Ruh-ul-Quran - Maryam : 68
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّاۚ
فَوَرَبِّكَ : سو تمہارے رب کی قسم لَنَحْشُرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور جمع کریں گے وَالشَّيٰطِيْنَ : اور شیطان (جمع) ثُمَّ : پھر لَنُحْضِرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور حاضر کرلیں گے حَوْلَ : ارد گرد جَهَنَّمَ : جہنم جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پس آپ کے رب کی قسم ہم ضرور جمع کریں گے ان کو بھی اور ان کے شیطانوں کو بھی، پھر ہم ان کو جہنم کے گرد اس طرح حاضر کریں گے کہ وہ دوزانو بیٹھے ہوئے ہوں گے یا گھنٹوں کے بل گرے پڑے ہوں گے۔
بریں عقل و دانش بباید گریست فَوَرَبِّکَ لَنَحْشُرَنَّھُمْ وَالشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّھُمْ حَوْلَ جَھَنَّمَ جِثِیًّا۔ (مریم : 68) (پس آپ کے رب کی قسم ہم ضرور جمع کریں گے ان کو بھی اور ان کے شیطانوں کو بھی، پھر ہم ان کو جہنم کے گرد اس طرح حاضر کریں گے کہ وہ دوزانو بیٹھے ہوئے ہوں گے یا گھنٹوں کے بل گرے پڑے ہوں گے۔ ) کفار کے انجام سے ترہیب قیامت کے وقوع پر قرآن کریم نے بیشمار دلائل دیئے جن میں عقلی بھی ہیں، نقلی بھی۔ آفاقی بھی ہیں اور انفسی بھی۔ واقعاتی بھی ہیں اور تاریخی بھی۔ لیکن ان کے باوجود جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ پیغمبرانہ ہمدردی اور خیرخواہی کے حوالے سے دعوت و ہدایت کی ایک ہی شکل باقی رہ جاتی ہے کہ قیامت کے آجانے کے بعد انکار کرنے والوں کے ساتھ جس طرح کے حالات پیش آنے والے ہیں ان کی ایک تصویر ان کے سامنے رکھ دی جائے کہ اگر ان کی قبولیت کی استعداد پر بالکل پتھر نہیں پڑگئے تو شاید وہ اپنے انجام کی فکر کرکے صحیح راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس لیے پیش نظر آیت کریمہ میں قیامت پر ایک فطری اور واقعاتی دلیل دینے کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ پیش آنے والے احوال کا ذکر کیا جارہا ہے اور وہ بھی انتہائی حتمی انداز میں تاکہ سننے والے پوری طرح متنبہ ہوسکیں۔ ارشاد فرمایا : کہ اے پیغمبر ! آپ کے رب کی قسم۔ اس قسم میں اگر ایک طرف آنحضرت ﷺ کے لیے نہایت تلطف کا اظہار ہے تو دوسری طرف شاید یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ آپ ﷺ کے مخالفین بھی اس بات کے تو قائل ہیں کہ آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، تو آپ ﷺ کا رب کیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔ اس لیے ان لوگوں کو خبردار ہونا چاہیے کہ جس قیامت کا یہ انکار کررہے ہیں اس دن ہم انھیں ان کے شیطانوں کے ساتھ ضرور اکٹھا کریں گے۔ شیاطین کے ساتھ وائو مع کے معنی میں ہے۔ یعنی ان میں سے ایک ایک کافر کو اس طرح محشر میں لایا جائے گا کہ جن شیاطینِ جن و انس نے انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی ہر کافر کا شیطان اس کے ساتھ بندھا ہوگا۔ یہ سب زنجیروں میں جکڑے ہوئے محشر میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ انھیں جہنم کے گرد اس طرح حاضر کریں گے کہ وہ دوزانو بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ جَثِیٌّ کا مفہوم جَثِیٌّ … جَاثٌ کی جمع ہے۔ جَثَا جَثُوا کے معنی دوزانو اور اکڑوں بیٹھنے کے ہیں۔ غلام اپنے آقا کے سامنے اور مجرم عدالت میں اپنا فیصلہ سننے کے لیے اسی طرح بیٹھتے ہیں۔ بعض اہل لغت کے نزدیک جَثَا کا معنی گھٹنوں کے بل جھکنا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے کافر سیدھے کھڑے نہ ہوسکیں گے اور گھٹنوں کے بل گرے پڑے ہوں گے۔ مجاہد ( رض) اور قتادہ ( رض) نے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ دونوں کے مآل میں کوئی فرق نہیں کہ وہ جہنم کے گرد غلاموں کی طرف اکڑوں بیٹھے فیصلے کا انتظار کررہے ہوں گے یا جہنم کی ہولناکی کی وجہ سے ان کی ٹانگیں ان کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیں گی اور وہ گھٹنوں کے بل گرے پڑے ہوں گے۔ یہ منظرکشی اس لیے کی جارہی ہے تاکہ مشرکین کے عمائدین کو شاید تنبہ ہوسکے کہ آج جبکہ وہ اپنی معمولی دولت اور امارت کے نشے میں اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کی دعوت کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب انھیں اس انجام سے دوچار ہونا پڑے گا کہ وہ جہنم کے پاس غلاموں کی طرح بیٹھے یا گرے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے انتظار میں ہوں گے کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور عام کفار کو بھی توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم جن سرداروں اور لیڈروں کے پیچھے چل کر یا جنات کے موہوم تصورات کا یقین باندھ کر قیامت کا انکار کررہے ہو، کل کو تم اور تمہارے یہ گمراہ کرنے والے سردار ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوئے گھٹنوں کے بل جہنم کے پاس پڑے اپنے انجام کا انتظار کررہے ہوں گے۔ یہ تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ ہمیں بہرصورت جہنم میں جانا ہے۔ انتظار صرف اس بات کا ہوگا کہ کس کے لیے جہنم کے کس وارڈ میں جانے کا حکم ہوتا ہے۔
Top