Ruh-ul-Quran - Maryam : 88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا : اور وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنالیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَلَدًا : بیٹا
اور وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے اولاد بنا رکھی ہے۔
وَقَالُوا اتَّخَذَالرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ (مریم : 88) ( اور وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے اولاد بنا رکھی ہے۔ ) انسان کی کمزوری انسان کی ہمیشہ سے یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ ہر ایسی بات کو قبول کرنے سے پہلوتہی کرتا رہا ہے جس سے اس کی زندگی میں صالح تبدیلی کا راستہ کھلتا ہو۔ انسان کو ہمیشہ اپنی خواہشات کی پیروی میں زندگی گزارنا محبوب معلوم ہوتا ہے اور ایسے راستے پر چلنا جس میں ایمان و کردار کی پختگی اور ایثار و قربانی کا رویہ اختیار کرنا پڑے بوجھل معلوم ہوتا ہے۔ وہ حیوانوں کی طرح یہ چاہتا ہے کہ میں زندگی اس طرح گزاروں جس طرح میرا نفس چاہتا ہے اور جس میں میرے سفلی جذبات کو تسکین ملتی ہے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہر دور کے اچھے اور سچے انسان ہمیشہ ایک ایسی روش کی طرف بلاتے رہے ہیں جس میں اپنی بہت ساری مرضیات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی مرضی کو اختیار کرنا پڑتا ہے، تو بجائے اس کے کہ وہ اس بات کو اختیار کرلے یا بالکل انکار کردے وہ بیچ کا راستہ اختیار کرتا ہے کہ جس سے ان سچے لوگوں کی دی ہوئی صداقتوں سے یکسر منہ پھیرنے کی نوبت بھی نہ آئے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کا سامان بھی ہوتا رہے۔ چناچہ اس نے ہمیشہ اس کے لیے کبھی شفاعتِ باطلہ کا راستہ نکالا جس کی تردید گزشتہ آیت کریمہ میں ہوچکی ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کی تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی بازپرس اور اس کے عتاب سے بچا جاسکے۔ چناچہ انسان کی اسی کمزوری اور سہولت پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے رحمن کے لیے اولاد کا تصور اختراع کیا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ رحمن دنیا کا نظام اکیلا کیسے چلا سکتا تھا اس نے اپنی مدد کے لیے اپنی اولاد بھی بنا رکھی ہے۔ چناچہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنایا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور اس کی قدرت میں شریک ٹھہرایا اور مشرکینِ عرب نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا۔ ولد کا معنی یہ بات یاد رہے کہ ولد کا لفظ واحد جمع مذکر مونث سب کے لیے آتا ہے۔ اس لیے اس کا معنی صرف بیٹا نہیں بلکہ اولاد ہے۔ چناچہ اس آیت کریمہ کے مفہوم میں جس طرح اہل کتاب کے بنائے ہوئے بیٹوں کا ذکر ہے اسی طرح مشرکینِ عرب کے عقیدے کے مطابق بیٹیوں کا ذکر بھی ہے۔ ان تمام قوموں نے اپنی بداعمالیوں اور بداطواریوں سے بچنے کے لیے ایک شارٹ کٹ نکالا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد بنا ڈالی اور اپنے تئیں یہ سمجھ کر مطمئن ہوگئے کہ اولاً تو خدا کے سامنے حاضری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر بفرض محال حاضری ہوئی بھی تو اللہ تعالیٰ کی اولاد ہمیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچا لے گی۔
Top