Ruh-ul-Quran - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
بچے نے جواب دیا، میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے۔
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ قف ط اٰ تٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ ص وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا۔ وَّبَرًّا م بِوَالِدَتِیْ ز وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ (مریم : 30، 31، 32) (بچے نے جواب دیا، میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے۔ اور اس نے مجھے سرچشمہ خیروبرکت ٹھہرایا ہے، میں جہاں کہیں بھی ہوں، اور اس نے مجھے نماز ادا کرنے کا حکم دیا اور زکوٰۃ دینے کا، میں جب تک زندہ رہوں۔ اور مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے، مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا ہے۔ ) گہوارے میں حضرت مسیح کے ارشادات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دودھ پی رہے تھے۔ لوگوں کی باتیں اور ملامت سن کر دودھ چھوڑ دیا اور اپنی بائیں کروٹ پر سہارا لے کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہم اسے چار پر تقسیم کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اس ارشاد کی ضرورت شاید اس لیے محسوس کی گئی کہ میری غیرمعمولی ولادت کو دیکھ کر اور جھولے میں میری حیران کن باتوں کو سن کر کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ میں شاید انسان نہیں کچھ اور ہوں اور میرے اندر خدائی کے اوصاف پائے جاتے ہیں اور میں کوئی مافوق البشر ہستی ہوں۔ میں صرف ایک اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ نہ خدا ہوں اور نہ خدا کا بیٹا۔ عبرانی زبان میں ابن کا لفظ بندے اور بیٹے دونوں کے لیے آتا ہے۔ موقع محل سے اس کا تعین کیا جاتا ہے۔ عبرانی زبان میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ جملہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہوں ان کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اس کا یہ مطلب لینے کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ میرا اللہ تعالیٰ سے وہ رشتہ ہے جو بیٹے کا باپ سے ہوتا ہے بلکہ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں کیونکہ ابن کا معنی جیسا کہ عرض کیا عبرانی میں جیسے بیٹا ہے اس طرح بندہ بھی ہے۔ پروردگار کو تو معلوم تھا کہ آگے چل کر پال کی کوششوں سے عیسائیوں میں تثلیث کا فتنہ اٹھایا جائے گا اور جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر خدائی میں حصہ دار بنادیا جائے گا۔ اس لیے اس کا صحیح مفہوم بیان کرتے ہوئے پہلی بات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، میں اللہ تعالیٰ کی خدائی میں شریک نہیں ہوں بلکہ اس کی بندگی کا پابند ہوں۔ دوسری یہ بات ارشاد فرمائی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ یعنی اس شیرخوارگی کی عمر میں نبوت اور کتاب مجھے عطا فرما دی گئی ہے حالانکہ کسی پیغمبر کو چالیس سال کی عمر سے پہلے نبوت اور کتاب نہیں ملتی۔ مفسرین نے اس کی وضاحت میں مختلف باتیں کہی ہیں۔ 1 بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں انھیں نبوت اور کتاب سے سرفراز فرما دیا تھا، لیکن علامہ قرطبی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ 2 علامہ قرطبی اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ جو چیز علم الٰہی میں مقدر ہوچکی ہو وہ اگرچہ وقوع پذیر نہ ہو پھر بھی اس کو زمانہ ماضی سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے واقعہ ہونے میں کسی قسم کا شائبہ نہیں۔ ویسے بھی عربی زبان میں یہ قاعدہ ہے اور قرآن کریم نے بھی کئی مقامات پر اسے اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے کہ جب کسی چیز کے بارے میں یہ کہنا ہو کہ یہ یقینا ہو کے رہے گی تو اسے ماضی کی صورت میں بیان کرتے ہیں یعنی یوں کہیں گے کہ یہ کام ہوگیا ہے، یہ بات ہوگئی ہے، یہ چیز ہوگئی ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کا ہونا یقینی ہے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے نبوت اس وقت عطا کردی گئی تھی جبکہ آدم (علیہ السلام) ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ ان کا خمیر ہی تیار ہورہا تھا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے لیے عطائے نبوت کا وعدہ قطعی اور یقینی تھا۔ یہاں بھی اسی یقینی نبوت اور کتاب کو ماضی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے حضرت مریم کے دامن عفت پر لگے ہوئے تہمت کے داغوں کو دور کرنا بھی مقصود ہے۔ وہ اس طرح کہ وہ بچہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی نشانی بنایا اور جھولے میں جس نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور یہ خبر دی کہ اللہ تعالیٰ مجھے کتاب بھی عطا کرے گا اور یہ دونوں باتیں اس قدر یقینی ہیں گویا کہ وہ وقوع پذیر ہوچکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو بچہ اللہ تعالیٰ سے اتنا قرب رکھتا ہے اور ایسے کمالات کا حامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے سرچشمہ خیروبرکت بنایا ہے کیا وہ کسی فاحشہ عورت کا بیٹا ہوگا، ہرگز نہیں۔ اس کی ماں تو یقینا ایک عفیفہ زاہدہ، صدیقہ اور قانتہ ہوگی۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے زندگی بھر کے لیے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کی ہدایت فرمائی ہے۔ قرآن کریم کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کا لفظ زیادہ تاکید کے لیے آتا ہے۔ یہاں بھی معلوم ہوتا ہے۔ یہی بتلانا مقصود ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کی خصوصی طور پر تاکید کی ہے کیونکہ نماز اور زکوٰۃ ایسی عبادتیں ہیں جو تمام دین و شریعت کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس وجہ سے تمام آسمانی شرائع میں ان کا ذکر آتا ہے۔ ان کی ظاہری شکلیں مختلف ادیان میں مختلف رہی ہیں لیکن بندگی رب اور ہمدردیِ خلق کی روح ان کی ہر شکل میں محفوظ رہی ہے۔ نماز آدمی کو اس کے رب سے صحیح طور پر جوڑتی ہے اور زکوٰۃ سے اس کا تعلق خلق کے ساتھ استوار ہوتا ہے۔ انھیں دونوں چیزوں کی استواری پر تمام دین کے قیام کا انحصار ہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو کبھی مالدار ہی نہیں ہوئے۔ نہ گھر بنایا اور نہ کچھ جمع کیا، تو پھر زکوٰۃ کا ان کو حکم دینا کس بنا پر ہے ؟ تو اس کا مقصد واضح ہے کیونکہ شریعت میں قانون یہ بنادیا گیا تھا کہ جس شخص کے پاس مال ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس کے مخاطب ہیں کہ جب کبھی مال بقدرنصاب جمع ہوجائے تو زکوٰۃ ادا کریں تو پھر اگر عمر بھر میں کبھی مال جمع ہی نہ ہو تو یہ اس کے منافی نہیں۔ (روح المعانی) مَادُمْتُ حَیًّا…” میں جب تک زندہ رہوں۔ “ اس میں یہ کہنا مقصود ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت مدت العمر تک ہے۔ جب تک آدمی زندہ ہے یہ فرائض اس سے کبھی ساقط نہیں ہوتے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی یہ دونوں فرض تھے۔ لیکن اس میں شرط زندگی کی ہے۔ جب تک آپ ( علیہ السلام) دنیا میں رہے تو آپ ( علیہ السلام) دونوں کے پابند تھے اور جب آپ ( علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تو وہ زمانہ رخصت کا ہے، پھر جب دوبارہ آپ ( علیہ السلام) دنیا میں آئیں گے تو پھر ان فرائض کی پابندی کرنا ہوگی۔ چوتھی بات یہ فرمائی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی والدہ کا فرمانبردار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے والدین کی اطاعت نہیں کرتا اور ان کے سامنے عاجزی اختیار نہیں کرتا بلکہ سرکشی دکھاتا ہے وہ جبار اور شقی ہے۔ مزید یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے والدین کا فرمانبردار بنایا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی والدہ کا فرمانبردار بنایا ہے حالانکہ فرمانبرداری تو دونوں کی فرض ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صرف والدہ سے پیدا ہوئے تھے اس لیے ان کی فرمانبرداری آپ ( علیہ السلام) پر فرض تھی۔ اگر آپ ( علیہ السلام) کے والد ہوتے تو یقینا ان کا بھی ذکر کیا جاتا۔ اسی لیے قرآن کریم نے جب بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے تو عیسیٰ ابن مریم کہا ہے، باپ کا نام کبھی نہیں لیا، حالانکہ شریعت میں ہمیشہ نسب باپ سے چلتا ہے اور نسبت بھی باپ سے ہوتی ہے۔ عرب میں آج بھی بیٹے کے ساتھ باپ کا نام لگتا ہے، ماں کا نام کبھی نہیں لگتا اور اگر کسی شخص کو ماں کی طرف منسوب کیا جائے اور اسی حوالے سے اسے پکارا جائے اور وہی حوالہ اس کی شناخت کا ذریعہ بنے تو سننے والے سمجھ جاتے ہیں کہ اس شخص کا نسب ثابت نہیں اور کچھ خبر نہیں کہ اس کا باپ کون تھا۔ اور یہ بات کسی بھی شریف شخص کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی۔ اتنی بڑی واضح شہادت کے بعد بھی اگر کچھ الجھے ہوئے دماغ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یوسف نجار کا بیٹا قرار دیتے ہیں تو انھیں اپنی عقل پر رونا چاہیے۔
Top