Ruh-ul-Quran - Maryam : 76
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى١ؕ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا
وَيَزِيْدُ : اور زیادہ دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا : جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی هُدًى : ہدایت وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے نزدیک ثَوَابًا : باعتبار ثواب وَّخَيْرٌ : اور بہتر مَّرَدًّا : باعتبار انجام
اور اللہ تعالیٰ اضافہ فرماتا ہے ان لوگوں کی ہدایت میں جو ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ تیرے رب کے نزدیک اجر کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں۔
وَیَزِیْدُاللّٰہُ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا ھُدًیط وَالْبٰـقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌعِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ مَّرَدًّا۔ (مریم : 76) (اور اللہ تعالیٰ اضافہ فرماتا ہے ان لوگوں کی ہدایت میں جو ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ تیرے رب کے نزدیک اجر کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں۔ ) ایک اور سنت اللہ کا بیان اس آیت کریمہ میں ایک اور سنت الٰہی کا ذکر ہے وہ یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ نافرمانوں اور سرکشوں کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائیں یا پھر اپنے انجام کو بدتر سے بدتر بنالیں۔ اسی طرح وہ ان لوگوں کی ہدایت میں بھی اضافہ کرتا ہے جو ہدایت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہدایت کو چار معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور ہم نے سورة فاتحہ کی تشریح میں اور سورة بقرہ کے آغاز میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ان معنوں میں سے ایک معنی قلبی نوروبصیرت ہے۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب وہ کسی نئے راستے کو اختیار کرتا یا نئے نظریئے کو قبول کرتا ہے تو شروع میں اس کا دماغ قبولیت کے مراحل طے کرتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ بات دل میں اترنے لگتی ہے۔ دل کبھی اسے قبول کرتا ہے اور کبھی توہمات کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی کشمکش میں آخر ایک دن ایسا آتا ہے جب دل اس بات پر ٹھک جاتا ہے۔ اور پھر دنیا کا کوئی تغیر دل کے اس اطمینان کو شکست نہیں دے سکتا۔ اسی کو قلبی بصیرت یا قلبی نور کا نام دیا گیا ہے۔ ایک مومن کی معراج یہی ہے۔ جب وہ ہدایت کے راستے کو اختیار کرتا ہے تو وہ ہر طرح کے مراحل سے گزرتا ہے لیکن جب اس راستے میں پیش آنے والی ذہنی الجھنوں اور عملی مشکلات پر ثابت قدم رہتا ہے تو بالآخر اس کے دل میں ایک نور روشن ہوتا ہے جو ہر طرح کے وہم اور بےیقینی کو جلا کے رکھ دیتا ہے۔ جو لوگ ساری عمر دماغی کاوشوں تک محدود رہتے ہیں اور ان کے دل کی کلی کھلنے میں نہیں آتی ان کے بارے میں کھٹکا ہی رہتا ہے کہ وہ کسی وقت بھی کوئی اور فیصلہ کر بیٹھیں۔ اسی لیے اقبال مشورہ دیتا ہے : دل کا نور کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ہم جو صحابہ کرام ( رض) کے اس طرح کے اقوال پڑھتے ہیں کہ آج اگر ہمارے سامنے عالم غیب کی وہ ساری چیزیں جن کی اطلاع ہمیں قرآن و سنت نے دی ہے کھل کر سامنے آجائیں اور ہم انھیں بہ چشم سر دیکھیں تو ہمارے ایمان و یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ ہم یقین کی اس دولت کو پاچکے ہیں جو دیکھنے اور سننے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اسی قانون کا اظہار ہے جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ صحابہ کرام ( رض) نے چونکہ اس راستے کی ہر وادی کو سر کرلیا تھا اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے مستحق ٹھہرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا تھا۔ پھر اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر کام کرنے سے پہلے دنیا کے نفع عاجل کو نہیں بلکہ نفع آجل کو دیکھتے تھے جس کا حاصل یہ تھا کہ ان کا ہر عمل باقی رہنے والا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو اَلْبٰـقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ کہا گیا ہے۔ ہر وہ نیک عمل جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے لیے کیا جاتا ہے وہ باقیات میں شامل ہے۔ اور جو کام دنیا کے لیے کیا جاتا ہے وہ فانی دنیا کی طرح فنا ہو کر رہ جاتا ہے۔
Top