Ruh-ul-Quran - Maryam : 92
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ
وَمَا : جبکہ نہیں يَنْۢبَغِيْ : شایان لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ وہ بنائے وَلَدًا : بیٹا
اور یہ بات خدا کے شایاں نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنا لے۔
وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا۔ (مریم : 92) (اور یہ بات خدا کے شایاں نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنا لے۔ ) ایک آسان دلیل اس آیت کریمہ میں نہایت سہل انداز میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے ان گمراہ لوگوں کی تردید فرمائی گئی ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد بنا رکھی ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت کیا ہے ؟ اولاد کی ضرورت کسی نہ کسی احتیاج کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احتیاج سے پاک ہے یا یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری اولاد بڑھاپے میں میری لاٹھی بنے۔ اللہ تعالیٰ پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا۔ کبھی یہ سوچا جاتا ہے کہ بعد میں میرا نام لینے والا کون ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ پر کبھی موت طاری نہیں ہوگی کہ کبھی ایسا زمانہ آئے جب وہ نہ ہو، کبھی اپنے کاموں کی بجاآوری میں کسی شریک اور معاون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اکیلے وہ کام کیے نہیں جاسکتے اور اللہ تعالیٰ کو ایسی کوئی ضرورت لاحق نہیں کیونکہ وہ پوری کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے یکہ اور تنہا کافی ہے۔ یہی کچھ احتیاجات ہیں جو کسی کو اپنے جانشین کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات حیی وقیوم ہے، قدیم، ازلی اور ابدی ہے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو ” کن “ کہتا ہے تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے، تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اپنی اولاد بنائے جو سراسر اس کی ذات کے لیے ایک دھبے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک نکتہ ان آیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے رحمن کا اسم گرامی بار بار استعمال ہوا ہے۔ حقیقت تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نام کے لانے سے عیسائیوں کے عقیدہ ” کفارہ “ کا ابطال مقصود ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان چونکہ پیدائشی طور پر گنہگار پیدا ہوتا ہے، اس کے گناہوں کی بخشش کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو اپنا بیٹا بنایا اور اسے انسانوں کے گناہوں کے کفارے کے لیے سولی پر چڑھایا گیا۔ اس طرح انسان کی نجات کا ایک راستہ نکلا۔ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ رحمن ہے تو اسے گنہگار انسانوں کو بخشنے کے لیے اس امر کی حاجت نہیں کہ اس کا ایک بیٹا ہو اور اس معصوم اور بےگناہ کو دنیا بھر کے بدکاروں اور سیاہ کاروں کی پاداش میں سولی چڑھایا جائے۔ وہ رحمن ہے، اس کی رحمت کا دامن بڑا وسیع ہے۔ لوگوں کی بخشش کے لیے اس کی رحمت کافی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کی صفت رحمت کے ساتھ ساتھ چونکہ اس کی ایک صفت عدالت بھی ہے تو انسانوں کی فلاح و نجات کے لیے اس کی دونوں صفات کا ظہور ہوا ہے۔
Top