Ruh-ul-Quran - Maryam : 42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
یاد کرو ! جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ ! آپ کیوں پرستش کرتے ہیں ایسی چیزوں کی جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ وہ کچھ آپ کے کام آنے والی ہیں۔
اِذْقَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓـاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَالاَ یَسْمَعُ وَلاَ یُبْصِرُ وَلاَ یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا۔ یٰٓـاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآئَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ بَاْ تِکَ فَا تَّبِعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا۔ یٰٓـاَبَتِ لاَ تَعْبُدِالشَّیْطٰنَ ط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا۔ یٰٓـاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا۔ (مریم : 42، 43، 44، 45) (یاد کرو جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ ! آپ کیوں پرستش کرتے ہیں ایسی چیزوں کی جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ وہ کچھ آپ کے کام آنے والی ہیں۔ اے میرے باپ ! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، سو آپ میری پیروی کریں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھائوں گا۔ اے میرے باپ ! شیطان کی بندگی نہ کیجیے، بیشک شیطان رحمن کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ ! میں ڈرتا ہوں کہیں آپ کو رحمن کا کوئی عذاب نہ آپکڑے، پھر آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں۔ ) اپنے والد کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر ان چار آیتوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ تقریر ہے جو آپ ( علیہ السلام) نے اپنے والد کے سامنے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب آپ ( علیہ السلام) کو نبوت عطا کی تو انبیائے کرام کے طریقے کے مطابق یقینا اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو دعوت کا آغاز اپنے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں سے کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے اس حکم کے مطابق مناسب موقع دیکھ کر اپنے والد کے سامنے اپنی دعوت رکھی۔ اس دعوتی تقریر میں اصل پیغام سمجھنے سے پہلے چند مزید باتیں قابل توجہ ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) باربار اپنے والد کو باپ کہہ کر خطاب کررہے ہیں۔ اگر آذر آپ ( علیہ السلام) کے باپ نہیں بلکہ چچا تھے تو قرآن کریم نے بار بار باپ کے لفظ کا تکرار کیوں کیا۔ باپ نے آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں جو سخت رویہ اختیار کیا اگر آذر آپ ( علیہ السلام) کے حقیقی باپ نہ تھے تو قرآن کریم انھیں چچا کا خطاب دے کر یہ بات واضح کرسکتا تھا کہ ان کی سختی کی وجہ جہاں بت پرستی سے شدید محبت تھی، وہاں یہ بھی تھی کہ وہ آپ ( علیہ السلام) کے حقیقی باپ نہ تھے۔ اس لفظ کے تکرار سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آذر آپ ( علیہ السلام) کے باپ تھے۔ تو رہی یہ بات کہ تورات نے انھیں چچا قرار دیا ہے تو، تورات کی ہر بات کو قبول کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ تورات میں جابجا تحریف ہوچکی ہے اور ایک سے زیادہ مرتبہ تورات کو مکمل جلائے جانے کے بعد اسے ازسرنو لکھوایا گیا ہے جس میں تورات بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک حصہ بن کے رہ گئی ہے اور نہ جانے اس کے کتنے باب گم ہوچکے اور کتنے مقامات پر ترمیم اور تحریف ہوچکی ہے۔ دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جتنی باتیں اپنے والد سے ارشاد فرمائی ہیں ان میں ہر بات سے پہلے یٰٓـاَبَتِکہہ کر خطاب کیا ہے۔ یہ لفظ عربی لغت کے اعتبار سے باپ کی تعظیم و محبت کا خطاب ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں، اے میرے باپ ! بلکہ اس میں ادب کے تقاضے بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ اگرچہ بت پرست اور کافر تھے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی تعظیم و تکریم میں کوئی کمی نہ آنے دی اور پھر اس لفظ کا تکرار آپ ( علیہ السلام) کی دلسوزی، دردمندی اور استمالت کی دلیل ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) اپنے باپ کی گمراہی سے سخت آزردہ ہیں۔ آپ ( علیہ السلام) کی دلی تمنا ہے کہ کسی طرح وہ ایمان لا کر آخرت میں سرخروئی کا سامان کرلیں اور آپ ( علیہ السلام) کا یہ رویہ اسلام کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔ اسلام نے کافر اور فاسق ماں باپ کے بھی احترام کا حکم دیا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مومن کو جس طرح اپنے باپ کی تعظیم کرنی چاہیے اس سے کہیں بڑھ کر اس کی ہدایت کے لیے نہایت دردمند ی اور حکمت سے کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس تقریر کے چند اہم نکات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی تقریر میں چار باتیں ارشاد فرمائیں۔ ان میں سب سے پہلی بات جو پہلی آیت میں فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ابا جان ! آپ ان بتوں کو معبود مانتے اور ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ آپ کے کسی کام آتے ہیں۔ کسی کو معبود ماننے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے حوالے سے اس لائق ہے کہ اس کے سامنے سجدہ کیا جائے اور اس کی پوجا کی جائے اور وہ اپنی قدرت کے لحاظ سے یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی ناتوانیوں اور ضرورتوں میں اس کے سامنے دست سوال دراز کیا جائے اور وہ اپنے بےپناہ علم اور وسعت کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اپنی تنہائیوں میں اسے پکارا جائے اور اس سے اس وقت مدد مانگی جائے جبکہ ہر سہارا جواب دے دے کیونکہ محض کسی کو معبود بنا لینا کوئی کھیل نہیں، یہ تو انسانی ضرورت ہے۔ جب ہر سہارا ٹوٹنے لگتا ہے اور تنہائیاں ڈسنے لگتی ہیں اور ناتوانی عذاب بن جاتی ہے تو پھر آدمی خواہی نخواہی کسی کو پکارتا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کو تو اس لیے پکارتا اور اس کی بندگی کرتا ہے کہ اس نے اسے پیدا کیا ہے، اس کی زندگی کی ہر ضرورت مہیا کی ہے اور اسے احساس اور عقل کی دولت عطا کی ہے اور پھر اس کی فریادوں کو سنتا، اس کے دکھ درد کو دیکھتا اور ہر مشکل وقت میں اس کی دستگیری کرتا ہے۔ لیکن آپ جن بتوں کو پکارتے ہیں وہ آپ کے ہاتھوں کی گھڑی ہوئی مورتیاں ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکتی ہیں اور جن اَن دیکھی قوتوں کو آپ نے معبود بنا رکھا ہے ان کی حیثیت بھی وہم و گمان سے زیادہ نہیں۔ تو پھر یہ آپ کے نام نہاد معبود آخر کس مرض کی دوا ہیں۔ یہ ایک ایسی بدیہی دلیل ہے، عقلِ سلیم جس کا جواب نہیں دے سکتی۔ دوسری آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ عبادت اور بندگی کس کی ہونی چاہیے ؟ پرستش کے کون لائق ہے ؟ وہ کون سی ذات ہے جسے مطاع مطلق مانا جاسکتا ہے ؟ وہ کون ہے جس کی ذات نارسائیوں سے پاک ہے ؟ جو ہر طرح کی خواہش، غرض، جانبداری اور عصبیت سے بلند ہے، جو انسانی فطرت کو سمجھنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتی، جس کا فرمایا ہوا ہر خطا و نسیان سے پاک ہے۔ ان باتوں کے جواب کے لیے علم چاہیے۔ ایسا علم جو بجائے خود ہر غلطی سے مبرا ہو۔ عقلِ سلیم اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ ایسا علم حقیقی صرف خدا کی طرف سے آسکتا ہے اور اس کا ذریعہ وحی الٰہی ہے اور یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ قوموں اور مذاہب کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوئے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اتری جس نے آکر ان کی زندگی کے مقاصد اور زندگی گزارنے کے طریقے کو واضح کیا اور ان انبیاء کی بےعیب زندگی اور ان کا بےعیب کردار اور انسانوں کے ساتھ ان کی گہری ہمدردی اور غمخواری اور بغیر کسی لالچ اور معاوضے کے زندگی بھر ان کی ہدایت کے لیے کوشاں رہنا، یہ وہ دلائل ہیں جس نے نبوت اور وحی الٰہی کی تصدیق کی ہے۔ ابا جان ! اللہ تعالیٰ نے اس دور میں مجھے وہ علم عطا فرمایا ہے جو نبوت کے ذریعے ملتا ہے۔ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے، میں زندگی کے حقائق کو وحی الٰہی کی روشنی میں دیکھتا ہوں۔ آپ چونکہ اس علم سے بےبہرہ ہیں، آپ کا احترام سر آنکھوں پر، لیکن ہدایت کے لیے آپ کو میری پیروی کرنا ہوگی۔ میں اس صراط مستقیم اور سیدھے راستے کی آپ کو خبر دوں گا جو اس دنیا میں کامیابی کی ضمانت اور آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ ہے۔ تیسری آیت میں یہ حقیقت واضح فرمائی کہ آپ اگر میری پیروی نہ کرکے صحیح علم سے ابا کریں گے تو آپ درحقیقت شیطان کی بندگی کریں گے اور شیطان اللہ تعالیٰ کے راستے کا دشمن ہے، اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگتے ہوئے صاف صاف اعلان کیا کہ میں آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کروں گا۔ آپ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت کا انکار کرکے شیطان کی بندگی کررہے ہیں جبکہ آپ جانتے ہیں کہ شیطان اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ تو جو شخص اس کی بندگی کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں میں شامل ہوجائے گا۔ اس آیت کریمہ میں لاَ تَعْبُدِالشَّیْطٰنْ فرمایا گیا ہے۔ جس کا معنی عام طور پر کیا جاتا ہے شیطان کی پرستش اور اس کی پوجا پاٹ نہ کرو حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ شیطان کی پرستش کبھی کسی نے نہیں کی۔ ہر وہ شخص جو شیطان کی حقیقت کو جانتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ ہمیشہ شیطان پر لعنت بھیجتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شیطان گمراہی کا ذریعہ ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ شیطان کی عبادت نہ کرو، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہاں عبادت پرستش کے معنی میں نہیں بلکہ اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ سب فاسق و فاجر اور گمراہ لوگ شیطان کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور اس کی اطاعت بھی کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عبادت اطاعت کے معنی میں بھی آتا ہے اور قرین قیاس یہ ہے کہ یہاں اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ آپ پرستش تو بتوں کی کرتے ہیں لیکن زندگی کا رویہ شیطان کی اطاعت پر مبنی ہے۔ تو آپ ان دونوں سے توبہ کریں ورنہ آپ شیطان کے پیروکاروں میں شامل ہوجائیں گے۔ چوتھی آیت کریمہ میں یہ حقیقت واضح فرمائی کہ جب تک کسی شخص کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایت نہیں آتی تو اس کے پاس عذر ہوتا ہے، بےعلمی اور بیخبر ی کا اور وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے تو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ صراط مستقیم کیا ہے کیونکہ ہمارے پاس نہ کوئی نبی آیا اور نہ کوئی نبی کے راستے پر چلنے والا۔ چناچہ آج تک ابا جان آپ کے پاس بھی یہ عذر موجود تھا۔ لیکن اب جبکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبوت دی ہے اور میں علم الٰہی لے کر آپ کے پاس آیا ہوں تو اب اگر آپ اس علم کی پیروی سے انکار کریں گے تو مجھے اندیشہ ہے کہ آپ پر کہیں اللہ تعالیٰ کا عذاب نہ ٹوٹ پڑے اور آپ کو شیطان کا ساتھی قرار دے کر اس انجام سے دوچار نہ کردیا جائے جو شیطان کی پیروی کرنے والوں کا مقدر ہے۔
Top