Ruh-ul-Quran - Maryam : 74
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّ رِءْیًا
وَكَمْ : اور کتنے ہی اَهْلَكْنَا : ہم ہلاک کرچکے قَبْلَهُمْ : ان سے پہلے مِّنْ قَرْنٍ : گروہوں میں سے هُمْ : وہ اَحْسَنُ : بہت اچھے اَثَاثًا : سامان وَّرِءْيًا : اور نمود
اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کر چھوڑیں جو ان سے سازوسامان اور شان و شوکت میں کہیں بہتر تھیں۔
وَکَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْنٍ ھُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِئْـیًا۔ (مریم : 74) (اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کر چھوڑیں جو ان سے سازوسامان اور شان و شوکت میں کہیں بہتر تھیں۔ ) مغروروں کے معارضہ کا جواب ” قَرْن “ کے معنی ہیں ایک دور کے لوگ، امت اور قوم۔ ” الاثاث “ متاع البیت، یعنی گھر کے سامان کو کہتے ہیں۔ رِئْـیًا خوش منظر اور شان و شوکت پر بولا جاتا ہے۔ تاج العروس میں اس کی تشریح ان الفاظ سے کی گئی ہے۔ وھومارأتہ العین من حالۃ حسنۃ وکسوۃ ظاہرۃ ” وہ دلکش حالت اور ظاہری لباس جو آنکھوں سے دکھائی دے۔ “ اشرافِ قریش کی دلیل اور ان کے معارضہ کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اسباب و سامان اور شان و شوکت کسی فرد یا کسی قوم کے اللہ تعالیٰ کے یہاں مقرب ہونے کی دلیل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے فراعنہ اور نماردہ اور سکندر و چنگیز اللہ تعالیٰ کے مقرب ہوتے اور دنیا کی رہنمائی کرتے اور وہ قومیں کبھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار نہ ہوتیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی شان و شوکت سے نوازا تھا اور دنیا ان کی عظمتوں کے سامنے جھکتی تھی لیکن جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی دکھائی اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا۔ قوم عاد اور قوم ثمود دنیا کی طاقتور ترین قومیں تھیں۔ فرعون اور اہل فرعون ہر طرح کی فراخی اور عیش و عشرت سے بہرہ ور اور بڑی بڑی فوجوں کے مالک تھے، لیکن ان کا جو انجام ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔
Top