاں کوئی فرزند تولد نہ ہوا تھا۔ معلوم ہوتا ہے یہ دعا آپ ( علیہ السلام) نے ہیکل سلیمانی میں اعتکاف کی حالت میں کی۔ اس کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ دعا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہوتی ہے اس کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ دعا کے حقیقی آداب کیا ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے یہ دعا نہایت خاموشی سے کی ہے۔ رات کے ایسے حصے میں جبکہ دیکھنے اور سننے والا کوئی نہ تھا اور ہر سو ماحول پر سَنّاٹا طاری تھا۔ سونے والے گہری نیند کے مزے لوٹ رہے تھے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) ایسی گھمبیر تنہائی میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلائے اظہارِ مدعا کررہے تھے۔ قرآن کریم نے بھی ہمیں جو دعا کے آداب سکھائے ہیں اس میں یہی فرمایا گیا ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور نہایت خاموشی سے پکارو اور جو مانگنا چاہو اسی سے مانگو کیونکہ تنہائی اور خلوت کی دعائیں عموماً ریا اور دکھاوے سے پاک ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ چونکہ سینوں کے بھید جانتا ہے اس لیے اس کے سامنے ایسی دعائیں جس میں ریا کا شائبہ بھی ہو کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ دوسری خوبی دعا کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے عرض مدعا سے پہلے تمہید میں ایسی باتیں عرض کی ہیں جس میں اگر ایک طرف انھوں نے اپنا سینہ چیر کے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے درِرحمت پر اس طرح دستک دی ہے کہ رحمت کو بھی پیار آنے لگا ہوگا۔ اپنی جسمانی کمزوری اور ناتوانی کو سفارش کے طور پر پیش کیا ہے کیونکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور اور ناتوان بندوں پر ہمیشہ مہربان رہتا ہے اور جب کمزوری اور ناتوانی بھی اس انتہا کو پہنچ جائے کہ اس کے بعد مایوسی کے سوا اور کچھ نظرنہ آتا ہو تو اللہ تعالیٰ کے طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں ہونے دیتا اور پھر اپنی دعا میں مزید اپیل پیدا کرنے کے لیے ایک اور بات بھی فرمائی ہے کہ میں تو ہمیشہ سے اسی گھر کا گدارہا ہوں اور یہی وہ دروازہ ہے جہاں سے میری امیدیں پوری ہوتی رہی ہیں۔ میں اس کے علاوہ کسی اور دروازے کو نہیں جانتا۔ اب جبکہ ضرورت ایسی آپڑی ہے کہ تیرے سوا کوئی پوری بھی نہیں کرسکتا تو میں تیرا دروازہ چھوڑ کر کہاں جاؤں۔
Top